بھارت کی جانب سے دوبارہ حملے کی نئی دھمکیاں "خطرناک وہم" قرار ، عالمی برادری جنوبی ایشیا کے خطے کی سنگین صورتحال کی طرف توجہ دے ۔ سفیر بلال احمد

ہفتہ 11 اکتوبر 2025 00:10

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اکتوبر2025ء) پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں بھارت کی جانب سے دوبارہ حملے کی نئی دھمکیوں کو "خطرناک وہم" قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کی توجہ اس سنگین صورتحال کی طرف مبذول کرائی ہے۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی فرسٹ کمیٹی (جو تخفیفِ اسلحہ اور بین الاقوامی سلامتی سے متعلق ہے) میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سفیر بلال احمد نے کہا کہ جنوبی ایشیا ایک بار پھر بھارت کے بلا اشتعال فوجی حملے کے باعث جنگ کے دہانے پر پہنچا ۔

یہ حملہ مئی میں پاکستان کے خلاف دوہری صلاحیت کے حامل میزائلوں، خودکار ہتھیاروں اور لڑاکا طیاروں کے ذریعے کیا گیا، جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع تھا جب ایک ایٹمی ریاست نے دوسری ایٹمی ریاست کے خلاف اس نوعیت کے ہتھیار استعمال کیے۔

(جاری ہے)

سفیر کے مطابق پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق استعمال کیا اور ٹھوس جواب دیا ، جس کے نتیجے میں بھارت کے سات طیارے مار گرائے گئے اور بھارت کو جنگ بندی کی درخواست کرنا پڑی، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کئی دیگر دوست ممالک کی کوششوں سے ممکن ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اس شرمناک شکست کے باوجود بھارتی قیادت ان غیر ذمہ دارانہ اقدامات کو جنوبی ایشیا میں ’’نیا معمول‘‘ قرار دیتی ہے اور کسی بھی وقت، کسی بھی بہانے پاکستان پر دوبارہ حملے کی دھمکیاں دیتی ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارتی سیاسی و عسکری قیادت کھلے عام حتیٰ کہ گزشتہ ہفتے بھی جغرافیہ بدلنے اور پاکستان کو نقشے سے مٹانے جیسے بیانات دے رہی ہے، جو اس خطرناک وہم کا مظہر ہے کہ ایک ایٹمی ریاست دوسری کو زمین سے مٹا سکتی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا: کیا یہ ’’نیا غیر معمول‘‘ قابلِ قبول ہے ایک ایسے خطے میں جہاں دو ایٹمی ریاستیں ساتھ ساتھ موجود ہیں؟۔سفیر بلال احمد نے کہا کہ بھارت جوہری و میزائل حدود بندی اور خطرات میں کمی کے اقدامات پر دو طرفہ مذاکرات سے گریز کرتا رہا ہے، جو کہ ایک ذمہ دار جوہری ریاست کے شایانِ شان رویہ نہیں۔ آخری مرتبہ جوہری و روایتی اعتماد سازی کے مذاکرات کو ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنی عسکری اور تکنیکی برتری کے زعم میں مذاکرات کو ذمہ داری نہیں بلکہ دباؤ اور فائدے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام حل طلب امور ، بشمول جموں و کشمیر تنازعہ پر جامع، نتیجہ خیز اور بامقصد مذاکرات کے لیے تیار ہے، جیسا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں کہا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی جانب سے خطے میں ’’اسٹریٹجک ری اسٹرینٹ ریجیم (Strategic Restraint Regime)‘‘ کے قیام کی تجویز، جو ہتھیاروں کی تباہ کن دوڑ سے بچنے کے لیے دی گئی تھی، اب بھی میز پر موجود ہے۔بلال احمد نے کہا کہ دنیا میں یکطرفہ طاقت کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، اور غزہ میں جاری جنگ نے عالمی برادری کے اجتماعی ضمیر پر ایک بدنما داغ لگا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان حالیہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کے اعلان کا خیرمقدم کرتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ یہ مستقل جنگ بندی اور پائیدار امن کا باعث بنے گا۔انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پرجوہری ہتھیاروں کو جدید بنایا جا رہا ہے، غیر مستحکم کرنے والی ٹیکنالوجیز تیار ہو رہی ہیں، اور نئی جہتوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اسلحہ کنٹرول کا عالمی ڈھانچہ منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے، اور آخری دوطرفہ معاہدہ بھی اگلے سال کے اوائل میں ختم ہونے والا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ عالمی امن و سلامتی کے لیے ایک پائیدار اور منصفانہ نظام تشکیل دیا جانا چاہیے۔آخر میں، پاکستانی سفیر نے صرف ایٹمی ایندھن کی پیداوار پر پابندی کے معاہدے کی تجویز کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ یہ تجویز موجودہ عدمِ توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے کیونکہ اس میں پہلے سے موجود ہزاروں کلوگرام ایٹمی مواد کو شامل نہیں کیا گیا جو مزید ہزاروں جوہری ہتھیار بنانے کے قابل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی تجاویز جو اپنے پیش کرنے والوں کے لیے لاگت سے پاک ہوں لیکن دوسروں کی جائز سلامتی کی ضروریات کو نظرانداز کریں، کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔