سابق چیف جسٹس کے فرزند کو وائس چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ کا عہدہ دینے کا فیصلہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے گلے پڑگیا، اپنے ہی وزراء اور ارکان اسمبلی مخالف ہوگئے،متنازعہ شخصیت کے بارے میں وزیراعلیٰ کے متنازعہ فیصلے کی باز گشت ملک بھرمیں پھیل گئی،سیاسی ،سماجی اور کاروباری حلقوں کی وزیراعلیٰ پر تنقید،فیصلہ پر نظرثانی کا مطالبہ

منگل 1 جولائی 2014 08:03

کوئٹہ/اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1جولائی۔2014ء)سابق چیف جسٹس کے فرزند کو وائس چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ کا عہدہ دینے کا فیصلہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے گلے پڑگیا، اپنے ہی وزراء اور ارکان اسمبلی اٹھ کھڑے ہوئے اور وزیراعلیٰ پر دباؤ بڑھانے لگے ہیں کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔بلوچستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کی متنازع تقرری کی باز گشت ملک بھر کے ساتھ ساتھ گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی سنائی دی جب حزب اختلاف کے رکن سردار عبد الرحمان کھیتران نے کہا کہ ارسلان افتخار کو ’بزنس ٹائیکون یعنی بڑا کاروباری‘ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ وہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بڑے بیٹے ہیں اور وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔

(جاری ہے)

بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ارسلان افتخار نے ڈاکٹری کے شعبے کو بطور پیشہ اختیار کرنے کی بجائے پولیس اور ایف آئی اے میں ملازمت کو ترجیح دی۔

پولیس اور ایف آئی اے میں ملازمت کے حوالے سے نہ صرف وہ میڈیا میں تنقید کی زد میں رہے بلکہ ان پر بحریہ فاوٴنڈیشن کے سربراہ ملک ریاض نے بھی انتہائی سنگین الزامات لگائے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے کے دعوے کرتی ہے لیکن بلوچستان میں کیا کوئی ایسا دیانتدار شخص نہیں تھا جو پنجاب اور پوری دنیا سے سرمایہ کاروں کو کھینچ کر لاتا ان کی معلومات کے مطابق حکومتی اراکین کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔سردار عبد الرحمان نے کہا کہ تجربہ کار افراد کو چھوڑ کر’ایک بدنام زمانہ شخص کو، جس کے ابھی تک نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا میں سکینڈل چل رہے ہوں، وائس چیئرمین بنانے میں حکومت کی کیا مجبوری تھی۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے کے دعوے کرتی ہے لیکن بلوچستان میں کیا کوئی ایسا دیانتدار شخص نہیں تھا جو پنجاب اور پوری دنیا سے سرمایہ کاروں کو کھینچ کر لاتا۔ انھوں نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق حکومتی اراکین کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔انھوں نے ایوان میں موجود وزیراعلیٰ بلوچستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ صوبے پر رحم کریں اور ترس کھائیں۔

اس موقع پر صوبائی وزیر داخلہ مسلم لیگ ن کے رہنما میر سرفراز بگٹی نے بھی اعتراف کیا کہ وزیراعلیٰ نے انہیں اس فیصلہ پر اعتماد میں نہیں لیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ ان کے ٹیم لیڈر ہیں اس لیے وہ اس فیصلے پر ان کے ساتھ ہیں جبکہ وزیراعلیٰ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ارسلان افتخار کو بزنس ٹائیکون قرار دینا غلط ہے۔

ان کا اصرار تھا کہ اس تقرری کے حوا لے سے مسلم لیگ(ن) کی لیڈر شپ کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ذمہ داری سے کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ تقرری خود کی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا بلوچستان کے ساتھ ایک رشتہ ہے اسی لیے انہوں نے ان کی تقرری کی تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ وزیراعلیٰ کی سُبکی کا باعث بنا ہے اور ان پر سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ایک متنازعہ شخصیت کو آگے لانے کی بجائے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کریں ۔واضح رہے کہ صوبہ کی تاجراور صنعت کار حلقوں نے بھی اس فیصلہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ اس تقرری پر نہ صرف صوبے بلکہ ملک بھر میں بازگشت جاری ہے اور ملک بھر کے تاجر و صنعت کار حلقوں کے ساتھ سیاستدان بھی وزیراعلیٰ کے اس فیصلہ پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :