خضدار کی اجتماعی قبروں سے متعلق عدالتی تحقیقات مکمل ،رپورٹ صوبائی حکومت کے حوالے،وزیراعلیٰ کی بیرونی دورہ سے واپسی پر رپورٹ کا جائزہ لئے جانے کا امکان

منگل 15 جولائی 2014 07:07

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15جولائی۔2014ء)ضلع خضدار میں دریافت ہونی والی اجتماعی قبروں سے متعلق عدالتی ٹریبونل نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور رپورٹ صوبائی حکومت کے حوالے کر دی ہے اور توقع ہے کہ وزیراعلیٰ کی بیرونی دورہ سے واپسی پر رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔یہ اجتماعی قبریں اس سال جنوری کے مہینے میں خضدار کے علاقے توتک میں دریافت ہوئی تھیں۔

بلوچستان حکومت نے ان اجتماعی قبروں اور وہاں سے برآمد ہونے والی لاشوں کے بارے میں تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کے جج پر مشتمل ٹرائبیونل قائم کیا تھا۔اطلاعات کے مطابق جسٹس محمد نور مسکانزئی پر مشتمل اس ٹرائبیونل نے تحقیقاتی رپورٹ حکومت بلوچستان کے حوالے کر دی ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے اس کی تصدیق تو نہیں کی تاہم ان کا کہنا ہے کہ ٹرائبیونل نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی بیرون ملک دورے سے واپسی کے بعد اس رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا اور یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اسے منظر عام پر لایا جائے یا نہیں۔یاد رہے کہ توتک سے جو لاشیں بر آمد ہوئی تھیں ان میں سے زیادہ تر ناقابل شناخت تھیں۔سرکاری حکام کے مطابق ان کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے چونے کا استعمال کیا گیا تھا جس کے باعث ان میں سے صرف دو افراد کی لاشیں شناخت ہوسکی تھیں جن کا تعلق ضلع آواران سے تھا۔

بلوچستان کے وزیرِ داخلہ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی بیرون ملک دورے سے واپسی کے بعد اس رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا اور یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کو منظر عام لایا جائے یا نہیں۔باقی ناقابل شناخت افراد کی لاشوں کی ٹرائبیونل سے اجازت سے ملنے کے بعد خضدار ہی میں اجتماعی تدفین کی گئی تھی۔

اگر چہ ڈی این اے کے ذریعے ان لاشوں کی شناخت کے لیے نمونے حاصل کیے گئے تھے لیکن طویل عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ ان افراد کی شناخت میں معاون ثابت ہوا ہے یا نہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق ان اجتماعی قبروں سے کل 16 افراد کی لاشیں بر آمد ہوئی تھیں۔ تاہم بلوچ قوم پرستوں اور لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز نے لاشوں کی تعداد کے بارے میں حکام کے دعوے کو مسترد کیا تھا۔ وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا دعویٰ ہے کہ وہاں سے ملنے والی لاشوں کی تعداد 169 تھی