کینیا نے ایبولا زدہ ملکوں کے مسافروں پر پابندی لگا دی، پابندی کل سے نافذ ہو گی،کینیا کی فضائی کمپنی کینیا ایئرویز کا لائبیریا اور سیرا لیون کے لیے اپنی پروازیں بھی منسوخ کرنے کا اعلان

پیر 18 اگست 2014 08:03

نیر وبی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18اگست۔2014ء)کینیا نے ہلاکت خیز ایبولا وائرس سے متاثرہ ملکوں سے مسافروں کی اپنے ہاں آمد پر پابندی لگا دی ہے۔ کینیا کی وزارتِ صحت کے مطابق یہ پابندی منگل سے نافذ ہو جائے گی۔مغربی افریقہ کے ملکوں سیرا لیون، لائبیریا اور گنی میں ایبولا وائرس پھیلا ہوا جس کے نتیجے میں گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

کینیا نے ان ملکوں سے سفر کرنے والوں پر اپنی سرحدوں میں داخلے پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی کینیا کی فضائی کمپنی کینیا ایئرویز نے منگل سے لائبیریا اور سیرا لیون کے لیے اپنی پروازیں منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق براعظم افریقہ میں سفر کے لیے کینیا کے دارالحکومت نیروبی کا ایئرپورٹ اہم ہے۔

(جاری ہے)

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش (ڈبلیو ٹی او) کے مطابق رواں ہفتے بدھ تک سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق تینوں متاثرہ ملکوں میں اب تک ایبولا کے دو ہزار ایک سو ستائیس کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار ایک سو پینتالیس تک پہنچ چکی ہے۔

اْدھر لائبیریا میں طبی کارکنوں نے ایبولا کے شکار تین ڈاکٹروں کو تجرباتی دوا ZMapp دی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے یہ بات مونرویا میں موجود طبی ذرائع کے حوالے سے بتائی ہے۔ایبولا کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں لائبیریا میں ہی ہوئی ہیں جن کی تعداد چار سو تیرہ ہے۔ وہاں تجرباتی دوا لینے والے ڈاکٹروں کا تعلق آئرلینڈ، نائجیریا اور لائبیریا سے ہے۔

اس سے پہلے یہ دوا دو امریکی طبی کارکنوں اور اسپین کے ایک مسیحی مذہبی رہنما کو بھی دی جا چکی ہے۔ یہ سب بھی لائبیریا کے ہسپتالوں میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ امریکی طبی کارکنوں کی حالت بہتر ہوئی ہے تاہم اسپین کے مذہبی رہنما کی موت واقع ہو چکی ہے۔مونرویا میں جان ایف کینیڈی میڈیکل سینٹر کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر بِلی جانسن کا کہنا ہے: ”تین ڈاکٹروں کو اس وقت ایبولا کی تجرباتی دوا دی جا رہی ہے۔

ان کا علاج جمعرات کی شام شروع کیا گیا تھا۔‘ ایک اور طبی کارکن نے بھی بتایا ہے کہ ایبولا کے شکار ڈاکٹروں کو ہفتے کو تیسرے دِن بھی دوا دی گئی۔ یہ علاج چھ روز تک جاری رہے گا۔ ان پر دوا کے کیا اثرات ہو رہے ہیں، اس بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس دوا کی تقریبادس سے بارہ خوراکیں تیار کی گئیں۔ اس سے ایک مشکل اخلاقی سوال جنم لیتا ہے کہ یہ پہلے کس کو دی جانی چاہیے۔ امریکی طبی کارکنوں کی حالت میں بہتری کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ یہ دوا افریقہ میں اس وائرس کے شکار تمام افراد کو دی جانی چاہیے۔