امریکی شہر فرگوسن میں کرفیو نافذ،گورنر نے یہ اقدام ایک ہفتے سے جاری لوٹ مار اور ہنگامہ آرائی کی کارروائیوں کے بعد کیا

پیر 18 اگست 2014 08:03

میسوری (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18اگست۔2014ء)امریکی ریاست میسوری کے گورنر جے نکسن نے فرگوسن میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے کرفیو کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام ایک ہفتے سے جاری لوْٹ مار اور ہنگامہ آرائی کی کارروائیوں کے بعد کیا گیا ہے۔میسوری کے شہر فرگوسن میں ایک سفید فام پولیس اہلکار کی جانب سے ایک سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کے بعد مظاہرے شروع ہوئے۔

ان کی آڑ میں لْوٹ مار بھی شروع ہو گئی۔ہائی وے پیٹرول کیپٹن ران جانسن کے مطابق شہر میں کرفیو آدھی رات سے علی الصبح پانچ بجے تک جاری رہے گا۔ گورنر جے نکسن نے رواں ہفتے ران جانسن کو سینٹ لوئیس کمیونٹی کی سکیورٹی ذمہ داریاں سونپی تھیں۔ یہ کمیونٹی نو اگست کو ہونے والی سیاہ فام اٹھارہ سالہ نوجوان مائیکل براوٴن کی ہلاکت پر برہم ہے۔

(جاری ہے)

نکسن نے فرگوسن کے قریب ایک گرجا گھر میں جمع لوگوں سے خطاب میں کہا: ”دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہیں۔

یہ ایک امتحان ہے کہ آیا ایک کمیونٹی، یہ کمیونٹی، کوئی بھی کمیونٹی، خوف، عدم اعتماد اور تشدد کا چکر توڑ سکتی ہے اور اسے امن، استحکام اور بلآخر انصاف میں بدل سکتی ہے۔“

وہاں جمع بعض لوگوں نے ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا جبکہ متعدد لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کمیونٹی میں امن بحال کرنا ہے تو پھر براوٴن کو ہلاک کرنے والے پولیس اہلکار پر قتل کا مقدمہ قائم کرنا ہو گا۔

لوگوں نے یہ نعرے بھی لگائے: ”ہینڈز اَپ، ڈونٹ شْوٹ۔“یہ جملہ گذشتہ ایک ہفتے سے فرگوسن میں احتجاجی نعرہ بنا ہوا ہے۔ تاہم نکسن کا کہنا تھا کہ عوام کا تحفظ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا: ”ہم راتوں کو ہونے والے جرائم اور لوْٹ مار کو برداشت نہیں کریں گے، ہم لوگوں کو خوف میں نہیں چھوڑ سکتے۔“فرگوسن میں یہ شورش اٹھائیس سالہ پولیس اہلکار ڈیرین ولسن کی جانب سے براوٴن پر گولی چلانے کے بعد شروع ہوئی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گیا۔

اس کے بعد سے ہی حالات انتہائی کشیدہ رہے ہیں تاہم جمعے کی شام کو کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔ہفتے کو متعدد لوگوں نے شہر میں مارچ کیا۔ انہوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ایسی تحریریں درج تھیں: ’سیاہ فام زندگیاں بھی اہم ہیں‘، ’گولی مت چلاوٴ‘۔براوٴن کا خاندان اور ان کے حامی مطالبہ کر رہے ہیں کہ گولی چلانے والے پولیس اہلکار کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔ امریکی محکمہ انصاف اس واقعے کی تفتیش کر رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :