وفاقی دارلحکومت میں جرائم پیشہ عناصر کے6” نو گو ایریاز“ قائم ،ڈکیتی،راہ زنی،اغواء برائے تاوان کی وارداتیں ،چراہ مفروروں کی پہاڑی،کھنہ پل ،اسلام آباد اور کوٹلی ستیاں کو ملانے والی پہاڑی ،شاہدرہ ،جی بارہ اور ترنول سے آپریٹ کئے جانے کا انکشاف ،پولیس نے مجرمانہ چشم پوشی اختیار کر لی

جمعہ 24 اپریل 2015 04:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 اپریل۔2015ء )وفاقی دارلحکومت میں جرائم پیشہ عناصر کے6” نو گو ایریاز“ قائم ہو گئے،ڈکیتی،راہ زنی،اغواء برائے تاوان کی وارداتیں چراہ مفروروں کی پہاڑی،کھنہ پل ،اسلام آباد اور کوٹلی ستیاں کو ملانے والی پہاڑی ،شاہدرہ ،جی بارہ اور ترنول سے آپریٹ کئے جانے کا انکشاف ہواہے ،پولیس کی مبینہ سرپرستی میں پولیس کی وردیوں میں ملبوس شہریوں کے ساتھ کروڑوں روپے کی وارداتیں کرنے والے جعلی پولیس اہلکاروں کے گروہ سرگرم ،ڈاکوں کی طرف سے کی جانے والی ہر واردات سے وصول کیا جانے والا مبینہ بھتہ کے کمال سے تھانہ بھارہ کہو ،تھانہ کورال،تھانہ سہالہ ،تھانہ نیلور کی مثالی پولیس نے مجرمانہ چشم پوشی اختیار کر لی ہے ۔

ذرائع کے مطابق جرائم پیشہ عناصر کے چھ” نو گو ایریاز“ بن گئے جہاں پولیس مفروروں کی موجودگی کے باوجود کاروائی کرنے کے بجائے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کرکے مُجرمانہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں،ڈکیتی،راہ زنی،اغواء برائے تاوان کی رواں سال کی وارداتیں چراہ مفروروں کی پہاڑی،کھنہ پل ،اسلام آباد اور کوٹلی ستیاں کو ملانے والی پہاڑی ،شاہدرہ ،جی بارہ اور ترنول ڈورے گاؤں و ملحقہ آبادی ،مارگلہ سے آپریٹ کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے اگر ان حدود میں موجود وارداتوں کے شواہد کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملزمان واردات کے بعد کہاں غائب ہوئے جہاں پولیس نہیں جا سکی ۔

(جاری ہے)

ذرائع نے بتایا کہ وفاقی پولیس کی وردیوں میں ملبوس ہو کر ڈاکہ ڈالنے والے جعلی پولیس اہلکار انتہائی حد تک تربیت یافتہ ہوتے ہیں جیسے کہ انہوں نے پہلے سے ہی پولیس کی ٹریننگ حاصل کر رکھی ہو ۔جعلی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں وائرلیس سیٹ اور انکی گاڑیوں پر نیلی بتی بھی موجود ہونے کے شواہد درجنوں وارداتوں میں پولیس کو مل چکے ہیں تاہم جعلی پولیس اہلکاروں کی گرفتاریاں عمل میں نہیں لائی جا سکیں ۔

حیران کُن امر یہ بھی ہے کہ جعلی پولیس اہلکاروں کا شکار زیادہ تر ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق وارداتیوں کو مکمل یقین ہوتا ہے کہ اس شہری کے پاس قیمتی سامان و نقدی وغیرہ موجود ہو گی،یا پھر کوئی بیرون ملک سے محنت مزدوری کر کے اپنے خون پسینے سے جمع کی جانے والی جمع پونجی کو لے کر اپنے وطن میں لوٹ رہا ہو ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جعلی پولیس اہلکاروں کے شکار بھی زیادہ تر ایسے ہی افراد ہوئے ہیں جو کہ بیرون ملک سے آئے ہوں اور ایئر پورٹ سے باہر نکل رہے ہوں ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جعلی پولیس اہلکاروں کے انتہائی منظم گروہ ہیں جو کہ باقاعدہ ٹولیوں کی شکل میں واردات ڈالتے ہیں اور موبائیل فون پر ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہ کر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرتے ہیں ۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اصلی پولیس اہلکاروں کی طرح تربیت یافتہ جعلی پولیس اہلکاروں نے گزشتہ روز بھی ایئر پورٹ پر ایک منی چینجر کے ساتھ سات کروڑ پچیس لاکھ روپے کی ڈکیتی کرکے اپنے نو گو ایریا چراہ کی پہاڑیوں کی جانب رو پوش ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں قبل ازیں کھنہ پُل،لہتراڑ روڈ،سہالہ،کہوٹہ روڈ میں ہونے والی ڈکیتیوں کے ملزمان بھی انہی چراہ کی پہاڑیوں کی جانب اور کھنہ پُل کورنگ نالے سے ملحقہ پنڈوڑیاں تک دونوں اطراف موجود علاقے میں روپوش ہوتے دیکھے گئے ۔

صرف رواں سال میں شہری تقریبا 50کروڑ سے زائد کی نقدی و قیمتی اشیاء سے محروم کر دئیے گئے۔عمرفاروق

متعلقہ عنوان :