سپریم کورٹ نے پولیس کے نظام میں اصلاحات کے بارے میں وفاق و صوبوں سے حتمی سفارشات طلب کر لیں، پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ پولیس ہے ،اگر پولیس صحیح ہو جائے تو سب کچھ صحیح ہو سکتا ہے؛چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

جمعہ 21 اگست 2015 09:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21اگست۔2015ء)سپریم کورٹ نے پولیس کے نظام میں اصلاحات کے بارے میں وفاق اور صوبوں سے حتمی سفارشات طلب کر لیں ۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ پولیس ہے اگر پولیس صحیح ہو جائے تو سب کچھ صحیح ہو سکتا ہے ۔ مقامی حکومتوں کے نظام سے عوام کے مسائل حل ہو سکتے تھے مگر وہ بھی تاحال نہیں آ سکا ہے ۔

جس کی وجہ سے پبلک سیٹفی کمیشن تاحال غیر فعال ہیں ۔ حکومتی مداخلت والے جس مقدمے کو بھی ہاتھ لگاتے ہیں وہی نامکمل نظر آتا ہے ۔ جج صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر حکومت کام نہیں کر سکتی تو پھر ہمیں کرنے دے ۔ کاغذی کارروائی سے کچھ نہیں ہو گا اور نہ ہی عوام کی سوچ بدلے گی ۔اگر رپورٹس سے سب اچھا ہو جاتا تو آج ہم سب صوبوں کو شاباش د ے دیتے ۔

(جاری ہے)

پراسیکیوٹر جنرل تک کا ادارہ فعال نہیں ہے ۔

ایف آئی آر کے اندراج چالان مکمل کرنے اور گواہوں کی پیشی تک کے معاملات کافی گھمبیر ہیں جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ اگر ہم سب ملک کی بقاء اور سالمیت کے لئے کام کر رہے ہیں تو پھر ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا اور پولیس سمیت سب کو ایمانداری سے کام کرنا ہو گا ۔ پولیس افسر کسی جرم میں ملوث ہو تو اس کا پیٹی بھائی تین دنوں میں ہی اسے معصوم قرار دے کر بری کر دیتا ہے ہمیں سکاٹ لینڈ یارڈ کی طرز پر پولیس میں اصلاحات لانی ہوں گی جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں 95 فیصد علاقے پر پولیس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے پولیس کو عوام دوست بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دیئے ہیں ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔حیدر علی کیس کی سماعت ہوئی تو جسٹس جواد نے کہا کہ لگتا ہے کہ کوئی پیش رفت ہوئی ہے ۔ خواجہ حارث نے التواء کی درخواست دے رکھی ہے مگر ان کو ہم نے عدالتی معاون مقرر کر رکھا ہے اس لئے مقدمے کی سماعت کریں گے ۔ خواجہ حارث کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کا جائزہ لیا گیا جو انہوں نے بطور عدالتی معاون تیار کر کے دی تھیں ۔

سندھ ، بلوچستان اور اسلام آباد میں پولیس کا نظام بہت پرانا ہے پنجاب اور کے پی کے میں تبدیلیاں آئی ہیں ۔ پولیس کا ماڈل نظام تاحال کہیں نظر نہیں آتا ۔ نہ ہی کوئی پروفیشنل کام نظر آتا ہے ۔سینئر افسران جونیئر افسران کی جس طرح انسپکشن کرنا چاہئے نہیں کرتے ۔ پبلک سیفٹی کمیشن تاحال فعال نہیں ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ دو طرح کی پولیس بنیادی طور پر کیا فرق ہے ۔

عدالت کو بتایا گیا کہ دونوں میں بڑا فرق ہے ڈھانچے تک میں فرق ہوتا ہے ۔سرور خان سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے پولیس اصلاحات اور دیگر حوالوں سے تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی اور کہا کہ پولیس پر انتظامی کم سیاسی دباؤ زیادہ ہوتا ہے جمہوری معاشرے میں انہیں جو کردار ادا کرنا چاہئے وہ نہیں کر پا رہی ہے ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ قانون میں کہاں کمی نظر آتی ہے اس پر سیکرٹری نے بتایا کہ کامن ویلتھ ممالک میں پولیس کس طرح کام کرتی ہے اور یہاں جس طرح سے کام کرتی ہے ۔

بہت مختلف ہے ۔ پولیس کالونیل رولز کے تحت کام کر رہی ہے ترامیم بھی کی گئی ہے ۔ پولیس رولز 1934 میں بنائے گئے ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ کیا ہماری پولیس سکاٹ لینڈ یارڈ کی طرز پر کام کر سکتی ہے ؟سیکرٹری نے بتایا کہ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں مگر اس کے لئے ہمیں پولیس کو تربیت دینا ہو گا اور تمام تر سہولیات دینا ہوں گی ۔ ہمیں پولیس کے اختیارات کو دیکھنا ہو گا اور دیکھنا یہ بھی ہے کہ اس کو کون کنٹرول کر سکتا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام سے تبدیلی آنا تھی قانون ہی نہ بنا جس سے پبلک سیفٹی کمیشن غیر فعال ہو کر رہ گئے ۔ مظلوموں کی بجائے پولیس کو فائدہ دیا جاتا رہا ہے اور اب بھی دیا جا رہا ہے ۔ سندھ بلوچستان اور اسلام آباد 1861 ایکٹ کے تحت کام کر رہے ہیں جبکہ پنجاب اور کے پی کے میں 2002 کا نظام چلا رہے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 1861 میں انگریز نے اپنی مرضإ کا نظام بنایا تھا جبکہ بعدازاں ہم نے اس پر کام شروع کیا۔

سیکرٹری نے کہا کہ پولیس کے احتساب کے نظام کو بہتر بنانا ہو گا پولیس کو ماڈل پولیس بنانے کے لئے تعلیم و تربیت پر زیادہ انحصار کرنا ہو گا ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ اسلام آباد میں کیا رولز 1934 استعمال ہو رہے ہیں ۔ ہم نے نوٹ کیا ہے جونیئر افسران کو اعلی افسران کی جگہ کام کرتے ہیں ۔ سکندر اعظم آیا تو اس نے پوری دنیا پر قبضہ کیا اور ہماری پولیس کی مہربانی سے ایک سکندر نے صبح سے شام تک اسلام آباد پر قبضہ کئے رکھا ۔

پولیس کا مقصد ایک شہری کے عزت ، وقار ، جائیداد اور پرائیویسی کا تحفظ کرنا ہے جب بھی بڑے ادارے بنتے ہیں اس کی پرائمری تو پولیس ہی ہے ۔ پہلے ایس پی کو بھی بڑی تربیت کے بعد سرٹیفیکیٹ جاری ہوتا تھا ۔ شوٹنگ کے لئے تربیت بھی دی جاتی تھی اب وہ بھی نہیں ہو رہی ہے ۔سیکرٹری نے کہاکہ ابھی تک کوئی خاص کام نہیں ہو رہا ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ کیا آپ سہالہ پولیس ٹریننگ سنٹر گئے اور ان کا کورس دیکھا ہے اس پر سیکرٹری نے بتایا کہ بہت عرصہ قبل وہاں گئے تھے ان کا نصاب آڈٹ آف کورس ہے ۔

پہلے کی رپورٹیں موجود ہیں جسٹس دوست نے کہاکہ ہم جب مصیبت میں مبتلا ہیں اس پر حکومت کو غور کرنا چاہئے ۔ سکاٹ لینڈ ایک چھوٹی سی پولیس لائن تھی جس کو عوام کے تعاون سے سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس بنا دی گئی ان کو بڑی عمارت دی گئی اور ہائی پروفائل مقدمات دیئے گئے ۔ جرمنی ، امریکہ سمیت کئی ممالک سے اعلی ترین افسران اور حکام لائے گئے ۔ تربیت دی گئی ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ معاملہ اپنی جگہ اور حیدر علی کا معاملہ قدر ے مختلف ہے ۔اے جی پنجاب نے بتایا کہ ہم نے صوبوں سے مشاورت کی ہے خواجہ حارث کی سفارشات کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ صوبوں کی سفارشات پر بھی نظر دوڑائی ہے ۔ جسٹس خواجہ نے کہا کہ جس کیس کو ہاتھ لگاتے ہیں حکومت کی وجہ سے غیر فعال نظر آتا ہے ۔ جج صاحب فرما رہے تھے اگر حومت کام نہیں کر سکتی تو پھر ہمیں کام کرنے کے لئے دے دے ۔

پی جی نے بتایا کہ حیدر علی کے مقدمے میں تھانہ کلچر رکاوٹ بنا ہے ۔ ایس ایچ او کی اپنی مرضی ہوتی ہے وہ جب چاہے گا ایف آئی آر درج کرے گا ۔ پوسٹ مارٹم میں تاخیر کرے گا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ دو دن کی بات کر رہے ہیں ہمارے پاس 10 سال التواء کی ایف آئی آر بھی سامنے آئی ہے ۔کاغذ پر کچھ کرنے سے تھانہ کلچر نہیں بدلے گا ۔ پی جے نے کہا کہ یہ کام 10 سے 15 سال قبل ہونا چاہئے تھا ۔

پھر بھی آپ نے کافی کام کیا ہے ۔ 154 کا جائزہ بھی لیا ہر جگہ بددیانتی نظر آتی ہے اور سیکشن 154 کی ر وح کو نہیں سمجھا گیا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ روزنامچہ تک روک دیا جاتا ہے ۔ تھانے کے اندر بندہ موجود ہے گرفتاری نہیں ڈالی جاتی۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ ایس ایچ او کو تجویز کردہ الزامات کا جائزہ لے کر مقدمہ درج کرنا پڑتا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہاکہ آپ نے کام کر لیا ہے اتنے واضح ہم نہیں پڑھ سکتے ۔ہمیں اپنی تمام سفارشات کا نچوڑ بتا دیں ۔کاغذی کارروائی سے معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آتا پتہ نہیں پولیس کی سوچ کیسے بدلے گی ۔ پی بی پجاب نے کہا کہ ہم نے اس پر کافی کام کیا ہے بار کونسل کے ممبر کی وجہ سے کافی مدد ملی ہے ۔ لیگل ریفارمز کیا ہو سکتی ہیں ۔ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ چالان نامکمل نہیں ہونے چاہئیں ملزمان کیوں زیادہ رہا ہو جاتے ہیں ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج کا ماملہ بہت مسائل کا حامل ہے عوام الناس کا بڑا ایشو پولیس ہے اگر یہ ایشو کسی حد تک ہل ہو جاتے تو بہت سے مسئلے حل ہو جائیں ۔ باقی صوبے بھی اپنے اپنے جوابات دیں ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ ایک پولیس افسر نے جرم کیا ہے اس کی تفتیش کون کرے گا اگر اس کا پیٹی بھائی تفتیش کرے گا تو پھر ان کا بھائی تو رہا ہی ہو گا ۔

3 دن ہی وہ کیس ختم کرنے کی سفارش کر دیتے ہیں ان کی تفتیش کسی اور کو کرنا چاہئے ۔ خواتین ہراساں کرنے کے معاملات میں بھی کئی اہم چیزوں کی ضرورت ہے ۔ پی جی پنجاب نے کہا کہ تمام تر تفصیلات دیں گے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ نیت کا فتور کیسے دور ہو گا جس پر پی جی پنجاب نے کہا کہ اس کے لئے آپ سیکشن 164 دیکھیں ۔ عدالتیں کسی کی ضمانت دے نہیں سکتیں مگر پولیس کو کلین چٹ دی گئی ہے کہ وہ چاہے تو جس بڑے سے بڑے ملزم کو چاہے چھوڑ سکتی ہے ۔

جسٹس جواد نے کہاکہ کاغذ میں قانون تو بن گیا ہے مگر جرائم پھر بھی ہو رہے ہیں ۔کہتے ہیں کہ جمہوری طریقے سے یہ ہو گا جسٹس دوست نے کہا کہ 169 کے تحت پولیس افسران 21 دن کا عبوری ریلیف دے سکتے ہیں۔پی جی پنجاب نے بتایا کہ جب ایک شخص کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو عدالت ناقابل ضمانت جرم پر ضمانت نہیں دے سکتی ۔ پولیس دے رہی ہے ۔ عدالت کو کہا جاتا ہے کہ جب تک قابل عمل اور ٹھوس وجوہات نہ ہوں ملزم کو رہا نہ کیا جائے ۔

جسٹس دوست نے کہا کہ معاملات میں بدنیتی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ملزمان رہا ہوتے ہیں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل کا ادارہ فعال نہیں ہے ۔ 31 والے ہفتے میں اس مقدمہ کو رکھا جائے ۔ صوبے بھی پولیس کے حوالے سے رپورٹ دیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر رپورٹوں سے کام چلتا تو ہم سب کو شاباش دے دیتے ۔ سوال یہ ہے کہ پولیس میں اصلاحات کیسے لائی جائیں گی ۔

بلوچستان کی طرف بتایا گیا کہ ہم 2011 کے پولیس ایکٹ کے تحت کام کر رہے ہیں جسٹس دوست نے کہا کہ اگر ہم اس ملک کی بقا کے لئے کام کر رہے ہین اور چاہتے ہیں کہ ملک مضبوط ہو تو پھر ہمیں پوری تندہی اور ایمانداری سے کام کرنا ہو گا ۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ 95 فصد بلوچستان میں پولیس کا کوئی کام ہی نہیں ہے اور نہ ہی ان کی کوئی حکومت ہے ۔ جسٹس دوست نے کہا کہ سوات اور بہاولپور جب تک الگ الگ ریاست تھیں کوئی شکایت پولیس کے خلاف نہ تھی ۔جب ان کو بطور ریاست ختم کیا گیا تو شکایات پیدا ہوئیں ۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 ستمبر تک ملتوی کر دی ۔

متعلقہ عنوان :