ایران شامی بحران پر عالمی مذاکرات میں شرکت کرے گا،امریکہ کا عراق اور شام میں د دولت اسلامیہ کے جنگجووٴں کے خلاف براہ راست زمینی کارروائی بھی شروع کرنے کا عندیہ

جمعرات 29 اکتوبر 2015 09:26

ویانا (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29اکتوبر۔2015ء )ایران کا کہنا ہے کہ وہ شام کے بحران پر ہونے والی عالمی مذاکرات چیت میں شرکت کرے گا۔ادھر امریکہ نے عندیہ دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ عراق اور شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے جنگجووٴں کے خلاف براہ راست زمینی کارروائی بھی شروع کر سکتا ہے۔ویانا میں رواں ہفتے شام میں جاری جنگ پر ہونے والی بات چیت میں ایرانی شمولیت کی تصدیق وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے بدھ کو تہران میں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں ایران کی نمائندگی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کریں گے۔یہ پہلا موقع ہوگا کہ شامی صدر بشارالاسد کا حامی ایران شام کے بارے میں کسی عالمی بات چیت کا حصہ بنے گا۔ایران کو اس بات چیت میں شرکت کی دعوت امریکہ کی جانب سے دی گئی تھی۔

(جاری ہے)

ایران کے علاوہ امریکہ، روس اور سعودی عرب اور ترکی کے وزرائے خارجہ ان مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ روس کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مصر، عراق اور لبنانی وفود بھی اس بات چیت کا حصہ بن سکتے ہیں۔

دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف زمینی کارروائی کا اشارہ امریکی وزیرِ دفاع ایش کارٹر نے عراق میں امریکی اور عراقی فوجیوں کی جانب سے نام نہاد دولت اسلامیہ سے درجنوں یرغمالیوں کو چھڑائے جانے کے ایک ہفتے بعد سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے دیا۔انھوں نے ان حالات کا ذکر تو نہیں کیا جن کے تحت امریکہ ممکنہ طور پر زمینی حملے کر سکتا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’(لیکن) اگر ایک بار ان کی نشاندہی ہو گئی تو کوئی بھی ہدف ہماری پہنچ سے دور نہیں ہے۔

کارٹر کا کہنا ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی کا مرکز اب رقّہ ہوگا جسے دولتِ اسلامیہ کے جنگجووٴں کی جانب سے شام کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر کا کہنا ہے کہ ’انتہائی اہم اہداف‘ کے خلاف فضائی حملوں میں بھی تیزی آئے گی۔کارٹر نے کہا کہ ’ہم آئی ایس آئی ایل پر براہ راست حملوں کی استعداد رکھنے والے اپنے اتحادیوں کی حمایت ترک نہیں کریں گے۔

خواہ وہ حملے فضائی ہوں یا زمینی۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اضافی جنگی جہازوں کی مدد سے ہمیں توقع ہے کہ آئی ایس آئی ایل کے خلاف زیادہ اور تیز فضائی حملے ممکن ہو سکیں گے۔‘’اِن میں بہتر انٹیلی جنس کی مدد سے آئی ایس آئی ایل کے انتہائی اہم اہداف کے خلاف حملے بھی شامل ہیں۔‘گذشتہ سال امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے عراق میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا گیا تھا۔

امریکی صدر براک اوباما کا کہنا تھا کہ ان حملوں کا مقصد دولت اسلامیہ کو ’زک پہنچانا اور بالآخر ختم کردینا‘ ہے۔روس کی جانب سے بھی گذشتہ ماہ کے آخر میں شام میں فضائی حملوں کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ نام نہاد دولت اسلامیہ اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف شام کے صدر بشارالاسد کی مدد کرنا چاہتا ہے۔دوسری جانب امریکی حکومت کی جانب سے روسی حملوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کی توجہ حزب اختلاف کے جنگجووٴں پر ہے جس سے شدت پسندی میں مزید اضافہ ہوگا۔

متعلقہ عنوان :