5 مارچ سے شروع ہونے والی مردم شماری میں قبل از مردم شماری دھاندلی ہوچکی ہے، ڈاکٹر فاروق ستار

کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ، سکھر اورمیرپورخاص سمیت شہری سندھ کے عوام میں طویل عرصے سے احساس محرومی پائی جاتی ہے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایم کیو ایم (پاکستان) کی جانب سے آئینی درخواست جمع کرنے کے بعد پریس بریفنگ

پیر 6 مارچ 2017 23:36

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ منگل مارچ ء) 15 مارچ سے شروع ہونے والی مردم شماری میں قبل از مردم شماری دھاندلی ہوچکی ہے، قبل از مردم شماری دھاندلی کا مقصد سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں کو فائدہ پہنچاناہے، شہری عوام کو روزگار، تعلیمی اداروں میں داخلوں اور ترقیاتی فنڈز سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ایم کیو ایم (پاکستان) کے کنوینر ڈاکٹرمحمد فاروق ستار نے متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کی جانب سے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں قبل از مردم شماری دھاندلی،نظامِ مردم شماری اور شہری سندھ کے عوام کے ساتھ ہونے والے مسلسل ناانصافیوں کے خلاف آئینی درخواست جمع کرانے کے بعد ڈپٹی کنوینر کنور نوید جمیل، خالد مقبول صدیقی، کہف الوریٰ،بیرسٹرفروغ نسیم و اراکین رابطہ کمیٹی، حق پرست میئر کراچی وسیم اختر، حق پرست اراکین اسمبلی، ڈسٹرکٹ چیئرمین ، وائس چیئرمین، بلدیاتی نمائندگان اور ذمہ داران کے ہمراہ پریس بریفنگ ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم (پاکستان) کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ آج ہم نے پاکستان میں جاری ناانصافیوں کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست جمع کرادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج شہری سندھ کے عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہری سندھ کے عوام مسائل میں گھیرے ہوئے ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ ہر مردم شماری میں شہری عوام کی تعداد کم کرکے دیکھاناہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی شہری سندھ کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی، حیدرآباد، نوابشاہ، سکھراورمیرپورخاص سمیت شہری سندھ کے عوام میں طویل عرصے سے احساس محرومی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں آبادی کا زیادہ دباؤ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی اور اس وقت شہری سندھ میں بلاک تعداد 47.65 فیصد تھی جبکہ اسے کم کرکے 46.34فیصد کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ شہری علاقوں میںنئی رہائشی اسکیمیں بن رہی ہیں، کچی آبادیاں بن رہی ہیں اور پاکستان کے دیگر شہروں سے لوگ یہاں روزگار کیلئے آرہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود شہری سندھ کی آبادی بڑھنے کے بجائے الٹا کم ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات فہم و فراست سے بالاتر ہے کہ گزشتہ 18 سالوں میں سندھ کے شہری علاقوں میں آبادی کم ہوئی ہو اور دیہی علاقوں میں آبادی دگنی ہوگئی ہو۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے طریقے کار کے مطابق پہلے بلاکس کی تعداد گنی جاتی ہے جس کے بعد گھرانوں اور افراد کی تعداد گنی جاتی ہے لیکن وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ملی بھگت سے قبل از مردم شماری شہری سندھ کے علاقوں کے بلاکس کی تعداد کم اور دیہی علاقوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے طریقے کار کے مطابق پہلے بلاکس کی تعداد گنی جاتی ہے جس کے بعد گھرانوں اور افراد کی تعداد گنی جاتی ہے لیکن وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ملی بھگت سے قبل از مردم شماری شہری سندھ کے علاقوں کے بلاکس کی تعداد کم اور دیہی علاقوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس بار بھی شہری سندھ کے عوام کی تعداد کم کرکے دیکھانے کی کوشش کی گئی تو شہری سندھ کے عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان تمام تحفظات کا اظہار چیف سین سیز کمیشنر سمیت تمام متعلقہ حکام کو آگاہ کیا لیکن جواب نہ ملنے پر ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ سے سندھ کے شہری عوام کو انصاف ضرور ملے گا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میںکہا کہ پرامن سیاسی جدوجہد ہمارا شعار ہے۔