ترکی کی بڑی اپوزیشن جماعت نے ریفرنڈم کے اختتامی لمحات میں ووٹ کے قانون کو بدلنے کے عمل کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کردیا

ہفتہ 22 اپریل 2017 19:18

ْ انقرہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ اتوار اپریل ء)ترکی کی بڑی اپوزیشن جماعت نے آئینی تبدیلیوں کے ذریعے پارلیمانی نظام کو بدلنے کی منظوری کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کے اختتامی لمحات میں ووٹ کے قانون کو بدلنے کو ملک کی اعلیٰ عدالت میں چیلنج کردیا۔ترکی میں گزشتہ اتوار کو منعقدہ ریفرنڈم میں تبدیلیوں کے بعد وزیراعظم کے اختیارات کو ختم کرنے کے حق میں 51.4 فی صد ووٹ ڈالے گئے تھے۔

سپریم الیکشن بورڈ (وائی ایس کی) کی جانب سے آخری وقت میں سرکاری مہر کے بغیر لفافوں میں بند ووٹوں کو قبول کرنے کے فیصلے پر تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔ ری پبلکن پارٹی (سی ایچ پی) کے وکیل عطیلا کارٹ نے گزشتہ روز کونسل اف اسٹیٹ میں باقاعدہ قانونی پٹیشن دائر کردی جس کے بعد انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ اقدام 'صرف 'نہیں' کہنے والے ووٹرز کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام ووٹرز کے قانونی حق کے تحفظ کے لیے ہی'۔

(جاری ہے)

عثمانی دور میں قائم کونسل آف اسٹیٹ کو ترکی کی سب سے بڑی انتظامی عدالت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔عطیلا کارٹ نے تمام صورت حال کو 'مکمل طور پرماورائے قانون' قرار دیتے ہوئے کہا کہ وائی ایس کے کی جانب سے بغیر مہر کے لفافوں میں بیلٹ جمع کرنے کے لیے 'نہیں' ووٹرز کو بھی اجازت دی گئی تھی۔قبل ازیں سی ایچ پی کے ڈپٹی رہنما بولینت ٹیزان نے کہا تھا کہ پارٹی، وائی ایس کے کی جانب سے قانون میں تبدیلی کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کرے گی۔

دوسری جانب وائی ایس کے کے دس اراکین نے ریفرنڈم کو معطل کرنے کو مسترد کیا تھا جبکہ صرف ایک ووٹ معطلی کے حق میں پڑا تھا۔ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم کا کہنا ہے کہ 'عوام کے فیصلے تبدیل کرنے کے لیے عدالت میں جانا غیرجمہوریہ راستہ ہی'۔انقرہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ سی ایچ پی اور دیگر کے پاس اس کو چیلنج کرنے کا حق ہے لیکن 'اس کے استعمال کے حوالے سے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں'۔بن علی یلدرم کا کہنا تھا کہ 'عوام اپنا فیصلہ کرچکے ہیں اور عوام کے فیصلوں کی مخالفت کرنا جمہوریت میں یقین نہ رکھنے کے مترادف ہی'۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کوششیں 'فضول' ہیں اور 'ہرکسی کا وقت ضائع کرنے کا یہ کوئی موقع نہیں ہی'۔

متعلقہ عنوان :