Open Menu

Aitkaf Ki Sharait - Article No. 3412

Aitkaf Ki Sharait

اعتکاف کی شرائط - تحریر نمبر 3412

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اعتکاف کے لئے مسجد میں ہوتے تو اپنا سر مبارک میری طرف بڑھا دیتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کنگھا کر دیتی اور حالت اعتکاف میں صرف (بشری) ضرورت کی بنیاد پر گھر میں تشریف لاتے۔

جمعرات 7 مئی 2020

حافظ عزیز احمد
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اعتکاف کے لئے مسجد میں ہوتے تو اپنا سر مبارک میری طرف بڑھا دیتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کنگھا کر دیتی اور حالت اعتکاف میں صرف (بشری) ضرورت کی بنیاد پر گھر میں تشریف لاتے۔ (رواہ البخاری)
محترم سامعین! رئیس المحدثین امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے آج کی زیر مطالعہ حدیث کو جو دراصل ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ایک قول ہے جس کا تعلق براہ راست رسول دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات اقدس اور اسوئہ حسنہ سے ہے ۔
اصطلاح حدیث میں ایسے قول کو اثر کہا جاتا ہے جو بالعموم حدیث ہی کے حکم میں ہوتاہے ۔

(جاری ہے)

ام الموٴمنین سلام اللہ علیہا نے آگاہی بخشی ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت اعتکاف میں صرف بشری ضرورت کے تحت ہی مسجد کو چھوڑ کر گھر تشریف لاتے تھے ۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اعتکاف اہم ترین عبادت ہے جو تتمہ ماہ صیام کے طور پر سر انجام دی جاتی ہے۔

ماہ صیام مبارک اللہ رب العزت کی طرف سے امت مسلمہ کے لئے بہت بڑا انعام ہے ۔رمضان المبارک کو روحانی انقلاب اور قلبی صفاء و طہارت کے طورپر منتخب کیا گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام آسمانی صحیفے اور کتب رمضان المبارک کے مہینے ہی میں نازل کئے گئے ہیں ۔
چنانچہ علماء نے تصریح کی ہے کہ صحف ابراہیمی یکم رمضان المبارک کو ،تو رات چھ رمضان المبارک ،زبور بارہ رمضان المبارک کو ،انجیل اٹھارہ رمضان المبارک اور قرآن حکیم چوبیس رمضان کو اتارا گیا۔
اللہ رب العزت کی طرف سے ان کتب کے نزول کے لئے رمضان المبارک کا انتخاب بڑی معنویت کا حامل ہے ۔علامہ ابن القیم الجوزی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کے دل کی صلاحیت اور اس کے صراط مستقیم پر چلتے رہنے کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ وہ پوری طرح اپنے خالق ومالک کی طرف متوجہ رہے ۔جبکہ کھانے پینے کی زیادتی ،لوگوں کے ساتھ زیادہ میل جول ،بے تحاشا بولتے چلے جانا اور حد سے زیادہ سونا قلب انسانی کی پراگندگی میں اضافہ کرتے ہیں۔
اُسے آوارہ منش بنا دیتے ہیں اور سیرالی اللہ کی منزل میں رکاوٹیں پیدا کر دیتی ہیں ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزے فرض کئے تاکہ کھانے پینے کی عادت کو اعتدال پر لایا جائے۔ لوگوں کے ساتھ بے ضرورت اختلاط کو کم کیا جائے ،زبان کو قابو میں رکھا جائے ،زیادہ دیر تک سوتے رہنے کی عادت کو توڑا جائے اور مرغوبات وخواہشات کی طرف لپکنے سے اپنے آپ کو روکا جائے ۔
اور اس سب میں حکمت اعتدال کو سر فہرست رکھا گیا ہے تاکہ انسان کے جسمانی قویٰ بھی بحال رہیں اور وہ روحانی اور قلبی طور پر اپنے ارتقائی سفر کو بھی جاری رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ بیمار کو، مسافر کو ،حاملہ دودھ پلانے والی عورت کو روزے سے شرعی طور پر استثناء حاصل ہے۔
تاہم روزے کے ان فوائد کو مزید موٴثر بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کی عبادت کو مشروع کیا تاکہ انسان چند ایام کے لئے لوگوں سے کٹ کر خلوت میں جا بیٹھے اور اپنے دل کو اللہ کے حضور بٹھا دے۔
اعتکاف کا لفظ عکوف سے ماخوز ہے جس کے معنی ہیں بیٹھنا یا رُکے رہنا۔ قرآن حکیم میں لفظ عکوف سے عاکفین یعنی اعتکاف کرنے والے کے الفاظ موجود ہیں ۔حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم الٰہی ہوا کہ ۔تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،اعتکاف کرنے والوں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھیں۔ شرعی اصطلاح میں اعتکاف یہ ہے کہ چند شرائط کے ساتھ روزے کی حالت میں اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے مسجد میں بیٹھ جانا۔
اعتکاف کی عملی صورت کی وضاحت اور شب قدر کو پانے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اپنی مسجد میں اعتکاف فرماتے تھے۔
امام ابن القیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں،پھر دوسرے عشرہ میں اور پھر تیسرے عشرہ میں اعتکاف فرمایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یقین ہو گیا کہ شب قدر آخری عشرہ میں ہوتی ہے تو آپ نے ہمیشہ آخری عشرہ ہی میں اعتکاف فرمایا ۔
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات اقدس کے آخری سال میں بیس (20) دن اعتکاف فرمایا۔ جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دو مرتبہ قرآن پاک کا دور کیا جبکہ اس سے پہلے آپ صرف ایک مرتبہ ہی دور فرماتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اعتکاف کے خیمہ میں تشریف لے جاتے ۔بظاہر گوشہ نشینی کی اس عبادت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیت کی اختیار کردہ رہبا نیت کے تصور سے دور رکھا ۔
ایک طرف خالق ارض وسماء کے ساتھ انتہائی قرب کی حالت تھی تو دوسری طرف امت سے بھی رابطہ منقطع نہیں کیا۔ افطار وسحر کا معمول اسی طرح بر قرار رہا ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت واصلاح کا کام بھی جاری رہا۔ استراحت بھی فرما لیتے ۔ازواج مطہرات میں سے اگر کوئی آپ کے معتکف میں ملاقات کے لئے حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن سے ملاقات فرماتے اور مسجد کے آخری حصہ تک ان کو الوداع بھی فرماتے ۔

جب کبھی محسوس فرماتے کہ سر مبارک کو دھونے یا گنگھا کرنے کی ضرورت ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے دروازے میں جو مسجد کے اندر ہی کھلتا تھا اپنا سر مبارک داخل فرما دیتے اور آپ رضی اللہ عنہا دھولیتیں یا کنگھا کر دیتیں۔ مسجد سے باہر اپنے گھر میں صرف اسی حالت میں تشریف لے جاتے جس کا زیر مطالعہ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ۔جب بیت الخلاء جانے کی ضرورت محسوس فرماتے تو اس دوران کوئی اور کام سر انجام نہ دیتے تھے ۔
حتیٰ کہ اگر راستہ میں کوئی مریض بھی ہوتا تو طبع پرسی نہ فرماتے ۔یاد رہے کہ رمضان المبارک میں رات کے وقت اپنی بیوی سے تعلق قائم کرنا جائز ہے مگر حالت اعتکاف میں اس پر پابندی ہے ۔ارشاد ربانی ہے۔یعنی اپنی بیویوں سے مت مباشرت کرو جب تم مسجدوں میں حالت اعتکاف میں ہو۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بلا ضرورت بشری معتکف کو مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ۔
اسی کے پیش نظر علماء نے دوران اعتکاف غسل تفریحی سے منع فرمایا ہے۔
اخوة الاسلام! اعتکاف سنت علی الکفایہ ہے یعنی محلہ کی مسجد میں اگر کوئی ایک آدمی بھی رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھ گیا تو یہ سنت ادا ہو جائے گی ۔اور پورا محلہ گناہ سے بچ جائے گا۔ ورنہ پورا محلہ گنہگار ہو گا۔ یوں یہ اعتکاف اپنی حیثیت میں ایک عظیم عبادت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمیشہ اعتکاف فرمانا اسی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ۔اس لئے اہل محلہ کو چاہئے کہ اپنی مسجد کو اعتکاف جیسی اہم عبادت سے محروم نہ رہنے دیں اور زیادہ معتکفین کی صورت میں مسجد کے احترام اور اعتکاف کی روح کو مجروح ہونے سے بچائیں ۔معتکف حضرات کا بحث مباحثہ میں لگنا، دنیوی باتوں میں مصروف رہنا یا موبائل وغیرہ سے دنیا بھر کے حالات سے باخبر رہنا اعتکاف کی روح کے منافی ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص رضائے الٰہی کے لئے ایک دن کا اعتکاف کرے اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کی آگ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردے گا اور ہر خندق زمین و آسمان کے خلاء کے برابر ہو گی۔ اور حضرت علی بن الحسین بن علی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا اللہ تعالیٰ اس کو دو حج اور دو عمروں کا ثواب عطا فرمائے گا۔ وسعتوں والے مالک کائنات کے لئے کیا مشکل ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ تمام معتکفین کے اعتکاف کو قبول فرمائے ۔آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu