Open Menu

Akhirat K Talib Bano - Article No. 3467

Akhirat K Talib Bano

آخرت کے طالب بنو - تحریر نمبر 3467

یعنی انسانوں میں کچھ وہ ہیں جو دنیا سے ایسی وابستگی رکھتے ہیں جیسی وابستگی بچوں کو اپنی ماں سے ہوتی ہے اور کچھ وہ ہیں جن کی ایسی ہی وابستگی اور رغبت بجائے دنیا کے آخرت سے ہے

پیر 6 جولائی 2020

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”میں اپنی اُمت پر جن بلاؤں کے آنے سے ڈرتا ہوں‘اُن میں سب سے زیادہ ڈر کی چیزیں ہویٰ اور طول امل ہے(یہاں ہویٰ سے مراد یہ ہے کہ دین ومذہب کے بارے میں اپنے نفس کے رجحانات اور خیالات کی پیروی کی جائے اور طول امل یہ ہے کہ دُنیوی زندگی کے بارے میں لمبی لمبی آرزوئیں دل میں پرورش کی جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو بیماریوں کو بہت زیادہ خوفناک بتلایا اور آگے اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی )کہ ہویٰ تو آدمی کو قبول حق سے مانع ہوتی ہے(یعنی اپنے نفسانی رجحانات اور خیالات کی پیروی کرنے والا قبول حق اور اتباع ہدایت سے محروم رہتا ہے)اور طول امل(یعنی لمبی لمبی آرزؤں میں دل پھنس جانا)آخرت کو بھلا دیتا ہے اور اس کی فکر اور اس کے لئے تیاری سے غافل کر دیتا ہے(اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ)یہ دنیا دم بدم چلی جارہی ہے‘گزر رہی ہے(کہیں اس کا ٹھہراؤ اور مقام نہیں)اور آخرت(اُد ھر سے)چل پڑی ہے‘چلی آرہی ہے۔

(جاری ہے)

اور ان دونوں کے بچے ہیں(یعنی انسانوں میں کچھ وہ ہیں جو دنیا سے ایسی وابستگی رکھتے ہیں جیسی وابستگی بچوں کو اپنی ماں سے ہوتی ہے اور کچھ وہ ہیں جن کی ایسی ہی وابستگی اور رغبت بجائے دنیا کے آخرت سے ہے)پس اے لوگو!اگر تم کر سکو تو ایسا کرو کہ دنیا(سے چمٹنے والے اس) کے بچے نہ بنو(بلکہ اس دنیا کو دارالعمل سمجھو) تم اس وقت دارالعمل میں ہو(یہاں تمہیں صرف محنت اور کمائی کرنی ہے) اور یہاں حساب اور جزاوسزا نہیں ہے‘اور کل تم (یہاں سے کوچ کرکے) دار آخرت میں پہنچ جانے والے ہو‘ اور وہاں کوئی عمل نہ ہو گا( بلکہ یہاں کے اعمال کا حساب ہو گا اور ہر شخص اپنے کیے کا بدلہ پائے گا)“۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر گز یہ گوارا نہیں کہ اُمت کا کوئی فرد ناکام و نامراد اور خائب وخاسر رہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم قدم پر لوگوں کو اُن خطرات سے آگاہ کیا ہے جو اُن کے لئے دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث ہیں۔شرک اور غیر اللہ کی پرستش سے منع کیا ہے‘والدین کی نافرمانی اور ہمسائیوں کے ساتھ بُرے سلوک سے روکا ہے۔
غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس کام سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے جو رذائل اخلاق میں آتے ہیں‘یعنی جن سے حقوق اللہ اور حقوق العباد تلف ہوتے ہیں۔
اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہویٰ اور طول امل میں گرفتار ہونے سے خبر دار کیا ہے۔ہویٰ سے مراد یہاں دین ومذہب کے بارے میں نفس کے رجحانات اور خیالات کی پیروی کرنا ہے اور طول امل وہ لمبی لمبی آرزوئیں ہیں جن کے پورا کرنے میں انسان اس قدر منہمک ہو جاتا ہے کہ اسے آخرت کی فکر نہیں رہتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہویٰ تو انسان کو قبول حق سے روکتی ہے۔چنانچہ جس حق بات کو اس کا نفس گوارا نہیں کرتا اُسے وہ مسترد کر دیتا ہے اور من کی مرضی کے اعمال میں مشغول رہتا ہے۔مثال کے طور پر سود کو حرام قرار دیا گیا ہے‘مگر کوئی شخص اس حقیقت کو جاننے کے باوجود سودی کاروبار نہیں چھوڑتا۔ایسا شخص ہوائے نفس میں مبتلا ہے۔اسی طرح خواتین کو پردے کا حکم ہے کہ وہ گلیوں بازاروں میں حسن کی نمائش نہ کرتی پھریں‘مگر یہ کام ان کو گوارا نہیں‘بلکہ وہ بن سنور کر چست لباس پہن کر بے پردہ گھومتی پھرتی ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ اُن کا یہ طرز عمل خواہش نفس کے تابع ہے۔انہوں نے اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اپنی مرضی کو اختیار کیا ہوا ہے۔ایسا طرز عمل سراسر ہلاکت ہے۔اسی طرح جدید نظریات وافکار جو انسان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں اُن کا اپنا نفس اُن کو قبول کرکے راضی ہے‘مگر دین اور شریعت میں ان کی کوئی بنیاد نہیں‘وہ گمراہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔

تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تمام بدعات کی بنیاد ہوائے نفس پر ہی ہے‘اگر چہ لوگ انہیں دین کا کام اور کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں مگر دین کے اندر اُن کا کوئی ذکر نہیں۔نہ وہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کیے ہیں‘مگر بعد کے ادوار میں لوگوں نے محض ہوائے نفس کے تابع وہ بدعات شروع کردیں اور اپنے نفس کی پسند کو اختیار کیا۔
حالانکہ بدعت کی شناعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ڈالنے والی ہے۔“بدعات کو اختیار کرنے والے لوگ اگر غور کریں تو خود اُن پر یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ یہ عمل جب اُسوئہ حسنہ میں نہیں ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا نہیں کیا تو ضروریہ بے فائدہ اور لایعنی ہے‘اگر چہ یہ ہمارے نفس کو مرغوب ہے۔
ہوائے نفس کا یہی تو مطلب ہے کہ اپنے نفس کے پسندیدہ عمل کو قبول کر لینا بغیر یہ جانے کہ یہ عمل اُسوئہ حسنہ میں ہے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اسے کیا ہے؟
پس ہر مسلمان کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ صرف ایسے اعمال کو اختیار کرے جن کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ان پر عمل کیا ہے‘اور ہر اُس عمل کو بدعت سمجھ کر چھوڑ دے جو بعد کے لوگوں نے ایجاد کیا اور خیر القرون میں وہ نظر نہیں آتا‘خواہ وہ بظاہر کتنا ہی خوش نما اور بھلا معلوم ہوتا ہو۔
اگر خواہش نفس کی پیروی کی جائے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خبر دار کر رہے ہیں کہ اس کا نتیجہ قبول حق میں رکاوٹ کا سبب بنے گا۔انسان کا مزاج ایسا بگڑے گا کہ حق یا ناحق کی پہچان کرتے وقت اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کرے گا اور کتاب وسنت کو نظر انداز کردے گا۔ظاہر ہے یہ طرز عمل سراسر ہلاکت ہے۔نفس کی خواہشات پر کنٹرول کرنا آسان نہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں نقل ہوا ہے‘وہ اعتراف کرتے ہیں کہ :”میں اپنے نفس کو بری الذمہ نہیں ٹھہراتا‘بے شک نفس تو برائی پر ہی اُکساتا ہے“۔جب ایک نبی یہ بات کہہ رہے ہیں تو قیاس کر لیا جائے کہ ایک عام آدمی کا نفس اسے کس حد تک برائی پر آمادہ کرتا ہو گا اور اسے نفس امارہ سے کس قدر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے!
دوسری بات جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کے حق میں خطرہ محسوس کیا ہے وہ طول امل ہے ‘جس کا مطلب ہے لمبی لمبی خواہشات میں پھنس جانا۔
یہ طرز عمل بھی انسان کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیتا ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی۔دنیاوی ترقی کے سلسلہ میں انسان کے لمبے چوڑے پروگرام طول امل ہی کے ضمن میں آتے ہیں۔اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ کیا ہے کہ جو شخص طول امل میں پھنس جاتا ہے آخرت اس کو یاد نہیں رہتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان واضح حقیقت پر مبنی ہے‘کیونکہ جو شخص دنیاوی زندگی کے لمبے پروگراموں میں پڑجائے گا اُس کے ذہن اور دماغ پر ہر وقت اس دنیا کی زندگی میں دوسروں پر سبقت لے جانے اور مال وجائیداد اکٹھی کرنے کا شوق سوار رہے گا اور آخرت کی زندگی کی حیثیت اس کے نزدیک صرف زبانی عقیدے کی ہوگی۔
کیونکہ جس شخص کو آخرت کی فکر لگ گئی وہ دنیا کی زندگی میں بس ناگزیر حد تک دلچسپی لے گا اور اس کی اصل دلچسپی اُن اعمال کو اختیار کرنے میں ہو گی جو اُس کی دائمی زندگی کو سنوارنے والے ہوں۔یہی طرز عمل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور یہی انداز فکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا تھا کہ اُن کے نزدیک دنیا دل لگانے کی نہیں بلکہ آخرت بنانے کی جگہ ہے۔

اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسل نے فرمایا یہ دنیا تو دم بدم چلی جارہی ہے ‘گزر رہی ہے اور یہ جو آخرت ہے یہ آگے سے چل پڑی ہے اور چلی آرہی ہے ۔دنیا اور آخرت دونوں کے بچے ہیں یعنی انسانوں میں کچھ ایسے ہیں جو دنیا سے ایسی محبت اور تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ بچوں کو ماں کے ساتھ ہوتا ہے اور کچھ وہ ہیں جن کو ایسی ہی وابستگی اور رغبت دنیا کے بجائے آخرت کے ساتھ ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اُمت کے غم خوار ہیں‘نصیحت کرتے ہیں کہ جہاں تک تم سے ہو سکے دنیا کے بیٹے نہ بنو“یعنی دنیا کے ساتھ بس واجبی اور ناگزیر حد تک تعلق رکھو۔تمہاری اصل دلچسپی آخرت کے ساتھ ہونی چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اپنی آخرت کے لئے)بھر پور عمل کرو‘ کیونکہ آج تم دارالعمل یعنی عمل کرنے کی جگہ میں ہو‘یہاں تمہیں عمل کرنے کی آزادی ہے‘ تم اچھے کام بھی کر سکتے ہو اور برے کام بھی۔
یہاں حساب کتاب اور جزاوسزا نہیں ہے‘اور کل تمہیں کوچ کرکے دار آخرت میں پہنچنا ہے‘اور آخرت وہ جگہ ہے جہاں کوئی عمل نہ ہو گا‘اگر چہ انسان چاہے گا کہ اب مجھے موقع دیا جائے تو اچھے عمل کروں گا مگر اُس وقت مہلت عمر گزار کر وہ دارالعمل سے دارالجزا میں پہنچ چکا ہوگا۔ اس طرح اُس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی‘بلکہ حسرت کے ساتھ ہاتھ ملنے کے سوا وہ کچھ نہ کر سکے گا۔
دنیا کے یہ شب وروز بڑے قیمتی ہیں۔ان کا صحیح استعمال کرکے انسان ابدی راحت حاصل کر سکتا ہے اور ان کو دنیا کی دلچسپیوں میں گزار کر اور شتر بے مہار کی طرح زندگی گزار کر ہمیشہ کی ناکامی اور نامرادی تک پہنچ جاتا ہے۔دنیا کی خواہشات کو اگر آزاد چھوڑ دیا جائے تو ان کی کوئی حد نہیں‘کیونکہ ہر خواہش سے آگے بھی ایک خواہش ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر آدمی کے پاس مال کی بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تمنا کرے گا اور آدمی کا پیٹ تو بس مٹی سے بھرے گا‘اور اللہ اس بندے پر عنایت اور مہربانی فرماتا ہے جو اپنا رخ اور توجہ اس کی طرف کرلے۔
“(صحیحین)
دنیا کی دلچسپیوں میں بڑی کشش ہے‘ان سے بچنا کوئی آسان کام نہیں۔ادھر ابلیس ان دلچسپیوں کو مزید خوش نما بنا کر انسان کو ان کا گرویدہ بناتا ہے۔پس دنیا کے ساتھ واجبی سا تعلق اسی صورت میں رہ سکتا ہے جب یاد خدا اور فکر آخرت انسان کے سامنے ہر وقت متحضر رہے اور وہ ہر عمل کرنے سے پہلے دیکھ لے کہ یہ کام آخرت میں کیا نتیجہ سامنے لائے گا‘اللہ تعالیٰ کی خوشنودی یا اُس کی ناراضی؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہمیں دو ہلاکتوں سے خبر دار کر رہا ہے۔
ایک نفسانی خواہشات کی پیروی اور دوسرے دنیا کی زندگی میں لمبی لمبی خواہشات۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اُمتی کی زندگی تو اس نہج پر بسر ہونی چاہیے کہ وہ نفسانی خواہشات کی غلامی سے بچے‘ہر کام دین وشریعت کی روشنی میں کرے‘اس راہ میں آنے والے شیطانی وسوسوں سے باخبر ہے‘شیطان کی ملمع سازیوں سے ہوشیار رہے۔الغرض اپنی ہر خواہش کو اللہ اور رسول کے تابع رکھے‘اور یہ اللہ کی توفیق کے بغیر نہیں ہوتا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:”اور جو شخص نفس کی خواہش سے بچا لیا گیا پس ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“۔پس اللہ تعالیٰ سے توفیق اور استقامت طلب کرتے رہنا چاہیے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر تلقین فرمایا ہے ”کہ کسی شخص میں نہ برائی سے بچنے کہ ہمت ہے اور نہ نیکی کرنے کی طاقت مگر اللہ کی توفیق سے“۔اسی طرح مال اور جائیداد کی کثرت کی خواہش پر قابو پانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکسیر نسخہ بتا دیا کہ مال و دولت میں اپنے سے نیچے کے لوگوں کو دیکھو اور دین میں اپنے سے اونچے کو دیکھو تاکہ ناداروں اور مفلسوں کی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر جذبہ شکر پیدا ہو اور دین میں اونچے لوگوں کو دیکھ کر نیکی میں آگے بڑھنے کا شوق پیدا ہو۔

Browse More Islamic Articles In Urdu