Open Menu

Al Fatiha K Baad Aamin Kehna - Article No. 3428

Al Fatiha K Baad Aamin Kehna

الفاتحہ کے بعد آمین کہنا - تحریر نمبر 3428

کہ جب امام (نماز پڑھاتے ہوئے) کہے: غیر المغضوب علیہم ولا الضالین تو تم سب آمین کہو

پیر 11 مئی 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ جب امام (نماز پڑھاتے ہوئے) کہے: غیر المغضوب علیہم ولا الضالین تو تم سب آمین کہو اس لئے کہ جس کا (آمین) کہنا ملائکہ کے (آمین) کہنے سے مطابقت کھا جائے گا اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (رواہ البخاری)
محترم سامعین! آج کی زیر مطالعہ حدیث مبارک کو امام المحدثین امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ۔
اپنے مضمون کے اعتبار سے اہم ترین حدیث ہے ۔جس کا تعلق امام کی اقتداء میں”آمین“ کہنے سے ہے کہ مقتدی جب امام سے سورة الفاتحہ کا آخری حصہ بقول بعض علماء آخری آیت سنے تو اُسے چاہیے کہ وہ آمین کہے ۔

(جاری ہے)

اگر اس کی آمین فرشتوں کی آمین کہنے کے ساتھ ہو گئی تو اثر اور اجر اس کا یہ ہے کہ سابقہ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے ۔اور ظاہر ہے کہ اس سے مراد چھوٹے اور صغیرہ گناہ ہیں ۔

بڑے اور کبیرہ گناہ بھی اللہ معاف فرما دیتے ہیں مگر ان کے لئے کھری اور سچی توبہ درکار ہے ۔اور اگر گناہ کبیرہ کا تعلق حقوق العباد سے ہوتو اُس حق کا ادا کرنا یا اس کی معانی تلافی کرانا بھی ضروری ہے ۔تاہم صغیرہ گناہوں کی معافی اور تمام کی معافی صرف لفظ آمین کہنے پر بہت بڑا انعام ہے۔
آئیے ذرا حدیث مبارک کے پس منظر پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ مقتدی کس دعا پر آمین کہتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ دعا سن کر ہی آمین کہی جاتی ہے ۔
جس کے معنی ہوتے ہیں کہ اے اللہ قبول فرما۔ یہ لفظ قرآن پاک کا حصہ نہیں ہے ۔بلکہ سنت نبوی سے ثابت ہے ۔احادیث میں موجود ہے کہ جب فرعون ظلم وتعدی کی تمام حدوں کو کرا س کر گیا اور بنی اسرائیل کی بے بسی اور بے کسی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیھما السلام سے دیکھی نہ گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ اللہ رب العزت کے حضور دعا کے لئے اٹھ گئے ۔
دعا کے الفاظ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مبارک زبان سے ادا ہوئے ،اُن پر آمین حضرت ہارون علیہ السلام نے کہی۔ قرآن حکیم کی سورة یونس کی آیت 88میں آپ کے دعائیہ الفاظ منقول ہوئے ہیں اور ساتھ ہی اگلی آیت 89میں یوں ارشاد ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے ۔اس لئے آپ دونوں اسی طرح سیدھی راہ پر چلتے رہیں اور ان لوگوں کی راہ کی پیروی بالکل نہ کریں جو کچھ نہیں جانتے ۔
یہ ہے دعا پر آمین کہنے کا اثر اور اجر۔ یہودی ایک حسد کی ماری ہوئی قوم ہے ۔مسلمانوں سے اُن کے حسد کی ایک وجہ دعا میں آمین کہنا بھی ہے۔
سامعین ذی قدر، اس کو ایک المیہ ہی کہا جائے گا کہ اللہ کی آخری کتاب قرآن حکیم پر ایمان رکھنے والی اور روزانہ پانچ وقتہ نماز ادا کرنے والی قوم یعنی مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جو قرآن حکیم کے معانی اور مطالب سے بالکل نا بلد ہے۔
حتیٰ کہ اکثر لوگ سورة الفاتحہ کا لفظی ترجمہ اور اس کے معانی نہیں جانتے حالانکہ سالہا سال سے مساجد میں نماز باجماعت کے عادی ہیں ۔اپنی انفرادی نماز کی ہر رکعت میں سورة الفاتحہ پڑھتے ہیں اور جہری نمازوں میں اپنے امام سے سنتے ہیں ۔حالانکہ یہ نہایت عظیم المرتبت سورة ہے ۔قرآن حکیم کا خلاصہ ہے ۔قرآن حکیم، تورات ،زبور اور انجیل میں اس جیسی کوئی اور سورت نہیں ہے ۔
بات احساس اور شوق کی ہے ۔یہ رونا تو ان کے لئے ہے جو کسی نہ کسی طرح نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہ مسلمان جو میری طرح نام کے مسلمان اور جو سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے ،ان کی حالت زار کا اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ وہ کتنی بڑی نعمت سے محروم ہیں ،انہیں کون سمجھائے اور کون قائل کرے ؟ذرا توجہ سے سماعت فرمائیں ۔حدیث شریف میں ہے اور یہ حدیث قدسی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں نے سورة الفاتحہ کواپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے ۔
جب وہ کہتا ہے ۔الحمد للہ رب العالمین ۔یعنی تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں تو میں کہتا ہوں: میرے بندے نے میری تعریف کی ہے ۔جب وہ کہتا ہے الرحمن الرحیم یعنی وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے تو میں کہتا ہوں کہ بندے نے میری ثنا اور تعریف بیان کی ہے ۔جب وہ مالک یوم الدین یعنی وہ جزا کے دن کا مالک ہے ،کہتا ہے تو میں جواب میں کہتاہوں کہ بندے نے میری بزرگی اور عظمت کا اقرار کیا ہے ۔
جب وہ کہتا ہے ایاک نعبدو ایاک نستعین یعنی اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں تو میں جواب دیتا ہوں کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان رابطہ اور تعلق کی بات ہے ۔یعنی وہ میرا عبادت گزار اور میں اس کا معبود ہوں ۔وہ مجھ سے مدد کا طلبگار ہوتا ہے اور میں اس کی مدد کر دیتا ہوں ۔اور جب وہ آخر میں کہتا ہے اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین یعنی اے اللہ مجھے سیدھی راہ پر چلائے رکھنا یعنی اس راہ پر جو ایسے لوگوں کی ہے جن پر آپ نے انعام فرمایا ۔
نہ ان پر غضب ہوا اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ ھذا لعبدی ولعبدی ماسائل کہ یہ درخواست میرے بندے کی ہے اور جو درخواست اس نے کی ہے میں اُس کے مطابق اُسے عطا کرونگا ۔اس پوری مناجات اور سرگوشی کے بعد جب امام کی اقتداء میں ان الفاظ کو سن کر مقتدی کہتا ہے آمین اور فرشتے جو اس وقت نماز میں موجود ہوتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں آمین یعنی اے اللہ قبول فرما تو سوچئے کہ کیا سماں بنتا ہوں گا۔
بس یوں سمجھئے کہ اللہ کی رحمت اُمڈ کر آتی ہے ،نمازیوں کو اپنی آغوش میں لیتی ہے اور اعلان ہو جاتا ہے کہ ان کے سب سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے ہیں ۔اللہ اکبر، کیا انعام ہے اور کیا اکرام ہے۔ اور یہ سب کچھ نماز کی بدولت ہے ۔مکمل نماز نہیں بلکہ اس کا ایک جزو ہے ۔جس کے لئے اتنا بڑا وقت صرف نہیں ہوتا ۔صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ امام صاحب کی قرأت کو توجہ سے سنا جائے ۔
اور ذوق وشوق سے آمین کہا جائے۔اونچی آواز سے ہو یا پست آواز سے ،کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سوچئے ذرا نماز کو چھوڑ دینا کتنی بڑی محرومی اور کتنا تکلیف دہ امر ہے ۔جی ہاں ،نہ ثناء ،نہ فاتحہ، نہ تلاوت ، نہ امین ،نہ تسبیح، نہ درود اور نہ دعا۔ محرومی نہیں تو اور کیا ہے کہ مسلمان ہے اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کے لئے متفرق اوقات میں صرف ایک گھنٹہ بھی فارغ نہیں کر سکتا۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے اور پانچ وقت مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu