Open Menu

Alameen Ki Aurton Ki Sardar Hazrat Fatima - Article No. 3045

Alameen Ki Aurton Ki Sardar Hazrat Fatima

عالمین کی عورتوں کی سردارحضرت فاطمہ - تحریر نمبر 3045

20جمادی الثانی طبقہ نسواں کا یوم نجات ہے جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ؐ کے پاکیزہ آنگن میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی گود میں خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی آمد ہوئی ۔جس عہد میں نبی کریم ؐ کے گھر میں ایک بیٹی حضرت فاطمہ ؑ کی آمد ہوتی ہے اس وقت دشمنان اسلام کفار

پیر 4 مارچ 2019

20جمادی الثانی طبقہ نسواں کا یوم نجات ہے جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ؐ کے پاکیزہ آنگن میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی گود میں خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی آمد ہوئی ۔جس عہد میں نبی کریم ؐ کے گھر میں ایک بیٹی حضرت فاطمہ ؑ کی آمد ہوتی ہے اس وقت دشمنان اسلام کفار مکہ رسول کو بیٹوں کی وفات کے سبب مقطو ع النسل اور ابتر ہونے کے طعنے دے رہے تھے ۔

دوسری جانب عورت اور بیٹی کا مقام اس قدر گر چکا تھاکہ وہ تذلیل کے پاتال میں اوندھے منہ پڑی تھی بدترین صنفی استحصال اس کا مقدر تھا ، غلاموں کی طرح عورت کو بھی شہریت کا حق حاصل نہ تھا یونانی تہذیب انسانیت کو طاعون اور غم کا شکار کر نے کا الزام عورت کے سر دھرتی تھی حد تو یہ ہے کہ الہامی مذہب عیسائیت کے پیشوا عورت کو شیطانیت کا باب قرار دے کر موجبِ نفرت قراردے چکے تھے اور عرب معاشرے کا حال تو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا۔

(جاری ہے)


اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ غم کے سبب کالا پڑ جاتا ہے، اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہناک ہو جاتا ہے،(بیٹی کی پیدائش کے سبب) وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں دفنا دے۔(سورہ نحل )
پیدا ہوتے ہی مار دیا جانا عورت کا مقدر تھابطحا کی سرزمین سے پھوٹنے والی صدائے مصطفوی ؐ ظلم استحصال جہالت فسق و فجور کے گلے سڑے نظام کی بنیادیں پہلے ہی ہلا چکی تھی ۔
ذات خداوندی نے اپنے پیارے حبیب کے گھر میں فاطمہ جیسی بیٹی عطا کرکے عورتوں پر ظلم جبر استحصال کی فرسودہ روایات کو خس و خشاک کی مانند بکھیر کر رکھ دیا۔
بیٹیوں سے نفرت کرنے والے معاشرے میں فاطمہ ز ہراؓ نبی کریم کی محبتوں کا مرکز بنی نظر آتی ہیں، جونبیؐ اللہ کی محبوب ترین ہستی ہیں ان کی محبوب ترین ہستی بھی فاطمہ ز ہراؓہیں ۔ عبدالسلام بن حرب، ابوالجحاف، جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنی پھوپی کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ حضورؐ کو کس سے سب سے زیادہ محبت تھی۔
ام المومنین ؓنے فرمایا کہ فاطمہ ز ہراؓ سے۔ پھر پوچھا کہ مردوں میں کس سے سب سے زیادہ محبت تھی انہوں نے فرمایا کہ ان کے (یعنی فا طمہؓ کے) شوہر سے۔(جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1845
صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت ؐ کی حضرت فاطمہ ز ہراؓ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ رسول کریم ؐ جب سفر پر روانہ ہوتے تو اپنے اہل و عیال کے لوگوں میں سب سے آخری وقت حضرت فاطمہ ز ہراؓ کوعطا کرتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے ہاں جاتے(مشکوۃ شریف:جلد چہارم)
جہاں بیٹی کوذلت سمجھا جاتا تھا وہاں کائنات کی بلند ترین ہستی حضرت محمد مصطفی ؐاپنی خوشی کا موجب اپنی بیٹی فاطمہؓ کی خوشی اور ناراضگی کو اپنی بیٹی کی ناراضگی سے مشروط کردیتے ہیںاور فرماتے ہیں ’’ فا طمہؓمیرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھ کو غضبناک کیا۔
(صحیح بخاری:متفق علیہ)
جس نبی ؐ کی تعظیم حضرت آدم سے عیسی ؑ تک تمام انبیاء اور ملائکہ کرتے ہیں وہ نبیؐ اپنی بیٹی فاطمہ ؓکی تعظیم اور تکریم کیلئے کھڑے نظر آتے ہیں ۔ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے عادات چال چلن خصلتوں اور اٹھنے بیٹھنے میں فاطمہ بنت محمدؐ سے زیادہ حضور نبی کریم ؓسے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا۔ جب حضرت فاطمہ آتیں تو آپؐ کھڑے ہوجاتے ان کا بوسہ لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
(جامع ترمذی:جلد دوم متفق علیہ)
نبیؐ کریم کی بیٹی کا مقام مادر عیسی حضرت مریمؑ سے بھی بلند قرار دیا جاتا ہے ۔ابن عباس پیغمبر خدا ؐسے روایت کرتے ہیںچار خواتین اپنے زمانے کی دنیا کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون ، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ؐ، اور ان کے درمیان سب سے زیادہ افضل حضرت فاطمہؓ ہیں"۔ (الدر المنثور سیوطی)حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؓ نے فرمایا کہ تمہارے (اتباع و اقتداء کرنے) کے لئے چار عورتیں ہی کافی ہیں۔
مریم بنت عمران، فرعون کی بیوی آسیہ،خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمدؐ۔ (جامع ترمذی:جلد دوم )
علمائے اہلسنت سمیت الزرقانی، امام المقریزی، قطب الخضیری اور امام السیوطی سمیت ہر مورخ محقق نے تسلیم کیا کہ فاطمہؓ حضرت مریم ؑسمیت دنیا کی تمام عورتوں سے افضل و برتر ہیں۔ (روض الانف) اسی لئے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا کہ
مریم از یک نسبت عیسی عزیز از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
مریم عیسیٰؑ کی ماں ہونے کے ناطے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں؛ جبکہ حضرت زہرا تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں۔
( رحمۃ للعالمین ؐکی دختر، امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طا لبؓ کی زوجہ اور حسنین شریفین کی مادرگرامی)
مستدرک علی الصحیحین میں امام حاکم نیشاپوری نقل کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے اپنے آخری وقت میں حضرت فاطمہ ؓسے فرمایا: بیٹی!کیا تم خو ش نہیں کہ تم امت اسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردارہو یہ حدیث بخاری و مسلم نے بھی نقل کی ہے ۔
آلوسی حدیث نبوی کو یوں نقل کرتے ہیں کہ "اِنفاطمۃ البتول ا فضل النسا المتقدمات و المتخرات؛ فاطمہ بتولؑ تمام گذشتہ اور آئندہ عورتوں سے افضل ہیں"۔(تفسیرروح المعانی)
دنیا بیٹوں سے اپنی نسل کے تحفظ کیلئے محبت کیا کرتی تھی ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے اسی لئے بیٹوں کی وفات پر مشرکین مکہ نے نبی کریم ؐکو مقطوع النسل ہونے کے طعنے دیئے ۔
لیکن فاطمہ ز ہراؓ کی صورت اللہ نے اپنے حبیب کو سورہ کوثر کی تفسیرعطا کی ۔ امام فخر الدین رازی ؒ کے بقول حضرت فاطمہ ز ہراؓاور ان کی اولاد رسولؐ اللہ کو ابتر کہنے والوں کیلئے اللہ کا جواب تھا۔آج عاص بن وائل ، ابو جہل ، عقبہ بن معیط کا کوئی نام لیوا نہیں لیکن سادات بنی فا طمہؓ کی صورت میں اولاد مصطفی ؐ پوری دنیا میں تو حید ورسالت و ولایت کا پرچم سربلند کئے ہوئے ہے ۔

جس معاشرے میں لڑکے باعث افتخار سمجھے جاتے تھے وہاں افضل کائنات نبی کی نسل کا ذریعہ بیٹی قرار دے دی جاتی ہے ۔حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ ؓکے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا ولی ہوں‘‘حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہؓ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب اولاد فا طمہؓ کے (حاکم المستدرک ،طبرانی المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )
یہ اللہ کی عطا کردہ عظمت ہی ہے کہ فرشتے بھی نبی ؐ کی پیاری بیٹی کی نوکری کرتے نظر آتے ہیں ۔
جب حضرت فاطمہ ز ہراؓ نما زمیں مشغول ہوتیں توفرشتے ان کے بچوں کا گہوارہ جھلاتے جب وہ قرآن پڑھنے میں مشغول ہوتیں توفرشتے ان کی چکی پیستے ۔آنحضور نے گہوارہ چلانے والے فرشتے کا نام جبریل اور چکی پیسنے والے کا نام اوقابیل بتایا(مناقب شہر آشوب)
حضرت فاطمہ ز ہراؓ کی عظمتوں رفعتوں کا احاطہ خدا اور نبی کے سوا کوئی کر ہی نہیں سکتا۔
جب حشر کا میدان سجے گا توبڑے بڑے شیر دل اور بہادر لوگوں کے دل خوف سے کانپ رہے ہوں گے، زمین کپکپا رہی ہو گی آ سمان تھر تھرارہا ہوگا پہا ڑ ریزہ ریزہ اور ستارے ٹو ٹ جائیں گے،پانیوں میں آ گ لگ جا ئے گی زمین سکڑ کراپنے اندر کی چیزیں باہر پھینک رہی ہوگی پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ تے پھر رہے ہوں گے ۔ہر شخص اپنے اعمال کا حساب دے رہا ہو گا نہ باپ بیٹے کا اور نہ بیٹا باپ کا ہوگا اس روز نبی ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ ز ہراؓ کی عجب شان ہوگی ۔
حضرت فاطمہ زہرا کی آمدکی شان ان کے مقام کا پتہ دیتی ہے ۔
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ وحضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ روزقیامت عرش کی گہرائیوں سے ایک ندا دینے والا آواز دے گا۔ اے محشر والو ! اپنے سروں کو جھکا لو اور اپنی نگاہیں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد مصطفی ؐ گزر جائیں ۔پس فاطمہ زہراؓگزر جائیں گی اور آپ کے ساتھ چمکتی بجلیوں کی طرح ستر ہزار خادمائیں ہوں گی۔
(فضائل الصحابہ احمد بن حنبلؒ ،کنزالعمال ،محب طبری ،تذکرۃ الخواص ابن جوزی)یہی روایت حضرت ابو ہریرہؓ ؓسے بھی ہے ۔(خطیب بغدادی ،محب طبری )

حضرت ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں نبی اکرم ؐنے فرمایا’’ہرنبی قیامت کے دن اپنی سواری پرکے جانوروں پر سوار ہو کر اپنی قوم میں سے ایمان والوں کے ساتھ میدان محشر میں تشریف لائیں گے ،حضرت صالحؑ اپنی اونٹنی پر لائے جائیں گے اور مجھے ؐبراق پر لایاجائے گاجس کا قدم اس کی منتہئاے نگاہ پر پڑے گااور میرے آگے فا طمیؓ ہوگی ‘‘(مستدرک الحاکم )حضرت بریدہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل نے عرض کیا’’یا رسول اللہؐ آپ اپنی اونٹنی عضباء پر سوار ہوکر قیامت کے روز گزریں گے ؟تو آپ ؐ نے فرمایا میں اس براق پر سوار ہوں گا جو نبیوں میں سے خصوصی طور پر مجھے عطا ہوگامیری سواری عضباء پر میری بیٹی فاطمہؓ سوار ہوگی ‘‘(ابن عساکر ،تاریخ دمشق الکبیر،کنز العمال )

حضرت فا طمہؓ کے گھراور دروازے کی بھی شان سب سے جدا ہے پیغمبر اسلام ؐا روز کامعمول تھا ک جب نماز صبح کے لئے تشریف لے جاتے تھے تو حضرت زہرا ؓکے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر اپنی بیٹی اور ان کے گھرانے پر سلام بھیجتے ہوئے فرماتے تھے: ’’السلام علیک یا اہل بیت النبوۃ اورسورہ احزاب کی اس آیت کی تلاوت فرماتے اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًااے اہلبیت( رسولؐ) اللہ یہ چاہتا ہے کہ تم سے نجاست کو دور کردے اور تمہیں ہر طرح سے پاک رکھے (جیسا پاک ر کھنے کا حق ہے )

جب مسجد نبوی میں تمام گھروں کے دروازے بند کر دیئے گئے تو واحد گھر جس کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلا رہنے دیا گیا وہ حضرت فاطمہ ز ہراؓ کاہی تھا۔
محدثین بیان کرتے ہیں جس وقت سورہ نور کی یہ آیہ مبار نازل ہوئی ’’ (خدا کانور) ان گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے‘‘تو پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کو مسجد میں تلاوت کیا ، اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے رسول گرامیؐ! اس اہم گھر سے مراد کونسا گھر ہے؟پیغمبر اکرم ؐ نے فرمایا: پیغمبروں کے گھر!حضرت ابوبکر ؓنے حضرت فاطمہؓ وعلی ؓ کے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کیا یہ گھر انہی گھروں میں سے ہے؟پیغمبر اکرم ؐنے جواب دیا: ہاں ان میں سے سب سے زیادہ نمایاں یہی گھر ہے (در المنثور، ج۶ ۔
تفسیر سورہ نور، روح المعانی)

حضرت فاطمہ ز ہراؓ وہ عظیم ہستی ہیں جن کے نکاح کی تقریب عرش پر بھی سجائی گئی حضرت انس بن مالک ؓسے مروی ہے کہ رسول ؐ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علیؓ سے فرمایا اللہ نے فاطمہ ؓسے تمہاری شادی کردی ہے اور تمہارے نکاح پر چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیااور شجر ہائے طوبی سے فرمایاان پر موتی اور یاقت نچھاور کروپھر دلکش آنکھوں والی حوریں ان موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے )فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیں گے ‘‘(محب طبری الریاض النضرۃ)

المختصر یہ کہ فا طمہؓ بنت محمد ؐمصطفی ؐکا وجود خواتین کی نجات کی نوید بن گیا بیٹیاں زحمت کے بجائے رحمت قرار دی جانے لگیں ۔
ہر طرح کے حق سے محروم عورت کو تمام حقوق سے بہرہ مند کردیا گیا۔حضرت فاطمہ زہراؑ اسلام کی جانب سے عورت کو عطا کئے گئے مقام و احترام کا نمونہ و سمبل بن گئیں ۔اسلام نے عورت کو جومقام14سو سال قبل دیا تھا وہ غیر مسلم معاشرے اور مغربی دنیا آج بھی نہیں دے سکیں ۔ فروری1918میں برطانیہ میں عورت کو مشروط رائے دہی کا حق دیا گیا مغرب میں عورت کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل جدوجہد سے گزرنا پڑا 1979میں جاکر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اقسام کے خاتمے کے کنونشن کو منظور کیا جبکہ نبی کریم ؐ نے چودہ سو سال قبل اللہ کی وحی نازل ہونے کے بعد پہلی تصدیق مادر فاطمہ ز ہراؓحضرت خدیجۃ الکبری سے حاصل کی ۔


کس قدر افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ مغربی میڈیاآج اسلام کو خواتین کے حقوق سلب کرنے والے مذہب کے طور پر پیش کررہا ہے اورمادر پدر آزاد ی کے جھانسے میں عورت کو اشتہارات کی زینت بنا کر اسے ایک بار پھر اسی ذلت میں دھکیل رہا ہے جس کی گہرائیوں سے اسلام نے اسے نکالا تھا۔ مغربیت کے ناسور کا شکار خواتین کیلئے حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے بجا فرمایا تھا

مزرع تسلیم را حاصل بتول مادراں را اسوہ کامل بتول

اگرغور کیا جائے توحضرت فاطمہ زہراؓ کی پیدائش کا دن 20 جمادی الثانی یوم بنات بھی ہے ، یوم مادراں بھی ہے اور یوم خواتین بھی ،جن کے دم قدم سے عورت کا حقیقی مقام اسلام نے زمانے پر آشکار کیا۔
خواتین عالم اگر واقعا حقوق حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں دامن فاطمہ ز ہراؓ سے وابستہ ہوکر اسلام کے سایہ میں پناہ لینا ہوگی اور مسلم خواتین کو بھی دنیا و آخرت میں سرخروئی کیلئے مغرب کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے سیرت فاطمہ ز ہراؓ کو آئیڈیل بنانا ہوگا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu