Open Menu

Alhab Fi ALLAH Ka Ajar - Article No. 3416

Alhab Fi ALLAH Ka Ajar

الحب فی اللہ کا اجر - تحریر نمبر 3416

بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری عظمت کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کیا کرتے تھے؟ آج میں اُنہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا ،جبکہ اس دن میرے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں۔

جمعہ 8 مئی 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری عظمت کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کیا کرتے تھے؟ آج میں اُنہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا ،جبکہ اس دن میرے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں۔
(صحیح مسلم)
سامعین گرامی قدر!اپنے اس ارشاد گرامی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کے دن سے متعلق ایک بہت بڑی خوشخبری کا ذکر فرمایا ہے۔ اہل ایمان کا پختہ عقیدہ ہے کہ یوم القیامة ،یوم الحساب ہے اس دن ہر آدمی دربار الٰہی میں پیش ہو گا۔ اعمال نامے کھل جائیں گے ۔فرشتے مکمل ریکارڈ لے کر آموجود ہوں گے ۔

(جاری ہے)

زمین پروردگار عالم کے نور سے چمک اُٹھے گی ۔

سورج سو انیزے پر ہوگا ۔زمین تانبے کی ہو جائے گی انسان جو اس باختگی کے عالم میں ماں باپ اولاد اور دوستوں سے چھپتا پھر رہا ہوگا۔ ان مشکل اور بدلے ہوئے حالات میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ کہیں کوئی سایہ میسر آجائے اور انسان اس کے نیچے پناہ لے لے۔ ایسے میں خالق کائنات جل مجدہ کا یہ اعلان گونجے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور عظمت کی بنا پر ایک دوسرے سے محبت کیا کرتے تھے ۔
آج میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔ یہ وہ دن ہے کہ اس میں میرے سائے کے سوا اور کوئی سایہ ہے ہی نہیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ اس عظیم الشان اعلان کی تشریح کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ۔ہم جس چیز کے پابند ہیں وہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے ہونے پر یقین رکھیں ۔وہ قادر مطلق ہے اور طاقت رکھتا ہے کہ وہ کسی ظاہری اوٹ کے بغیر ہی سایہ کردے اور لوگ بدن کو جھلسا دینے والی تپش سے محفوظ ہو جائیں ۔
ساری بات کُن فیکون کی ہے ۔یہ اُس کی عظمت وجلال کا سایہ ہوگا جس کی بنیاد پر یہ خوش قسمت لوگ اس دنیا میں ایک دوسرے سے محبت کیا کرتے تھے ۔اللہ کی عظمت وجلال سایہ فگن ہوتو کہاں کی دھوپ اور کہاں کی تپش۔ مزید غور کیجئے تو اس سوال بلکہ اعلان میں اپنائیت کا ایک جہاں پوشیدہ ہے ،جسے الفاظ وبیان کی قبائیں نہیں پہنائی جاسکتیں ۔اُن سعادت مند لوگوں کو کتنا سرور اور کتنی راحت نصیب ہوگی ،کون بیان کر سکتاہے ۔
بہر حال یہ سایہ اللہ کی عظمت کا سایہ ہو یا اُس کے عرش کا جیسا کہ کچھ علماء کرام کہتے ہیں یہ بات طے ہے کہ قیامت کے ہولناک منظر میں یہ اس کی بے پایاں رحمت کا عنوان اور اس کے پیارے بندوں کے لئے جسمانی اور روحانی اطمینان کا باعث بنے گا۔
یا اخوة السلام ! یہاں ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ انعام صرف اور صرف اُس محبت اور قلبی تعلق کا ہے جس کے پس منظر میں یا بنیاد میں اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کی عظمت ہو ۔
یہ محبت خالصةً اللہ کے لئے ہوتی ہے ۔اور اس میں انسان کی خواہش نفس یا جنسی جذبات کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ سفلی جذبات پر مشتمل محبت کو محبت کہنا ہی زیادتی ہے۔وہ دراصل خیانت نفس ہے اور اخلاقی اعتبار سے نہایت گری ہوئی حرکت ہے جو گلی کو چوں میں رسوا ہوتی پھرتی ہے ۔اللہ کے نام پر قائم ہونے والی محبت کے لئے نہ ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیں اور نہ ہی اس کے اظہار کے لئے کسی کو پھول کی پتیاں یا گلاب کی کلیاں پیش کی جاتی ہیں ۔
ویلنٹائن ڈے کے نام سے اسلامی معاشرے اور اسلامی ملکوں میں درآنے والی قبیح رسم کا اُس پاکیزہ جذبے سے دور کا بھی تعلق نہیں جس کا تذکرہ اس حدیث پاک میں کیا گیا ہے ۔نہ جانے ہم مسلمان کیوں اس قدر ناتواں اور مرعوب ہیں کہ ہر قبیح رسم کو آناً فاناً قبول کر لیتے ہیں اور اس طرح کھب جاتے ہیں کہ اُس کے موجدین سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ۔اس کے لئے نام نہاد تہنیتی کارڈز کی ترسیل ،موبائیلی پیغامات ،زبانی ڈائیلاگ اور اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں جس میں مرد عورتیں بچے جوان اور حتیٰ کہ بوڑھے بھی شریک ہوتے ہیں ،قطعاً مسلمان کو زیب نہیں دیتیں ۔
نہ یہ تفریح ہے اور نہ ہی جائز مشغلہ ۔قرآن حکیم کی زبان میں اس کو ”فواحش کی اشاعت “کہا گیا ہے ۔یہ ہمارے قومی وقار کے منافی ہے اور اس سے ہمارے باہمی احترام اور اعتماد کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔ اس کے لئے اللہ کی کتاب اور سنت رسول سے دلائل تلاش کرنا اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اس سے احتراز کرنا اور دوسروں کو اس سے منع کرنا ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔

حضرات گرامی۔ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ نام پر قائم ہونے والی محبت مطلوب بھی ہے اور محمود بھی ۔آخرت میں اس پر انعام ہے تو دنیا میں بھی اس کا اعلیٰ مقام ہے ۔اس کے مقدس نام کی وجہ سے اعلیٰ اقدار کو فروغ ملتاہے۔دوریاں ،قربتوں میں بدل جاتی ہیں ۔تلخیاں،حلاوتوں کا روپ دھار لیتی ہیں ۔کینہ ،حسد، بغض ،تعصب اور نفرتوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔
پورا معاشرہ امن اور سلامتی کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ خیر خواہی ،اُخوت اور اسلامی بھائی چارے کی فضا وجود میں آتی ہے ۔صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ارشادات پر صدق دل سے عمل کیا جائے اور ان کے اندر جو حکمت اور روحانی فوائد ہیں انہیں اپنی قیمتی متاع اور سرمایہ زندگی سمجھ کر حرزجاں بنایا جائے۔ دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیوں اور کامیابیوں کا راز اسی میں مضمر ہے۔اللہ پاک توفیق عطا فرمائیں۔آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu