Open Menu

Asaan Or Khobsorat Amaal - Article No. 3386

Asaan Or Khobsorat Amaal

آسان اور خوبصورت عمل - تحریر نمبر 3386

تم(ضرورت مندوں کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کرو خواہ کسی کو پہنچانتے ہو یا نہیں پہنچانتے۔

ہفتہ 25 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ اسلام کی کونسی خصلت سب سے اچھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم(ضرورت مندوں کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کرو خواہ کسی کو پہنچانتے ہو یا نہیں پہنچانتے۔(رواہ الشیخان)
سامعین !اپنے اس ارشاد گرامی میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کے دریافت کرنے پر دین اسلام کی اُن دو بہترین خصلتوں کا تذکرہ فرمایا ہے جو مسلمان کی معاشرتی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں ۔
ایک ہے ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا اور دوسری ہے سلام کرنا خواہ کسی سے ذاتی تعارف ہو یا نہ ہو۔
ہر ذی شعور انسان اس بات سے یقینا اتفاق کرے گا کہ معاشرے کا حسن اس بات میں ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوں، مروت وایثار کے خوگرہوں ۔

(جاری ہے)

یگانگت اور ایک دوسرے کی دلجوئی کے دلدادہ ہوں ۔نیکی اور خوبی کی کوئی بات مل جائے ،اُسے اپنانے میں دیرنہ کرتے ہوں ۔

شر اور برائی کی کوئی شکل نظر آجائے ،اس کو جھٹک دینے میں تامل نہ کرتے ہوں ۔نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض عمدہ خصائل جو دیکھنے ہیں معمولی نظر آتی ہیں اپنی افادیت کی حیثیت سے بے انتہاء وقیع ہوتی ہیں اور کچھ رذائل جو کمتر دکھائی دیتی ہیں ،اپنی ضرر رسانی کی وجہ سے دور رس منفی اثرات مرتب کرتی ہیں ۔
رسول انسانیت محسن عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو ہر اُس خوبی کو اپنانے کا حکم فرمایا ہے جس سے باہمی یگانگت پیدا ہو اور بحیثیت مجموعی پورے معاشرہ کی شیرازہ بندی ہو۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس برائی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے جس سے نفرت ،عداوت اور نزاع کا کوئی بھی پہلو نکلتا ہو۔اس لئے شریعت اسلامیہ میں محض خندہ پیشانی سے کسی کو مل لینا بڑی نیکی ہے اور راستہ سے کنکر،پتھر اور کانٹا ہٹا دینا بھی بڑا کار ثواب ہے ۔حالانکہ ظاہری اعتبار سے یہ دونوں کام نہایت معمولی نظر آتے ہیں۔
حضرات! آج کے اپنے اس ارشاد گرامی میں جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی ضرورت مند کو کھانا کھلا دینے کو اسلام کی بہترین خوبی قرار دیا ہے۔
دیکھا جائے تو انسان کی مادی اور جسمانی ضروریات میں سے اہم ترین ضرورت کھاناہی ہے ۔انسان کی زندگی بھر کی تگ ودو اسی کے گرد گھومتی ہے ۔کھانے کے دونوالوں کے لئے ہی تجارت ،زراعت صنعت وحرفت اور ملازمت کے سارے شعبے دن رات مصروف عمل ہیں ۔مگر ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وسائل رزق ہر ایک کے لئے یکساں طور پر میسر نہیں ہیں ۔انسانی معاشرہ میں ایسا طبقہ ضرور موجود رہتاہے جو کسی نہ کسی طور پر ایسی صورت حال سے دو چار ہوتاہے کہ اُسے ظاہری اسباب کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے ۔
کوئی قرض کے بوجھ تلے دب گیا ۔کوئی غربت اور افلاس کے بھنور میں پھنس کر رہ گیا اور کوئی وسائل رزق کے حصول کی دوڑ میں اپنی تمام ترکوشش کے باوجود پیچھے رہ گیا۔ اب یہاں بات بے حس معاشروں کی نہیں بلکہ اس معاشرے کی ہے جس میں احساس ابھی زندہ ہے اور جو کسی کے دکھ درد کو محسوس کرتاہے کہ اس میں ایسے سعادت مند افراد ضرور سامنے آجاتے ہیں جو اپنی استطاعت کے مطابق ان کی ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔
کچھ صاحبان توفیق بڑے بڑے منصوبوں سے یتیموں ،بیواؤں، غریبوں اور مسکینوں کی مالی معاونت کرتے ہیں اور صرف اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں۔ یہاں اس حدیث پاک میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالکل نچلی سطح سے اس کام کو اٹھایا اور تلقین فرمائی ہے اور اس کا عملی طریقہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم کسی ضرورت مند کو کھانا کھلادو۔ گویا یہ خدمت خلق کی بنیادی اکائی ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ محض زبانی کلامی کسی کی غربت یا خستہ حالی پر اظہار افسوس نہ کیا جائے بلکہ جو کچھ اپنی استطاعت میں ہے ،اُس سے عملی آغاز کیا جائے ۔گھر میں جو کچھ پکا ہے یا جو کچھ موجود ہے ،وہی ضرورت مند کے سامنے کر دیا جائے۔ یہ دراصل انسانی ہمدردی اور خیر خواہی کا پہلا قدم اور راست اقدام ہے۔اس عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی بہترین خصلت قرار دیا ہے کہ کوئی شخص اسے حقیر نہ سمجھے ۔
عمل خیر کے لئے جب موقع ملے اور جتنا ملے، اُسے فوراً رُو بعمل لایا جائے ۔سلف صالحین تو ایسے مواقع پر روٹی کے معمولی ٹکڑے بھی پیش کر دیتے تھے اور کھانے والا بھی ہتک محسوس نہیں کرتا تھا۔
دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ ہر ملنے والے کو سلام کرو، خواہ تم اُسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے ۔حضرات گرامی !یہ خوبی پہلی خوبی کے مقابلے میں اپنے اندر بہت زیادہ عمومیت رکھتی ہے۔
اس کا تعلق کسی ضرورت سے ہے اور نہ مجبوری سے ۔نہ غربت سے نہ امارت سے ۔یہ ایک ایسا معاشرتی اور اسلامی حق ہے جو ہر ایک کے ذمہ ہے ۔یہاں ذاتی تعارف یا عدم تعارف کوئی معنی نہیں رکھتا۔ا صل بات یہ ہے کہ کسی کو السلام علیکم کہہ دینا بذات خود بہت بڑا تعارف ہے۔ اور اس کا جواب دینا یعنی وعلیکم السلام کہنا محبت اور پیار کا لازوال پیغام ہے ۔یہ اسلامی سوسائٹی کا طرئہ امتیاز ہے ۔
اس لئے معمول کی گفتگو سے پہلے ہر مسلمان اس سے عہد ہ برا ہونے میں اپنی سعادت سمجھتاہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے عام کرنے کی اتنی تاکید فرمائی ہے کہ شاید ہی کسی اور معاملے میں اتنی تاکید فرمائی ہو۔ آپ کی بار بار کی تاکید نے اسے تقریباً اسلامی شعار کا مقام عطا فرما دیا ہے اور جو محض شعار ہی نہیں بلکہ کار ثواب بھی ہے۔ اس لئے کسی کو سلام کرنے میں نہ ہی عار ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی سٹیٹس کو اس میں حائل ہونا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام کرنے میں پہل فرماتے اور آپ تو بچوں تک کو بھی سلام کرتے تھے۔
ضرورت ہے کہ آج اس شعار کو اسلامی جذبے کے تحت زندہ کیا جائے ۔ایوانوں میں ،گھروں میں ،دفتروں میں حتیٰ کہ کو چہ وبازار میں اس کا چرچا عام کردیا جائے کیونکہ یہ اسلام کے بہترین خصائل میں سے ایک ہے ۔قرآن حکیم میں ہے کہ جب تمہیں کوئی شخص سلام کرے تو تم اُسے اس سے اچھا جواب دو یا(کم از کم) وہی الفاظ لوٹا دو(النساء:68)۔اس لئے سلام کرنا مسنون عمل ہے مگر اس کا جواب دینا فرض علی الکفایة ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں حدیث پاک کی دونوں خصلتوں یعنی غریب کو کھانا کھلانے اور سلام کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu