Open Menu

Asaan Rah Ikhtiyar Karna - Article No. 3407

Asaan Rah Ikhtiyar Karna

آسان راہ اختیار کرنا - تحریر نمبر 3407

جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو معاملوں میں سے کسی ایک کو پسند کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اُن دونوں میں سے آسان معاملے کو پسند فرمایا

منگل 5 مئی 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ،فرماتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو معاملوں میں سے کسی ایک کو پسند کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اُن دونوں میں سے آسان معاملے کو پسند فرمایا بشر طیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو ۔ اگر آسان معاملہ گناہ کا کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس سے دور ہی رہتے ۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کی خاطر کبھی کسی سے انتقام اور بدلہ نہیں لیا۔ ہاں اگر اللہ کے کسی حکم کی بے حرمتی ہوتی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدلہ لیتے تھے۔ (رواہ البخاری)
گرامی قدر سامعین! آج کی زیر مطالعہ حدیث کورئیس المحدثین حضرت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل فرمایا ہے ۔

(جاری ہے)

یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ پر نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر مشتمل ہے ۔

جسے آپ نے اپنی پوری حیات اقدس میں امت کی ہدایت کے لئے اختیار فرمایا اور جسے ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا اور وہ یہ کہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دین ودنیا کے کسی بھی معاملہ میں اس کے دو پہلوؤں میں سے کسی ایک کو عمل میں لانے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے آسان پہلو ہی کو پسند فرمایا بشر طیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو ۔
اگر وہ پہلو ناجائز کام پر مشتمل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے مسترد فرما دیتے تھے ۔بات دراصل یہ ہے کہ دین اسلام کی بنیاد ہی اس اصول پر قائم ہے کہ لوگوں کے لئے مشکل کی بجائے سہولت اور آسانی پیدا کی جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے دین کا کوئی بھی حکم انسانی استطاعت سے ماوراء نہیں ۔ارشاد گرامی ہے اسی اصول کے تحت ہی سارے شرعی احکام وضع کئے گئے ہیں۔
چنانچہ روزے کے احکام کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لئے آسانی پیدا کرے ،وہ نہیں چاہتا کہ تمہیں مشکل میں ڈال دے۔
حج تمتع میں حجاج کرام کو شکرانے کے طور پر ھدی کے نام سے قربانی پیش کرنا واجب ہوتاہے ۔اس میں بھی یہ بات ارشاد فرمائی کہ جو بھی قربانی کا جانور سہولت اور آسانی سے میسر آئے ،قربان کیا جائے ۔اگر اس کی استطاعت نہیں ہے تو اس کے بدلے دس روزے رکھ لئے جائیں ۔
تین حج کے دوران اور سات روزے گھروں کو لوٹ جانے کے بعد۔ نماز میں قرآن حکیم کی تلاوت کرنا فرض ہے ۔اس میں بھی یہی ہدایت جاری فرمائی کہ ۔ یعنی جتنی تلاوت تم سہولت سے کر سکتے ہو ،کرلو۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ ہی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل فرمایا ہے ۔”بلا شبہ یہ دین آسان ہے اور جو بھی شخص زبردستی اسے مشکل بنانا چاہے گا، دین اپنی آسانی کی وجہ سے اس پر غالب آجائے گا یعنی وہ آدمی مشکل کو چھوڑ کر آسان پہلو اختیار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پائے گا۔
کیونکہ آسانی ایک فطری امر ہے جب کہ مشکل پسندی ایک جبر کی صورت ہے ۔اور کوئی بھی انسان جبر کے تحت دیر تک رہ نہیں سکتا۔ اس لئے فرمایا کہ سیدھی راہ پر رہو ،اس کے قریب قریب رہو اور خوشخبری کے پہلو تلاش کرو۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سفر کے دوران دیکھا کہ ایک آدمی لیٹا ہوا ہے ،لوگ اس کے اردگرد جمع ہیں اور اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:اسے کیا ہوا ہے؟صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی :آدمی روزہ سے ہے (اور اب روزہ اس کے لئے برداشت سے باہر ہو رہا ہے )فرمایا:یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم سفر کے دوران روزہ رکھو ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رخصت کا فائدہ اٹھاؤ جو اس نے تمہیں مہیا کی ہے ۔یہی مسئلہ شرعی سفر کے دوران نماز کی قصر کا بھی ہے کہ آسانی کا پہلو اختیار کرتے ہوئے چار رکعت والی فرض نماز کی رکعات میں قصر ہی کرنا چاہئے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں نماز کا آغاز کرتا ہوں ،ارادہ ہوتاہے کہ لمبی تلاوت کروں۔ اسی دوران اگر کسی بچے کے رونے کی آواز کو سن لوں تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں تاکہ بچے کی ماں پریشان نہ ہو ۔اس حدیث کو بھی امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل فرمایا ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ میری امت مشکل میں پڑ جائے گی تو میں اُسے حکم دیتا کہ وہ ہر نماز کے ساتھ مسواک کا استعمال کرے۔

سامعین محترم ! آپ نے اندازہ فرمایا کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت پر کس قدر شفقت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس
کے لئے کتنے مہربان ہیں ۔علامہ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے لئے بہت ہی آسانیاں اور سہولتیں لے کر تشریف لائے ورنہ پہلی امتوں کے شرعی احکام میں خاصی مشکلات تھیں ۔
قرآن حکیم میں ہے کہ یہ نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کومعروف کا حکم دیتے ہیں ،برائیوں سے روکتے ہیں ،طیبات کو حلال ٹھہراتے ہیں ،ناپاک چیزوں پر حرام ہونے کا حکم لگاتے ہیں ۔اور لوگوں کے کندھوں سے وہ بوجھ اور طوق اتارتے ہیں جو انہوں نے اپنے اوپر لاد رکھے ہیں(الاعراف:151)۔ گویا شریعت اسلامی بھی آسان اور شریعت کو لانے والے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آسانی اور سہولت کا پر چار کرنے والے ہیں ۔
البتہ یہ ضرور ذہن میں رہنا چاہئے کہ سہولت وآسانی کے جو معیار شریعت اور صاحب شرعیت نے خود مقرر کئے ہیں ،ان کے اندر مزید سہولتوں کو تلاش کرنا، بدعات ورسومات کے دروازے میں داخل ہونے کے مترادف ہے اور قطعاً ناپسندیدہ ہے ۔ذرا یہ حدیث مبارک سنئے:فرمایا: اللہ نے جو احکام فرض قرار دئیے ہیں ،انہیں ضائع نہ کروجو حدود متعین کر دی ہیں ،ان سے تجاوز نہ کرو۔
جو اشیاء اس نے حرام قرار دے دی ہیں ان کے قریب نہ جاؤ اور کچھ چیزوں سے اُس نے خود خاموشی اختیار فرمائی ہے ،ان کی کریدمت کرو۔
حضرات گرامی، ام الموٴمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے زیر مطالعہ حدیث میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات اقدس میں اپنے ذاتی معاملہ میں کسی سے بھی کوئی انتقام اور بدلہ نہیں لیا ۔
ہمیشہ عفوودرگزر سے کام لیا۔ سیرة طیبہ کا یہ پہلو اس قدر واضح اور روشن ہے کہ اس پر دلائل دینے کی بھی ضرورت نہیں کہ یہ اظہر من الشمس ہے ۔رحمت ،شفقت ،عفوودر گزر اور مہربانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرة طیبہ کا درخشاں باب ہے ۔سر زمین عرب کا ذرہ ذر ہ اس کی گواہی دے گا کہ عفوودرگزر اور شفقت و مہربانی کا اس سے بڑا مظاہرہ چشم فلک نے نہ دیکھا ہو گا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی نے کر دکھایا۔فتح مکہ اور عفو عام کا نظارہ تاریخ اسلام کا نہایت ہی درخشندہ باب ہے ۔لہٰذا اُم الموٴمنین رضی اللہ عنہ کی گواہی اور شہادت صد فیصد صحیح اور قابل استناد ہے کہ اللہ کا حکم ٹوٹا تو ضرور کار روائی کی ،ذات کا معاملہ ہوا تو معاف فرمایا۔(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

Browse More Islamic Articles In Urdu