Open Menu

Asbaab Zawaal Ummat - Article No. 2709

Asbaab Zawaal Ummat

اسباب زوال امت - تحریر نمبر 2709

گزشتہ چند برسو ں سے یہ سننے میں آرہا ہے کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔ دنیا بھر کے دانشور ، مفکر اور مبصر اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اس موضوع پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ امت مسلمہ

پیر 26 نومبر 2018

سیدفہیم کاظمی الچشتی

گزشتہ چند برسو ںسے یہ سننے میں آرہا ہے کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔ دنیا بھر کے دانشور ، مفکر اور مبصر اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اس موضوع پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ امت مسلمہ سینکڑوں برسوں سے موجودہ دور تک تعلیمات نبوی سے انحراف کی روش پر ہی قائم ہے۔ کیونکہ حقائق اس کی گواہی دے رہے ہیں۔

سلطنت برطانیہ:نئے دور کا آغاز آج سے تقریباً ستر سال قبل جنگ عظیم دوم کے دوران بھی ہوا تھا ۔ جب سلطنت برطانیہ کے حکمرانوں نے یہ احساس لیا تھا کہ ان کے دور عروج کاخاتمہ قریب ہے۔ ایک وقت تھا جب اسی تاج برطانیہ کی سلطنت کی حدود اس قدر وسیع ہو گئی تھیں کہ اس کی حدوں میں کہیں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔

(جاری ہے)

اب اسی تاج برطانیہ کے عروج کا سورج غروب ہو رہا تھا ۔

اس دوران انگریزوں نے زبردست حکمت عملی اختیار کی گو کہ ہمارے ہاس اکثر اسے سازش کہا جاتا ہے ، لیکن ہم اسے حکمت عملی ہی لکھیں گے ۔ اس لیے کہ دنیا میں قوموںکے عروج و زوال کا قانون اسے حکمت عملی ہی قرار دیتا ہے۔ تا ج برطانیہ نے ابھرتی ہوئی طاقت امریکہ کے ساتھ مزاحمتی رویہ اختیا رکرنے کے بجائے امریکہ کے ساتھ شامل ہو کر دنیا میں مفادات کے حصول ، وسائل پر کنٹرول اور اثرو رسوخ کی از سر نو تقسیم کی۔

مفادات و وسائل کاحصول:

ابتداء میں ہم نے دنیا کے نئے دورمیں داخل ہونے کی بات کی تھی ۔ یہ نیا دور بھی دراصل مفادات کے حصول ، وسائل پر کنٹرول اور اثرو رسوخ کی از سر نو تقسیم ہی ہے۔ کہیں تقسیم کا یہ عمل مکمل ہوچکا ہے، کہیں پر متوقع ہے اور کہیں یہ عمل تاحال جاری ہے۔ تقسیم کے اس عمل کو کچھ لوگ طنزیہ ’’بند ربانٹ‘‘ کا عنوان بھی دے رہے ہیں، لیکن غیر جانب دار ہو کر دیکھا جائے تو یہ عمل قوموں کے عرو ج وزوال کے قانون کا ایک حصہ محسوس ہوتاہے ۔

جو قومیں اس قانون کے مطابق خودکو ڈھال لیتی ہیں، وسائل پر ان کا اختیار قائم ہو جاتا ہے اورجو قومیں اس قانون پر توجہ نہیں دیتیں یا اس قانو ن کی خلاف ورزی کرتی ہیں، محکوم بنا دی جاتی ہیں۔ ایسی قومیں اپنی بنیادی ضروریات زندگی تک کے لیے دوسری قوموں کی محتاج ہو جاتی ہیں ۔ یہ محتاجی بعض اوقات ان کے ذہنوں کو اس قدر جمود زدہ کردیتی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرنے کے بجائے ’’بندر بانٹ‘‘ جیسے ’’کوسنے ‘‘ ایجاد کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔

کائناتی نظام اور نور محمدیؐ:

اس سے قبل کہ ہم امت مسلمہ کے زوال کے اسباب پر گفتگو کا آغاز کریں ، ہمیں یہ حقیقت اپنے ذہنوں میں راسخ کرنا ہوگی کہ تمام کہکشانی نظاموں ، ارض و سما وات، جمادات، سیارہ گان ، نظام شمسی اور ان گنت معلوم و غیر معلوم مرئی و غیرمرئی موجودات کو توانائی نورمحمدی ؐسے مل رہی ہے۔ حضورؐ نے اس طرف اپنی اس حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا ہے:

’’ اللہ عطا کرنے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں‘‘کائنات اور تمام موجودات کا وجود اس لیے قائم ہے کہ نور محمدی نے اس عظیم ولامتناہی کائنات کو اپنے احاطہ میں لے رکھا ہے اور اس کی تشکیل کے کتنے مراحل ہیں۔

نور سے خفیف روشنی، لطیف روشنی اور مادہ کیسے تخلیق ہو رہا ہے؟ یہ ’’ نورمحمدیؐ ‘‘ کا ایک علیحدہ و طویل باب ہے۔ مگر ہم یہاں ایک دوسرے پہلو کو سامنے رکھ کر اپنی بات کو آگے بڑھائیں گے ۔ نور محمدی ؐ سے نکلنے والی شعاعیں بلاامتیاز ہر ایک کو سیراب کر رہی ہیں۔ رسول اللہ ؐ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ وسائل کوکائنات میں تقسیم کر رہے ہیں۔
سورج کاطلوع ہو کرروشنی اورحرارت پہنچانا ، چاند کی کرنوں سے پھلوں میں مٹھاس کا پیدا ہونا ، برسات ، زمین کی زرخیزی، سمند رکی تہہ میں پوشیدہ خزانے ، سنگلاخ چٹانوں میں چھپی معدنیات، صحرائوں میں سطح زمین کے نیچے سیال سونا یعنی پٹرولیم کے ابلتے چشمے ، غرض دنیا کے سارے وسائل نوع انسانی کی بھلائی کے لیے موجود ہیں۔ لیکن یہ وسائل ان کے ہی کام آتے ہیں، جو ان وسائل کے فوائد حاصل کرنے کے لیے عقل و شعور استعمال کرتے ہوئے جدوجہد کرتے ہیں۔
آج سمندرمسلمانوں کے پاس بھی ہے اور ترقی یافتہ اقوام کے پاس بھی۔ ترقی یافتہ اقوام نے اس کی تہہ کھنگال ڈالی اور سمندرمیں موجود غذائی اشیاء سیپیاں، موتی اورنجانے کن کن قیمتی چیزوں کے ساتھ پٹرول تک نکال رہے ہیں۔ جبکہ مسلمانوںنے صرف مچھلی پر ہی اکتفا کر رکھا ہے ، جس کی پیداوار بھی ترقی یافتہ ممالک سے کہیں کم ہے۔ زمین کی زرخیزی اللہ نے غیر مسلموں کو عطا کی تو مسلمانو ںکو بھی اس سے محروم نہیں رکھا بلکہ اگر حساب کتاب لگایا جائے تو ممکن ہے یہ بات بھی سامنے آجائے کہ مسلمانوں کو عطا ہونے والی زمین دیگر اقوام سے زیادہ زر خیز ہے۔
چلیں اگر ایسانہ بھی ہو تو یہ دیکھنے کیضرورت ہے کہ عطا ہونے والی زرخیز زمین سے مسلمانوں نے کس قدر فائدہ اٹھایا ہے۔ مسلم ممالک میں صرف5کروڑ ہیکٹر رقبہ پر کاشت ہو رہی ہے اور تقریباً 20کروڑ ہیکٹر رقبہ کی زمین بے آباد اور ویران ہے۔

بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکو ںکو چھوڑیں رقبہ کے اعتبار سے ایک بہت چھوٹے ملک اسرائیل کی مثال لیجیے۔ اس ملک میں پانی کی شدید کمی ہے۔

پانی کی کمی کاحل اسرائیل کے سائنسدانوں نے یہ نکالا کہ اپنے کھیتوں کے درمیان ایک سرے سے دوسرے سرے تک بلند وبالا پولز Polesنصب کیے اور ان میں باریک جال باندھ دئیے گئے۔ کہر آلود ہوا جب اس سے گزرتی ہے تو ننھے ننھے شبنمی قطرے جال کے تاروںسے ٹکرا کر نیچے گرنے لگتے ہیں۔ قطرہ درقطرہ پانی پختہ نالیوں میں جمع ہوتا ہے اورآہستہ آہستہ جب اس کی مقدار بڑھتی ہے تو بہہ کرکھیتوں کو سیراب کرتاہے۔
اسرائیل اس سسٹم کے ذریعے اتنی وافر مقدمیں سبزیاں پیدا کر رہا ہے جو اس کی ضروریات سے زیادہ ہیں۔ لہذا یہ سبزیاں پڑوس کے بعض مسلمان ممالک کو برآمد کردی جاتی ہیں۔

یہ تو خیر ایک مثال تھی۔ اگر یہاں ایسی مثالیں بیان کرنا شروع کر دیں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں گے اورمثالیں ختم نہیں ہوں گی۔ لیکن یہاں مسلمانوںکی پسماندگی ، بے چارگی، قدرتی وسائل کی ناقدری اورجہالت کا محض نوحہ نہیں پڑھنا چاہیے۔

ہماری کوشش ہوگی کہ امت مسلمہ کے زوال کے اسباب پر گفتگو کی جائے اور حقائق تلاش کیے جائیں۔ گوکہ اس موضوع پربار ہا گفتگو ہو چکی ہے، لیکن چند نکات کا ہم خصوصی طور پر اعادہ بھی کرنا چاہیں گے۔

مسلم اقوام کے زوال کا ایک اہم سبب روشنی کاخاتمہ، علوم و فنون کی اشاعت و ترویج میںاپنی کوتاہیوں اورغلطیوں سے چشم پوشی بھی ہے۔ کسی بھی تہذیب میں اصل روح اس کی فکری سرگرمیاں ہوتی ہیں اور جس جگہ فکری سرگرمیاں ختم ہو جائیں یا ماند پڑ جائیں تو قوم کا خاتمہ ہو جاتا ہے اورمحض ایک ہجوم باقی رہ جاتا ہے۔

بلکہ بحیثیت مجموعی ہماری طبیعت میں وہ خود مختاری بھی نہیں ہے کہ زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور اپنے تجربے اور فکر سے سمجھیں۔ ہمارے معاشروں میں تحقیق کرنے والے ذہن کیسے پیدا ہوں گے جب جائز وناجائز کا خوف لوگوںکے خون میں رچ بس کر ان کے جسموں میں دوڑتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر حسا س موضوعات سوا ل بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم کنی کترا کر کسی نہ کسی طرح نکل جاتے ہیں۔

بجائے اپنے راستے سے پتھر ہٹانے کے، پتھر کو دیکھ کر اپناراستہ ہی بدل لیتے ہیں۔

ہمیں تو یہ زعم ہی سراٹھانے نہیں دیتا کہ کبھی ہم پوری دنیا پرچھائے ہوئے تھے۔ لیکن کیا ہم وہی مسلمان ہیں جنہوںنے اپنی ذہنی افق سے دنیائے علم و ہنر کو زیر نگیں کرلیا تھا؟ او رآج ہم کیوں اپنی سوچ اور فکرکو ترقی دینے سے گریزاں ہیں؟؟

ایک دانشمند کا مقولہ ہے کہ ’’مہذب ہونے کا سب سے بڑا پیمانہ یہ ہے کہ کوئی معاشرہ کس حد تک اختلافی برداشت اور جذب کرتا ہے ، جبکہ معاشرو ںکی واضح پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اختلاف برداشت نہیں کر سکتے۔

‘‘ آج ہمارے معاشرے میں کم و بیش ایسی ہی حساس صورتحال برقرار ہے اور یہ صورتحال ہمارے لیے نئی بھی نہیںہے۔ ہم ایسی صورتحال کو بغداد، غرناطہ، دہلی، قسطنطیہ ، ڈھاکہ ، کابل اور آج کل پھر دوبارہ بغداد میں پیدا ہوتے دیکھ چکے ہیں، لیکن ہمارے اکثر علماء ، دانشور، مفکر، ارباب اختیار اس کا کوئی حتمی اور قابل عمل حل دریافت نہیں کر سکے۔
آج بھی ہمارے معاشرے میں سقوط بغداد سے لے کر تمام اسقاط سے قبل جاری رہنے والے فکری انتشار کی طرز کا انتشار برپا ہے۔ وہی معمولی معمولی باتوں پر ہنگامہ آرائیاں ، فتنہ پردازیاں عدم برداشت کا رویہ کفر و زندیق کے فتوئوںکی روز افزوں فروانی ، ایسے نزاع اکثر جان لیوا واقعات کی صورت میں بھی ظہور پذیر ہو تے ہیں۔

دیگرمسلم معاشرے گو کہ اس قسم کی نزاعی صورت حا ل سے دوچار نہیں ہیں اوربظاہر وہاں ا نتشار کی ایسی کوئی کیفیت بھی محسوس نہیں ہوتی لیکن یہ متمول مسلمان ممالک اللہ پاک کی عطا کردہ دولت کو صرف اپنی وقتی طور پر ہی صرف کررہے ہیں۔

موجودہ دو رکی سب سے بڑی دولت سیال سونا کے بڑے ذخائر مسلمان ملکوں کے پاس ہیں، لیکن تعمیری سوچ نہ ہونے کے سبب عالمی سرمائے میں مسلمانو ںکا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ دنیا کی سرفہرست تجارتی کمپنیوں اور کاروباری رہنمائوں میں کوئی مسلمان یا مسلم ملک کی کمپنی جگہ نہیں بنا سکی ہے ۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائم کی ایک رپورٹ میں سال 2002ء کے دوران دنیا کی 59بہترین کمپنیوں اوردنیا کے 50کاروباری رہنمائوں کی فہرست پیش کی ہے۔
اس فہرست میں کوئی مسلمان یا مسلم ملک کی کمپنی جگہ نہیں پا سکی ۔

علم و ہنر سے دوری:

ہم نے عرض کیا تھا کہ علم و ہنر سے دوری ہمارے زوال کا اہم سبب ہے۔ آج ہم علم و ہنر سے محرومی کی وجہ سے زوال سے دو چار ہیں اور کل جب قدرت نے ترقی کا تاج ہمارے سروں پر رکھا تھا تو بھی ہم علم و ہنر کے فروغ سے روگردانی کے مرتکب ہوئے تھے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں رکھ سکے تھے، جس کے بل بوتے پر ہم اپنے لیے دوبارہ ترقی کی عمارت تعمیرکر سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ آخری مرتبہ جب ہم گرے ہیں تو اب تک نہیں سنبھل سکے ۔ برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کرلیجیے ، تاریخ کے اوراق الٹتے پلٹتے اکبراعظم کے دور تک آجائیے۔ یہ سولہویں صدی عیسوی ہے ، ہندوستان کی مسلم تاریخ میں یہ دور ’’عہد زریں‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس عہد میں امراء کی خوشحالی کے چرچے تاریخ کے صفحات پر بکھرے ملیں گے۔
کیاغرباء کاکوئی وجود نہیں تھا کہ ان کی فلاح و بہبود کے کام کیے جاتے ؟ اس دور میں عالیشان مقبرے اورمحلات تعمیر ہوئے، کہیںکوئی ہسپتال کے قیام کاذکر کیوں نہیں ملتا؟ …… آپ بھی کھنگال لیجیے شاید آپ کومل جائے۔ ہمیں تو نہیں مل سکا۔ ہاں ایک علمی محفل کا تذکرہ ملتا ہے، جس کے انعقاد کے لیے فتح پور سیکری میں آڈیٹوریم قسم کی بلند و بالا عمارت تعمیر کی گئی تھی ، لیکن یہ ’’علمی محفل‘‘ کس درجے کی ہوتی تھی، اس کا اندازہ اس محفل میں شریک ہونے والے خوشامدی قصیدہ خوانوں اور مغنیوں کی فہرست دیکھ کر ہی ہو جانا چاہیے۔
اب ایسا بھی نہیں تھا کہ سلطنت مغلیہ کے مغرب سے کوئی روابط ہی نہ تھے کہ مغرب میں ہونے والی تبدیلیوں، ایجادات اور اکتشافات سے لوگ سراسر لا علم ہی رہے ہوں اور اس بنا ء پر اپنے ہاں ایجادات اور دریافتوں کا کوئی سلسلہ قائم نہ کرسکے ہوں، ایسا نہیں تھا۔ یورپ کے تجارتی قافلے بحری راستوں سے ہندوستان آچکے تھے اور سرطامس رو کی سفارت سے بہت پہلے کی بات ہے کہ جوجہانگیر کے زمانے میں آئی تھی ۔
مغربی گھنٹے ، گھنٹیاں ، نیم سائنسی قسم کی نت نئی مغربی مصنوعات کی نمائشیں ہندوستان کے بڑے شہروںمیںاکثر ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ’’عہد زریں‘‘ ہمارے سامنے کوئی ایسا سائنسدان بھی نہیں پیش کر سکا، جس کا تذکرہ ہم دوسرے یا تیسرے درجے کے سائنسدانوں کی فہرست میں ہی کر سکیں۔

جبکہ ادھر یورپ میں نشاۃ ثانیہ ہو رہی تھی ۔

مغرب کے ایک بحری جہاز راں کو لمبس نے اپنی اولوالعزمی اور ہسپانوی حکومت کی دور اندیشی کی بناء پر جس نے اس کے سفر کے لیے فناسنگ کی تھی ، امریکہ دریافت کر لیا تھا۔ امریکہ کی دریافت سے مغربی اقوام کی ترقی کے نئے امکانات کھلتے چلے گئے۔ سلطنت مغلیہ کے عہد شاہجہانی میں یورپ کے اندر نیوٹن پیدا ہوا جس نے صرف 22برس کی عمرمیں قوانین طبیعات پر غورو فکر کرتے ہوئے ایک تجربہ کرکے روشنی کو ترکیب دینے والے رنگ معلوم کیے۔
کشش ثقل اور سیاروں کے بیضوی دائروں پر شماریاتی مشقیں مکمل کیں۔ ’’ہندوستان جنت نشان‘‘ کی شان وشوکت کے مقابلے میں کہیں پیچھے کھڑا یورپ نت نئی ایجادات میں مصروف تھا اورمسلمان ہندوستان جنت نشان کے ہوں یا عرب و ایران کے یا تو عیاشیوں میں مصروف تھے یا پھر ایک دوسرے کے خلاف کفرکے فتوے ایجادکرنے میں۔ اس کے سوا انہیں شاید دوسرا کوئی کام نہ تھا۔
اگلی دو صدیوں میں مغرب نے سائنسی فکریات، انکشافات اور ایجادات کے حوالے سے زبردست انقلاب برپا کر دیا تھا اورمسلمان ہر سو زوال اور غلامی سے دو چار ہو رہے تھے۔ برصغیر میںمغلیہ سلطنت کے عروج کے عین متوازی سلطنت عثمانیہ کا دور بھی ’’عہد زریں‘‘ ہی کہلاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے خلافت عثمانیہ بھی کہتے ہیں کہ عثمانی خلیفہ کا نام اسی طرح عالم اسلام کے اندر خطبوں میں لیا جاتا تھا، لیکن ہمارے خیال میں یہ خلافت تو نہ تھی بلکہ خلافت تو حضرت علی ؑ کی شہادت کے بعد بادشاہت میں بدل گئی تھی، اس لیے ہم اسے سلطنت ہی کہیں گے۔
یہ سلطنت بھی پانچ سو برس پورے جاہ وجلال کے ساتھ قائم رہی۔ مورخین ان دونوں ’’ عہد زریں‘‘ کے بڑے بڑے کارنامے سناتے ہیں، لیکن کسی ایک ایسے سائنسدان کا ذکر نہیں کر پاتے ، جسے ہم فحریہ آپ کے سامنے پیش کرسکیں۔ مغلیہ سلطنت کا دور تو اس حوالے سے بالکل ہی کورا ہے ۔

عثمانیہ سلطنت کے دور میں حاجی خلیفہ جلی کا نام ملتا ہے۔

ان سے ایک کتاب بھی منسوب ہے ، جس میں آغاز کائنات اور ارتقاء قدیم سے لے کر اپنے وقت تک کے نظریات جمع کیے گئے تھے۔ مگر وہ نا پید ہو گئی۔ ایک عربی زبان کی انسائکلو پیڈیا ’’کشف الفنون‘‘ بھی ان ہی کے نام سے ملتی ہے ، لیکن غیر جانبدار ہو کر دیکھا جائے تو یہ خصوصیات بھی انہیں ’’ سائنسدان ‘‘ کے زمرے میں شامل نہیں کرسکتی۔

آخر یہ کیا ہے؟؟؟ ……… یہ ایسے عظیم الشان ادوار تھے، جب مسلمان ان دونوں سلطنتوںمیں مطلق العنان حکمران تھے۔ برصغیر میں بلوچستان سے لے کر راس کماری تک اورسلطنت عثمانیہ میں ترکی کے علاوہ جنوبی یورپ ،شمالی افریقہ، مصر ، عرب اوروسطی ایشیا کے بہت سے خطے یا تو براہ راست زیر نگیں تھے یا زیر اثر ۔اپنے وقت کی وہ سپر پاور سلطنتیں! جن پر آج کے مسلمان فخر کرتے نہیں تھکتے، بین الاقوامی تو چھوڑیں قومی شہر ت کاحامل کوئی سائنسدان پیدا نہیں کر سکیں۔

اسے قدرت کی مصلحت کہہ کر نظر انداز نہ کیجیے گا! اس معاملہ کو تقدیر کے سپردنہ کردیں۔ اس لیے کہ کسی تخلیقی مزاج کے بندے یا محقق یعنی سائنسدان کے ابھرنے کے لیے ایک بڑا اورمستحکم ماحول درکار ہوتاہے۔ کم از کم ڈھائی سو سے لے کر سوا سو کی تعداد میں ماہرین پر مشتمل یہ ماحول تشکیل پاتا ہے۔ آپ یہ توکہہ سکتے ہیں کہ بنجر زمین سے بھی اللہ کی مہربانی ہو توکوئی سائنسدان پیدا ہوسکتاہے، لیکن اسے ابھرنے کے لیے پھر بھی ایک ’’مستحکم ماحول‘‘ درکارہوگا۔
آئیے اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں ۔ نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام جھنگ جیسے چھوٹے شہرمیں پیدا ہوئے اورمیٹرک کے امتحان میں غیر منقسم پنجاب کے اندر فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن بھی حاصل کرلی، لیکن کیا انہیں سائنسدان بنانے کے لیے جھنگ میں وہ مستحکم ماحول میسر آسکتا تھا جس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے ……ہرگز نہیں …… ڈاکٹرعبدالسلام کے جوہر بھی ا نگلینڈ یعنی مغر ب کے ماحول میں ہی کھل سکے۔
دیگر نمایاں پاکستانی سائنسدانوں میں سرشاہ سلیمان،ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر سر ضیاء الدین اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں مغربی تعلیم وتربیت اورماحول کے گہرے اثر سے کون ہے، جو انکار کر سکتاہے؟

اس مثال کو بیان کرنے سے ہماراموقف امید ہے آپ پر واضح ہوگیا ہوگا ۔ ہم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ ’’زریں ادوار‘‘ کے مسلمان معاشروں میں غورو فکراورعلوم و فنون کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جو کہ ملنی چاہیے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا ’’مستحکم علمی ماحول‘‘ ہی تیارنہ ہو سکا جو نابغہ روزگار شخصیات کو منظر عام پر لاتا اورقوم ان کی صلاحیتوں اور کارناموں سے مستفیض ہوتی۔

Browse More Islamic Articles In Urdu