Open Menu

Azmaish Main Emaan Waloon Ka Rawaiya - Article No. 3374

Azmaish Main Emaan Waloon Ka Rawaiya

آزمائش میں ایمان والوں کا رویہ - تحریر نمبر 3374

موٴمن کی مثال ایسی ہے جیسے کھیت کا سر سبز وشاداب اور نرم ونازک پودا ہو۔ ہوا آئی تو جھک گیا اور جب ہوا تھم گئی تو سیدھا ہو گیا۔

جمعرات 16 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: موٴمن کی مثال ایسی ہے جیسے کھیت کا سر سبز وشاداب اور نرم ونازک پودا ہو۔ ہوا آئی تو جھک گیا اور جب ہوا تھم گئی تو سیدھا ہو گیا۔ ایسے ہی موٴمن ہے کہ آزمائش آئی تو جھک گیا۔ اور کافر یا فاجر کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے جو سخت ہوتاہے اور سیدھا رہتاہے۔
لیکن جب اللہ چاہتا ہے تو اُسے جڑ ہی سے اکھاڑ پھینکتاہے۔ (بخاری)
زیر مطالعہ حدیث مبارک کورئیس المحدثین امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل فرمایا ہے ۔ اپنے ارشاد گرامی میں امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موٴمن اور کافر کے دو مختلف رویوں اور ان کے ممکنہ نتائج سے آگاہ فرمایا ہے۔

(جاری ہے)

انسانی زندگی سے متعلق اس حقیقت کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ مستقل طور پر ایک ڈگر پر نہیں چلتی۔

نشیب وفراز، صحت وعلالت ،خوشحالی وتنگدستی اور انعام وآزمائش اس کا لازمی جزو ہیں۔ ان تمام صورتوں میں انسان کس طرح کا رویہ اختیار کرتاہے ۔یہ بڑی اہم بات ہے۔ اور اسی پر انسان کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے ۔مسرت وشادمانی کی فراوانی ہوتو بھی آزمائش ہے، پریشانیاں اور مشکلات کا سامنا ہو تو بھی آزمائش ہے۔ آپے سے باہر نہ ہونا اور اُمید کا دامن نہ چھوڑنا ایمان کامل کی علامت ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صاحب ایمان کو کھیتی کے ایک نرم ونازک اور سر سبز وشاداب پودے سے تشبیہ دی ہے ۔
جو اپنی نزاکت اور کمزوری کے باوجود ہواؤں کا مقابلہ کرتاہے۔ اور وہ اس طرح کہ اس کے دباؤ کو قبول کرتاہے جیسے ہوا اس کو جھکانا چاہتی ہے وہ جھک جاتاہے ۔مگر جونہی ہوا کا دباؤ کم ہوتاہے اپنی جگہ پر سیدھا کھڑا ہو جاتاہے۔
وہ جھکتا ہے مگر اپنی نرمی کی وجہ سے ٹوٹتا نہیں اس طرح وہ اپنے وجود کو بر قرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتاہے۔ اور آگے چل کر خلق خدا کی نفع رسانی کا باعث بن جاتاہے۔ یہی مثال ایک مرد موٴمن کی بھی ہے کہ وہ اللہ پاک کی طرف سے آئی آزمائش کو، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی ،سخت ہوا کی طرح سمجھتاہے ۔شکوئہ وشکایت کے الفاظ زبان پر لانے کی بجائے، اُسے اپنی اصلاح باطن کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
توبہ واستغفار اور معافی تلافی سے اس کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کرتاہے۔ پھر جب اُسے اللہ پاک کی طرف سے عافیت مل جاتی ہے تو وہ اس کی اطاعت اور شکر کے لئے سیدھا کھڑا ہو جاتاہے ۔واویلا کرنے اور بر خود ناجائز تو جیہات وتاویلات سے ابتلاء وآزمائش کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا،تفویض اور مکمل طور پر اپنے آپ کو بے نیاز ذات کبریا کے سپرد کردینے ہی میں اس کا ازالہ ممکن ہے ۔

کھیت کے ایک نرم ونازک پودے اور ہواؤں کے چلنے میں اس کا رویہ انسان کے لئے بڑا سبق آموز ہے ۔کیونکہ باد مخالف کی تندی اونچی اڑان بھرنے کا ذریعہ بھی تو بنتی ہے ۔حضرت لقمان نے اپنے فرزند ارجمند کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:بیٹے یاد رکھو جس طرح آگ میں تپانے سے سونے کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم کیا جا تاہے اس طرح مرد موٴمن کو ابتلاء میں ڈال کر جانچا اور پر کھا جاتاہے (یہ بات امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تصنیف احیاء العلوم میں بیان کی ہے)سو موٴمن اپنے لچکدار رویے اور موٴمنانہ فراست سے آزمائشوں سے نبردآزما ہوتاہے اور اللہ پاک اُسے کامیابی سے ہمکنار کر دیتاہے۔

محترم سامعین! اس کے مقابلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کافرو فاجر کی بھی تمثیل بیان فرمائی ہے کہ بوقت آزمائش اس کا رویہ صنوبر کے درخت کی طرح ہو تاہے۔ جس کے تنے میں کوئی لچک نہیں ۔بالکل سیدھا ہوتاہے ۔ہوا چلے تو اس میں فروتنی یا جھکنے کی عادت ہی نہیں ۔یہ تکبر اور ہٹ دھرمی کی علامت ہے اور اس کا انجام ہمیشہ سر کے بل گرنا ہوتا ہے ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک وقت آتاہے کہ اللہ رب العزت اُسے جڑ سے اکھاڑ پھینکتاہے ۔جس سے اس کا وجود ہی نا پید ہوجاتاہے ۔آزمائش کے دوران ایسا منفی طرز عمل نہایت مہلک اور قابل مذمت ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ آزمائش آتی ہے اور ٹل بھی جاتی ہے ورنہ یہ عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور انسان اس کے سامنے بند باندھنے سے قاصر ہوتاہے ۔
لہٰذا دعاء یہ کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آزمائش کی ہر صورت سے عافیت عطا فرمائے۔ اور اگر کسی آزمائش سے دو چار ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے سامنے یوں التجاء کریں کہ یعنی اے اللہ اگر آپ خوشحالی یا تنگدستی کی صورت میں مجھے آزمانا چاہیں تو مجھے حق اور شریعت اسلام سے وابستہ رکھیں۔(آمین)
سامعین با تمکین!معلوم یہ ہوا کہ دنیائے رنگ دبُو میں آزمائش سے دوچار دونوں ہوتے ہیں موٴمن بھی اور کافر بھی ۔
موٴمن راضی برضا ہوتاہے جبکہ فاجر اور کافر واویلا کرتاہے اور اس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا․․․․․․دین اسلام کی تعلیم وتلقین یہ ہے کہ صاحب ایمان کو کبھی بھی آزمائش کی تمنا نہیں کرنا چاہئے۔ اگر آزمائش آجائے تو ہر حال میں اللہ ہی کی ذات بابرکت پر بھروسہ کرنا ہے ۔نا اُمیدی اور مایوسی کا شکار نہیں ہونا۔تواضع وانکسار،فروتنی اور عاجزی کو موٴثر ترین ہتھیار سمجھنا ہے کیونکہ تکبر، خود پسندی اور حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی انسانی صلاحیتوں کو توانا کرنے کی بجائے کمزور کر دیتی ہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو حالت اضطرار اور پریشانیوں کی کیفیت میں یہ دعا سکھائی ہے۔ اے اللہ میں تیری رحمت کا اُمید وار ہوں ۔آنکھ کی جھپک جتنی دیر بھی مجھے میری اپنی ذات کے سپرد نہ کرنا، میرے تمام احوال کو درست فرما دے۔ تیرے سوا اور کوئی الہٰ نہیں ہے ۔بڑی جامع دعاء ہے ۔اگر اخلاص سے مانگی جائے تو قلبی ،روحانی اور باطنی طور پر انسان کو بے بہا توانائی بخشتی ہے۔ دعاہے کہ رب ذوالجلال ہم سب کی پریشانیوں کو دور فرمائے اور آزمائش کی صور ت میں ہماری دستگیری فرمائے ۔آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu