Open Menu

Bait Ul Muqaddas Ki Nishaniyaan Or Raaste K Waqiyat - Article No. 3182

Bait Ul Muqaddas Ki Nishaniyaan Or Raaste K Waqiyat

بیت المقدس کی نشانیاں اور راستے کے واقعات - تحریر نمبر 3182

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج مبارک کی خبر جب مکہ مکرمہ میں چاروں طرف پھیل گئی

منگل 18 جون 2019

محمد الیاس عادل
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج مبارک کی خبر جب مکہ مکرمہ میں چاروں طرف پھیل گئی تو منکرین کی ایک جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا،اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) !ہمیں آسمانوں کے حالات کی کوئی خبر نہیں ان واقعات کو ہم چھوڑتے ہیں کہ آسمان پر کیا ہوا لیکن ہم میں سے ایک جماعت نے بیت المقدس کو دیکھا ہے ہمیں یہ بھی علم ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی زندگی میں کبھی بیت المقدس میں نہیں گئے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کی بات سچ ہے تو پھر اس کی نشانیاں بتائیں۔

اس لمحے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قریش نے معراج کے بارے میں مجھے جھوٹا قرار دیا اور مجھ سے میرے شب معراج میں جانے کا حال دریافت کیا۔

(جاری ہے)

سوال کرنے والوں میں اکثر شام کے تاجر تھے انہوں نے بیت المقدس کو بار بار دیکھا ہوا تھا۔اُس وقت مجھ پر ملال طاری ہوا کیونکہ تیز رفتاری کی وجہ سے اطراف وجوانب کی تفریح اور بیت المقدس کی نشانیاں دیکھنے کی فرصت نہیں تھی۔

میں ان لوگوں کے سوالات کے جواب دینے کی غرض سے مقام حجر(حطیم)میں کھڑا ہوا اُنہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی چیزیں اور نشانیاں دریافت کرنا شروع کیں۔
اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو بلند کیا اور میری نگاہوں کے سامنے کردیا مجھ سے جو کچھ وہ پوچھتے ہے میں اُن کو جواب دیتا رہا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت المقدس کی تمام نشانیاں ان کو بتادیں تو وہ کہنے لگے مسجد کی نشانیاں تو ٹھیک ہیں اب آپ ہمارے قافلے اور قبائل جو اس راہ میں ہیں ان کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بتائیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تین قافلے دیکھے۔فلاں قبیلے کے قافلے کے پاس سے گزر اجوفلاں وادی میں تھا تو اس قافلے کے اونٹوں کو میری سواری کے اس جانور کے احساس نے بدکادیا اور ان کا ایک اونٹ بھاگ گیا تو میں نے اس اونٹ کی جانب ان کی رہنمائی کی اُس وقت میں شام کی طرف جارہا تھا پھر میں واپس آیا۔یہاں تک کہ جب مقام ضجنان میں فلاں قبیلے کے پاس سے گزراتو میں نے ان لوگوں کو سوتا ہوا پایا ان کا ایک برتن تھا جس میں پانی تھا انہوں نے اس پر کوئی چیز رکھ کر ڈھانپ دیا ہوا تھا میں نے اس کا ڈھکنا کھولا اور جو چیز اس میں تھی وہ پی لی پھر جیسا تھا اس پر ویسا ہی اسے ڈھانپ دیا اس کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ ان کا قافلہ اس وقت مقام بیضاء کے کوہ تیغم سے اُتر چکا ہے ۔
اس کے آگے ایک بھورا سیاہی مائل اونٹ ہے جس پر دوتھیلے ہیں ان میں سے ایک تو سیاہ ہے اور دوسرا مختلف رنگوں کا ہے ان کے یہاں پہنچنے کا وقت طلوع آفتاب ہے۔
یہ سن کر لوگ فوراً اس پہاری کی طرف گئے انہیں اُمید تھی کہ یہ خبر ضرور جھوٹی ہوگی وہ طلوع آفتاب کا انتظار کرے لگے اُن کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے کہ سورج طلوع ہو جائے اور قافلہ نہ آئے اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ آجائے۔
اچانک اُن میں سے ایک نے چیخ کر کہا ،وہ دیکھو سورج طلوع ہو گیا۔ابھی اس کی آواز ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ ان میں سے دوسرا شخص فوراً پکار اٹھا،خدا کی قسم!اونٹوں کا قافلہ آگیا اور اس کے آگے بھورا سیاہی مائل اونٹ بھی ہے جس پر دوتھیلے لدے ہوئے ہیں ان میں سے ایک کی رنگت سیاہ اور دوسرے کی مختلف رنگت ہے۔جب قافلہ ان کے قریب پہنچا تو ان لوگوں نے قافلے والوں سے ان چند نشانیوں کی تحقیق کی انہوں نے قافلہ والوں سے اس برتن کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس میں پانی بھر کر رکھاتھا اور ڈھانپ بھی دیا تھا جب وہ اُٹھے تو انہوں نے اسے اسی طرح ڈھکا ہوا پایا تھا جس طرح انہوں نے اسے ڈھانپ کررکھا تھا لیکن اس میں پانی موجود نہ تھا۔

اس کے بعد قریش نے دوسرے لوگوں سے بھی جومکہ مکرمہ میں آچکے تھے کچھ نشانیاں تصدیق کے طورپر پوچھیں انہوں نے بھی کہا کہ بالکل سچ ہے بے شک ہمارے اونٹ اسی وادی میں جس کا کہ ذکر کیا گیا ہے بد کے تھے اور ہمارا ایک اونٹ بھاگ گیا تھا تو ہم نے ایک شخص کی آواز سنی جو ہمیں اس طرف بلا رہا تھا حتیٰ کہ ہم نے وہ اونٹ پکڑ لیا تھا ۔قریش نے جب ان تمام نشانیوں کی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں تھیں پوری تصدیق کرلی تو پھر بھی انکار پر ہی قائم رہے۔

ان نشانیوں کے حوالے سے ایک روایت میں آتا ہے کہ قافلہ ابھی دور ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ زمین کو لپیٹ دے تاکہ قافلہ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی پہنچ جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہو جائے۔اس بارے میں ایک دوسری روایت یہ ہے کہ وہ فرشتہ جو سورج پر موکل تھا اسے حکم ہوا کہ وہ سورج پر نگاہ رکھے تاکہ وہ جلد طلوع نہ ہو۔اس طرف فرشتہ سورج پر کنٹرول کیے ہوئے تھا اور دوسری طرف زمین کو لپیٹا جارہا تھا تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات جھوٹی نہ ہو جائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu