Open Menu

Bayazid Bastami - Article No. 3492

Bayazid Bastami

بایزید البسطامی - تحریر نمبر 3492

کہا جاتا ہے کہ انہیں ایک دینی مدرسے میں داخل کروایا گیا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مدرسے میں ایک روز ان کی نظر سے قرآن پاک کی درج ذیل مشہور و معروف آیت گزری کہ

بدھ 23 ستمبر 2020

مسعود مفتی
بسطام کے ایرانی صوفی بزرگ ابو یزید (بایزید) غالباً ہندوستانی وحدت وجود کے زیر اثر تھے انہوں نے ”فنا“ کا نظریہ متعارف کروایا اور اس کے بعد”بقا“ کا نظریہ بھی منظر عام پر آیا۔
شمالی مغربی ایران میں بسطام کے رہائشی،ابو یزید طیفور ابن عیسیٰ ابن شاہ روشن البسطامی ابراہیم ابن آدم (الہجری 775/160بعد از مسیح) کے پوتے تھے۔

بایزید البسطامی کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم معلوم ہے ماسوائے اس کے کہ وہ انتہائی ابتداء ہی سے اپنے فرائض کی تکمیل میں مصروف ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں ایک دینی مدرسے میں داخل کروایا گیا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مدرسے میں ایک روز ان کی نظر سے قرآن پاک کی درج ذیل مشہور و معروف آیت گزری کہ:۔

(جاری ہے)


”میرے شکر گزار بنو اور والدین کے شکر گزار بنو“
اس آیت کریمہ کا ان کی زندگی پر اہم اثر ہوا۔

وہ ایک دم اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی کہ:۔
”اے میری والدہ․․․․․یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے․․․․․میں
ایک وقت میں کیسے دونوں فرائض سر انجام دے سکتا ہوں اب
آپ یا تو خدا سے یہ درخواست کریں کہ وہ مجھے آپ کو عطا کر
دے تاکہ میں آپ کی خدمت سر انجام دے سکوں یا پھر مجھے
اجازت فراہم کریں کہ میں اپنے آپ کو خدا کی خدمت کیلئے
وقف کردوں تاکہ میں مکمل طور پر اس کے ساتھ رہ سکوں“
والدہ نے انتہائی شفقت کے ساتھ جواب دیا کہ!
”اے میرے بیٹے میں تمہیں خدا کی خدمت میں دیتی ہوں اور
تم پر میرے جو حقوق ہیں میں ان سے دست بردار ہوتی ہوں۔

تم خدا کے ہاں سے آئے ہو اور تمہارا تعلق خدا سے ہے“
لہٰذا جب انہیں والدہ کی جانب سے یہ اجازت میسر آچکی کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی خدمت کیلئے وقف کر سکتے ہیں۔شیخ نے بسطام کو خیرباد کہا اور اپنے آپ کو عبادت،توبہ،استغفار،ریاضت اور نفس کشی میں مصروف کر دیا اور اس وقت صوفیانہ زندگی کا آغاز کیا جبکہ آپ کی عمر محض دس برس تھی اور تیس برس تک وہ جگہ جگہ مارے مارے پھرتے رہے اور اس دوران انہوں نے کئی ایک صوفی بزرگوں کی خدمات بھی سر انجام دیں اور زہدو ریاضت میں مصروف رہے۔
وہ روحانی رہنما اور روحانی بزرگ امام جعفر صادق کے مرید تھے اور اس کے علاوہ ابو علی سندھی کے بھی پیروکار تھے۔ وہ ایک اور قابل ذکر روحانی بزرگ تھے اور کہا جاتا ہے کہ بایزید نے ان سے بھی روحانی علم حاصل کیا تھا۔ اس وقت البسطامی کی عمر 40 برس تھی جب وہ اپنے آبائی گھر واپس لوٹ آئے تھے اور اس کے بعد وہ عبادت اور ریاضت میں مصروف ہو گئے ۔اس کے علاوہ انہوں نے اپنے مریدوں کو درس دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا۔
ان کے اپنے دور کے صوفی بزرگوں کے ساتھ نزدیکی روابط استوار تھے ۔ان روحانی بزرگوں میں ابو موسیٰ الدیا بلی اور احمد بن خدرویا بھی شامل تھے جنہوں نے ان کے ساتھ خط و کتابت کی تھی۔ انہوں نے بسطامی میں 848بعد از مسیح میں وفات پائی تھی اور ان کے مزار پر اب بھی لاتعداد لوگ حاضری دیتے ہیں اور فیض پاتے ہیں۔
البسطامی کی زندگی اور سوچ انتہا پسندی سے عبارت تھی۔
وہ اس امر کا گہرا شعور اور ادراک رکھتے تھے کہ کس کی اجازت ہے اور کس کی اجازت نہیں ہے۔وہ اپنی والدہ کی بے حد خدمت کرتے تھے اور خدا اور اس کی مخلوق کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے تھے۔وہ اس قدر خوف خدا کا اظہار کرتے تھے کہ نماز ادا کرنے کے دوران ان کے قریب کھڑے لوگ ان کی سسکیوں کی آواز بخوبی سن سکتے تھے جو خوف خدا کی وجہ سے وہ بھرتے تھے۔
انہوں نے اپنے نفس کو مکمل طور پر نظر انداز کر رکھا تھا۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے نفس کو نظم و نسق کی بھٹی میں ڈال دیا تھا اور اس حد تک نفس کشی کی تھی کہ ان کا نفس دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہا تھا۔حالت وجد میں وہ غیر معمولی نوعیت کے حامل جملے ادا کرتے تھے!
”تعریف میرے لئے ہیں․․․․․میرا خدا کس قدر عظیم ہے“
”مجھے ایک بار دیکھنا خدا کو ہزار بار دیکھنے سے بہتر ہے“

Browse More Islamic Articles In Urdu