Open Menu

Dhool Nan Almisri - Article No. 3489

Dhool Nan Almisri

دھول نن المصری - تحریر نمبر 3489

دھول نن المصری نے اسلام میں معرفت کے آئیڈیا کو متعارف کروایا تھا

جمعہ 18 ستمبر 2020

مسعود مفتی
صوفیانہ مسلک کی تھیوری اور پریکٹس کی مکمل بنیاد تیسری صدی الہجری کے صوفیا کرام نے رکھی تھی۔دھول نن المصری نے اسلام میں معرفت کے آئیڈیا کو متعارف کروایا تھا۔ایک ایسا علم جو دانش ورانہ اور روایتی علم سے یکسر مختلف ہے۔انہوں نے معرفت کی تعریف کچھ یوں بیان کی کہ یہ ایک ایسا علم ہے جس کا تعلق درویش سے ہے۔
وہ لوگ جو اپنے دلوں میں خدا کے چہرے کا تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا خدا اپنے آپ کو ان پر ظاہر کرتا ہے اور اس انداز سے ظاہر کرتا ہے جس انداز میں وہ دنیا میں کسی اور پر ظاہر نہیں ہوتا۔دھول نن کے خیال کے مطابق جو خدا ایک وفا دار صوفی پر اپنی محبت نچھاور کرتا ہے وہی خدا اپنے سے محبت کرنے والے کو مصائب میں بھی گرفتار کرتا ہے۔خدا بیک وقت زندگی عطا کرنے والا بھی ہے اور موت عطا کرنے والا بھی ہے۔

(جاری ہے)


انہوں نے بالائی مصر میں اخمیر کے مقام پر تقریباً 180الہجری796/بعد از مسیح میں جنم لیا تھا۔دھول نن ابو ایل فادل بن ابراہیم المصری صوفیا کرام کے سر براہ تھے۔ایک عظیم استاد جن کے بہت سے پیرو کار ان کی زندگی میں بھی موجود تھے اور ان کی وفات کے بعد بھی موجود تھے۔انہوں نے ادویات کے میدان میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ جادو کے میدان میں بھی تعلیم حاصل کی۔
ان کے روحانی استاد قاہرہ کے سادن (Sadun) تھے۔انہوں نے مکہ شریف اور دمشق کا سفر طے کیا اور کئی ایک زاہدوں،عابدوں اور فقراء سے ملاقات کی اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس سفر کے دوران ہی انہوں نے زہد اور ریاضت میں دسترس حاصل کی۔ان کی صوفیانہ تعلیمات کی عکاسی دیگر لکھاریوں کی تحریروں سے ہوتی ہے۔ان لکھاریوں میں عطا اور المحاسبی بھی شامل ہیں ان میں بہت سی دعائیں اور اعلیٰ معیار کی حامل کچھ نظمیں بھی شامل ہیں۔
وہ اولین ہستی تھے جنہوں نے صوفی نظریے کی وضاحت پیش کی تھی اور صوفیانہ حالتوں (احوال) کے بارے میں باقاعدہ اور منظم تدریس عطا کی تھی اور صوفیانہ راستہ کے اسٹیشنوں (مقامت) کی نشاندہی کی تھی۔ان کے بقول روحانی ترقی کی راہ کی بڑی رکاوٹ انسان کی اپنی ”ذات“تھی۔وہ رنج و الم اور مصائب اور اخلاص کو حق کی تلاش کے لئے خوش آمدید کہتے تھے۔
وہ اسے زمین پر خدا کی تلوار کے نام سے پکارتے تھے جو ہر اس چیز کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے جو اس کے ساتھ چھوتی ہے۔تنہائی بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ جو تنہا ہوتا ہے وہ ماسوائے خدا کچھ نہیں دیکھتا اور وہ خدا کی خواہش کے عین مطابق روبہ عمل رہتا ہے۔
اسلام کے اولین صوفیا کرام محض نا پسندیدہ عناصر سے نجات حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
ان کے نزدیک طریقت (راستہ) ذاتی طہارت،پاکیزگی اور صفائی کے حصول کا طریقہ کار تھا اور اس طہارت کو حواس اور جسمانی نظم و نسق کی صفائی اور ستھرائی کو ممکن بناتے ہوئے حاصل کیا جا سکتا تھا۔آہستہ آہستہ انہوں نے نور اور تجلی کے مرحلے کی نشوونما سر انجام دی۔ المحاسی (781 تا 857 بعد از مسیح ) جن کو قدیم اسلامی صوفی ازم کا حقیقی استاد کہا جاتا ہے اور جنہوں نے اپنے پیروکاروں کے ہمراہ نا پسندیدہ عناصر سے نجات حاصل کرنے کی راہ کا علم بلند کیا وہ اولین ہستی تھے جنہوں نے یہ اعلان کیا کہ طہارت،پاکیزگی اور صفائی اس دنیا کے ساتھ وابستگی سے نہ صرف نجات دلاتی ہے بلکہ اس کا حامل نور اور تجلی کے مدارج بھی طے کر سکتا ہے جب صوفی ”فنا“ کے اس مرحلے پر پہنچ جاتا ہے اس کے اندر اپنے آپ کا ایک ذرہ بھی باقی نہیں رہتا وہ وحدت میں مدغم ہو جاتا ہے وہ اپنے آپ کے لئے مر جاتا ہے اور وہ کوئی قانون،کوئی مذہب نہیں جانتا تاہم اس سے بھی اعلیٰ درجہ موجود ہے وہ ”بقا“ کا درجہ ہے۔
وہ خدا کے ساتھ ایک ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر بلند کرتے ہوئے صوفی معرفت کا مقام حاصل کرتے ہیں۔پہلا مرحلہ پشیمانی اور ندامت کا ہے اس کے بعد دیگر مراحل آتے ہیں یعنی مصالحت،غربت،صبر،خدا پہ بھروسہ ہر ایک مرحلہ اگلے مرحلے کی تیاری میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
فرید الدین عطار اپنی تحریر تذکرہ اولیا میں بیان فرماتے ہیں کہ کس طرح دھول نن مصری نے ایک غیبی آواز سنی جو ان میں تبدیلی برپا کرنے کا باعث بن گئی۔
اس کا احوال درج ذیل میں بیان کیا جاتا ہے(آر اے نکلسن کا انگریزی میں بیان)
”انہیں (دھول نن مصری) کو ایک غیبی آواز سنائی دی ایک غیبی اشارہ موصول ہوا کہ انہیں فلاں فلاں جگہ پر فلاں فلاں زاہد / فقیر سے ملاقات کرنی چاہیے۔
انہیں نے دیکھا کہ اس شخص نے اپنے آپ کو درخت کے ایک شاخ کے ساتھ لٹکا رکھا تھا اور کہہ رہا تھا کہ۔
”اے جسم!خدا کی تابعداری کرنے میں میری معاونت سر انجام دو وگرنہ میں تمہیں اسی طرح لٹکائے رکھوں گا حتیٰ کہ تم بھوک سے مرجاؤ“
دھول نن نے رونا شروع کر دیا۔
اس زاہد / فقیر نے ان کی سسکی کی آواز سنی اور چلائے کہ!
”یہ کون ہے جو اس شخص کی حالت پر رحم کھا رہا ہے جس میں شرم کا مادہ کم ہے اور جس کے گناہ بہت زیادہ ہیں“
دھول نن اس کے قریب جا پہنچے اور انہیں سلام کیا اور دریافت کیا کہ وہ کیا کر رہے تھے۔انہوں نے جواب دیا کہ ان کا جسم خدا کی تابعداری کرنے میں ان کی معاونت سر انجام نہیں دے رہا تھا بلکہ بنی نوع انسانوں کے ساتھ میل جول اور راہ و رسم رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتا تھا۔

دھول نن نے کہا کہ۔
”میرا خیال تھا کہ اس نے کسی مسلمان کا خون بہایا تھا یا کسی اخلاقی گناہ کا ارتکاب کیا تھا“
اس فقیر نے جواب دیا کہ:
”کیا آپ نہیں جانتے کہ جب ایک مرتبہ آپ بنی نوع انسانوں کے ساتھ میل جول اور راہ رسم بڑھاتے ہیں تب آپ میں ہر قسم کی برائی جنم لیتی ہے“
اس فقیر نے مزید کہا کہ:
”اگر آپ ایک ایسا فقیر دیکھنا چاہتے ہیں جو فقر کی راہ میں مجھ سے بھی آگے ہے تب آپ اس پہاڑ پر چڑھ جائیں۔

دھول نن پہاڑ پر چڑھ گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان ایک حجرے میں بیٹھا ہے اور اس کا ایک پاؤں جسے اس نے کاٹ ڈالا تھا۔وہ حجرے کے باہر پڑا تھا اور اسے کیڑے کھا رہے تھے۔
دھول نن کے استفسار پر انہوں نے جواب دیا کہ:
”ایک روز میں اس حجرے میں بیٹھا تھا جب ایک عورت قریب سے گزری۔میرا دل اس کی جانب راغب ہوا اور میرے جسم نے مجھے مجبور کیا کہ اس کا پیچھا کروں۔
میں نے حجرے سے ایک قدم باہر نکالا کہ مجھے ایک آواز سنائی دی جو یہ کہہ ری تھی کہ :
”تیس برس تک خدا کی تابعداری کرنے کے بعد کیا اب تمہیں شیطان کی تابعداری کرتے ہوئے شرم نہیں آتی“
”میں نے اس پاؤں کو کاٹ ڈالا جسے میں نے حجرے سے باہر نکالا تھا اور میں اب یہاں پر اس انتظار میں مصروف ہوں کہ دیکھوں کہ میرے ساتھ کیسا وقوع پذیر ہوتا ہے۔
تم مجھ جیسے گناہ گار کے پاس کیا لینے آئے ہو اگر تم خدا کے بندے کو دیکھنے کے خواہاں ہو تب تم پہاڑ کی چوٹی پر چلے جاؤ“
یہ پہاڑ اس قدر بلند تھا کہ دھول نن اس کی چوٹی تک نہ پہنچ سکے،لیکن انہوں نے فقیر کے بارے میں استفار کیا اور انہیں بتایا گیا کہ وہ عرصہ دراز سے پہاڑ کی بلند ترین چوٹی پر ایک حجرے میں مقیم تھا۔ ایک روز ایک شخص کا اس کے ساتھ جھگڑا ہوا اور اس نے یہ اعلان کیا کہ ہمیں روزانہ جو رزق میسر آتا ہے وہ انسانی کوشش کی وساطت سے میسر آتا ہے اور اس کے بعد اس نے یہ عہد کیا کہ وہ اس ذرائع سے حاصل ہونے والا رزق کبھی نہیں کھائے گا اور اس کے بعد اس نے کچھ عرصہ کچھ کھائیے پیئے بغیر گزارا۔
خدا نے شہد کی مکھیوں کو روانہ کیا وہ اس کے اردگرد اڑتی ہیں اور اسے شہد عطا کرتی ہیں۔
دھول نن نے کہا کہ:
”میں نے جو کچھ دیکھا تھا اور جو کچھ سنا تھا اس نے میرے دل کو از حد متاثر کیا اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ خدا ان لوگوں کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے جو اس پر اعتماد کرتے ہیں اس کے بعد میں نے اپنی راہ لی میں نے ایک چھوٹا سا پرندہ دیکھا جو ایک درخت پر بیٹھا تھا۔
وہ زمین پر آن بیٹھا میں نے اپنے آپ سے کہا کہ:۔
”اب یہ بیچاری مخلوق کیسے اپنی خوراک اور پانی حاصل کرتی ہو گی؟“
”اس نے اپنی چونچ کے ساتھ زمین میں ایک سوراخ کیا اور دو برتن ظاہر ہوئے۔ایک برتن سونے کا تھا اور اس میں تل تھے اور دوسرا برتن چاندی کا تھا جس میں عرق گلاب تھا پرندے نے پیٹ بھر کر کھایا اور پیا اور واپس درخت پر جا بیٹھا اور دونوں برتن غائب ہو گئے ۔

یہ دیکھتے ہوئے دھول نن نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خدا پر بھروسہ رکھے گا۔خدا پر اعتماد کرے گا۔کچھ مزید فاصلہ طے کرنے کے بعد رات کی تاریکی چھا گئی۔وہ ایک تباہ شدہ عمارت میں داخل ہو گیا جہاں پر اسے سونے اور جوا ہرات سے بھرا ہوا ایک مرتبان دکھائی دیا جو ایک گتے کے ساتھ ڈھکا ہوا تھا جس پر خدا کا نام درج تھا۔اس کے دوستوں نے سونا اور جواہرات آپس میں تقسیم کر لئے لیکن دھول نے کہا کہ۔

”مجھے یہ گتہ دے دو میرے محبوب کا نام اس پر لکھا ہوا ہے۔“
اور وہ اسے دن بھر چومتا رہا اور اپنے اس کی فعل کی وجہ سے وہ اس مقام پر جا پہنچا کہ ایک رات اس نے خواب دیکھا اور ایک آواز سنی جو یہ کہہ رہی تھی کہ
”اے دھول نن دیگر لوگ سونے اور قیمتی جواہرات سے خوش ہوئے تھے جبکہ تم محض میرے نام سے خوش ہوئے تھے لہٰذا میں نے تمہارے لئے علم و دانش کے دروازے کھول دئیے ہیں۔

جلال الدین رومی نے اپنی مثنوی میں دھول نن مصری کے بارے میں ایک اور واقعہ پیش کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ:
مصری صوفی دھول نن نے ایک مرتبہ معجزہ دیکھا ابو نوم الاصفہانی (وفات 1038ء) درج ذیل میں اس واقعہ کا احاطہ کرتے ہیں یہ دھول نن کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
”ہم ایک مرتبہ بحری راستے سے جدہ کی جانب جا رہے تھے تقریباً بیس برس کی عمر کا حامل ایک نوجوان بھی ہمارا شریک سفر تھا۔
میں اس کے ساتھ بات کرنے کا آرزو مند تھا لیکن مجھے اس کے ساتھ بات کرنے کا موقع میسر نہ آرہا تھا ہم نے اسے ہمیشہ قرآن پاک پڑھتے ہوئے دیکھا یا روزے کی حالت میں دیکھا۔تب ایک روز جبکہ وہ نوجوان سویا ہوا تھا جہاز پر بدگمانی کی ایک لہر دوڑ گئی مسافر ایک دوسرے کا معائنہ سر انجام دے رہے تھے حتیٰ کہ وہ اس سوئے ہوئے نو جوان کے پاس جا پہنچنے جس شخص کا بٹوہ گم ہوا تھا اس نے کہا کہ :۔

”یہ نوجوان جو سویا ہوا ہے اس کے علاوہ کوئی بھی شخص میرے قریب تر نہ تھا۔“
میں نے جب یہ سنا تب میں اس نوجوان کے پاس گیا اور اس کو جگایا جوں ہی اس نوجوان نے وضو کیا اور چار رکعت نماز ادا کی اورکہا کہ :۔
”اے نوجوان آپ کیا چاہتے ہیں؟“
میں نے کہا!
”جہاز میں بد گمانی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے تمام تر لوگوں نے ایک دوسرے کی تلاشی لی ہے اور اب وہ تمہارے پاس پہنچنے والے ہیں۔
“تب اس نوجوان نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ بلند کیے اس کے بعد ہم نے دیکھا جیسے سمندر کی ہر ایک مچھلی سطح سمندر پر نمودار ہوئی ہے اور ہر ایک مچھلی کے منہ میں ایک قیمتی موتی ہے ۔اس نوجوان نے ایک مچھلی کے منہ سے موتی پکڑا اور یہ کہتے ہوئے اسے بٹوے کے مالک کی جانب پھینکا کہ:۔
”تم جو کچھ کھو چکے ہو اس کی تلافی کے لئے یہ کافی ہے اس کے بعد اس نے مچھلیوں سے حاصل کر دہ کچھ موتی پھینکے اور اس کے بعد اس نے اپنے قدم پانی کی جانب بڑھائے اور پانی پر چلنے لگا۔
اس کے بعد حقیقی چور نے بٹوہ واپس گرا دیا اور جہاز میں سوار لوگ پچھتانے لگے۔“
رومی نے یہ تذکرہ نہیں کیا کہ اس داستان کا حقیقی ذریعہ دھول نن تھا۔رومی کے الفاظ میں یہ داستان کچھ یوں بیان کی گئی ہے:۔
ایک درویش جو درویشی استقلال سے مالا مال تھاوہ بحری جہاز پر سفر طے کر رہا تھاجوں ہی وہ محو خواب تھاسونے کا ایک بٹوہ گم ہو چکا تھا پورے جہاز میں شور و غل برپا تھا تمام مسافروں کی سختی کے ساتھ تلاشی لی جارہی تھی۔
لیکن بے سود آخر کار اس کی تلاشی کی باری بھی آن پہنچی آؤ ہمیں اس محو خواب نوجوان کی بھی تلاشی لینی چاہیے جہاز میں یہی باز گشت گونج رہی تھی ۔سونے کے مالک نے انتہائی افسوس کے ساتھ اسے بیدار کیا اور کہا کہ!
قیمتی اشیاء کا ایک بیگ گم ہو چکا ہے تمام لوگوں کی تلاشی لی جا چکی ہے تم بھی تلاشی سے بچ نہیں سکتے۔ اپنی درویشی چوغہ اتارو تاکہ تم پر جو بد گمانی ہے وہ رفع ہو سکے!
درویش چلایا!یا خدا ان ظالموں نے تیرے حقیقی خادم پر الزام عائد کیا ہے۔
ان کی بد گمانی کی وجہ سے اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا سمندر کی مچھلیاں سطح سمندر پر نمودار ہوئی ہر ایک کے منہ میں ایک حیران کن موتی تھا ان موتیوں کو بھی انسان نے نہ چھوا تھا اور نہ ہی دیکھا تھا درویش نے مٹھی بھر موتی لئے اور انہیں جہاز میں بکھیر دیا وہ فضا میں بلند ہوا اور فضا میں اس طرح بیٹھ گیا جس طرح ایک بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھتاہے۔
وہ فضا میں بلند ہوگیا اور جہاز اس سے نیچے رہ گیا وہ چلایا جاؤ چلے جاؤ۔اپنا جہاز لے جاؤ۔میرا خدا میرے ساتھ ہے میں تمہارے ہمراہ سفر نہیں کروں گا ایک چور کو تمہارا ساتھی نہیں ہونا چاہیے میں اس جدائی پر خوش ہوں میں نے خدا کی ہمراہی اختیار کی ہے اور اس کی مخلوق سے علیحدگی اختیار کی ہے دھول نن نے خدا کی محبت کے لئے لفظ”حب“ استعمال کیا ہے ،لیکن خدا کی محبت میں خدا کے بندوں سے محبت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بنی نوع انسانوں سے محبت ہی نیکی کی بنیاد ہے۔
دھول نن ایک عظیم صوفی بزرگ تھے ۔ایک روایت کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کی پیشانی پر درج ذیل الفاظ نقش تھے۔
یہ خدا کا محبوب ہے جس نے خدا کی محبت میں موت کو گلے لگایا اسے خدا نے موت کی نیند سلایا ہے یہ خدا کی تلوار سے ہلاک ہوا ہے۔یہ بھی روایت ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کی میت کو دفن کرنے کے لئے لے جایا جا رہا تھا تب ایک خاص قسم کے پرندوں کا غول ان کے جنازے پر سایہ فگن تھا وہ ایسے پرندے تھے جنہیں پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا اور یہ پرندے قبر تک ان کے جنازے پر سایہ فگن رہے تھے۔ انہوں نے فروری 861ء بمطاق 245 الہجری وفات پائی تھی۔انہوں نے غزہ کے مقام پر وفات پائی تھی اور انہیں دیگر بہت سی برگزیدہ ہستیوں کے درمیان دفن کیا گیا تھا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu