Open Menu

Hazrat Abu Huraira RA - Article No. 3220

Hazrat Abu Huraira RA

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ - تحریر نمبر 3220

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا خاندانی نام عبدالشمس تھا۔ابو ہریرہ کنیت تھی۔

بدھ 28 اگست 2019

حافظ محمد نواز
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا خاندانی نام عبدالشمس تھا۔ابو ہریرہ کنیت تھی۔سلسلہ نسب یہ ہے عمیر رضی اللہ عنہ بن عامر بن عبدذی الشریٰ بن ظریف بن غیاث بن لہنیہ بن سعد بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس ۔گندمی رنگ شانے کشادہ دانت آبد ار اور آگے کے دو دانتوں میں کافی جگہ خالی تھی۔
ابھی بچے تھے کہ سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔
غربت وافلاس بچپن ہی سے ساتھی بن گئے جو جوانی تک ساتھ رہے۔مجبوراً ایک یمنی عورت کے پاس محض روٹی کپڑے کے عوض ملازم ہو گئے۔ان کے سپرد یہ خدمت تھی کہ جب وہ کہیں جانے لگے تو یہ پا پیادہ ننگے پاؤں دوڑتے ہوئے ان کے ساتھ چلیں۔وقت گزرتا رہا اور پھر اتفاق سے بعد میں یہی عورت ان کے نکاح میں آگئی۔

(جاری ہے)

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ ان کا اصلی نام عبدالشمس اور کنیت ابو ہریرہ تھی۔

اپنی کنیت کا حال خود بیان کرتے تھے جو اس طرح ہے۔
”میں نے ایک بلی (ہرہ)پالی ہوئی تھی۔شب میں اس کو ایک درخت پر رکھتا تھا اور صبح کو جب بکریاں چرانے جاتا تو ساتھ لے جاتا اور اس کے ساتھ کھیلتا ۔لوگوں نے یہ غیر معمولی دل چسپی دیکھ کر مجھ کو ابو ہریرہ کہنا شروع کرد یا۔یہ کنیت ایسی مشہور ہوئی کہ اصل نام پس پردہ چلا گیا۔آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبیلہ کے ساتھ خبیر پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام تبدیل کرکے عمیر رکھ دیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو علم کی بڑی جستجو تھی،ان کا ذوق علم حرص کے درجے تک پہنچ گیا تھا۔ان کی علمی حرص کا اعتراف خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ”قیامت کے دن کون خوش قسمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا زیادہ مستحق ہو گا،فرمایا کہ ”تمہاری حرص علی الحدیث کو دیکھ کر میرا پہلے سے خیال تھا کہ یہ سوال تم سے پہلے کوئی نہ کرے گا،عام طور پر صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سوالات کرتے ہوئے جھجکتے تھے لیکن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نہایت دلیری سے پوچھتے تھے۔

غزوات میں ان کی شرکت کی تصریح نہیں ملتی۔مگر اتنا معلوم ہے کہ اسلام کے بعد متعدد غز وات میں شریک ہوئے ۔ان کا اپنا بیان ہے کہ میں جن جن لڑائیوں میں شریک ہوا غزوہ خیبر کے علاوہ ان سب میں مال غنیمت ملا کیونکہ اس کا مال حدیبیہ والوں کے لیے مخصوص تھا۔آپ رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلاف میں ملکی معاملات سے الگ رہے اور اپنے محبوب مشغلے حدیث کی اشاعت میں مصروف رہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔انہوں نے ان کو بحرین کا عامل مقرر کیا۔اس دن سے ان کا فقروافلاس ختم ہوا۔جب وہاں سے واپس ہوئے دس ہزار کی رقم پاس تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باز پرس کی کہ اتنی رقم کہاں سے آگئی؟عرض کیا گھوڑیوں کے بچوں، عطیوں اور غلاموں کے ٹیکس سے تحقیقات سے ان کا بیان صحیح نکلا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ ان کو عہدہ واپس کرنا چاہا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم کو امارت قبول کرنے میں کیوں عذر ہے؟۔
بولے”میں بیچارہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ امیمہ کا بیٹا ہوں ،میں تین باتوں سے ڈرتا ہوں،ایک یہ کہ بغیر علم کے کچھ کہوں، دوسرا یہ کہ بغیر حجت شرعی کے فیصلہ کروں۔تیسرے یہ کہ مارا جاؤں،میری آبرو ریزی کی جائے اور میرا مال چھینا جائے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عہد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خاموشی سے بسر کیا البتہ آخر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محصور ہونے پر لوگوں کو ان کی امداد واعانت پر آمادہ کرتے تھے اور محاصرہ کی حالت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں موجود تھے۔
دیگر لوگ جو اس وقت وہاں موجود تھے ان کو مخاطب کرکے کہاں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ”تم لوگ میرے بعد فتنہ اور اختلاف میں مبتلا ہوجاؤ گے۔لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہماراکیا طرز عمل ہونا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”تم کو امن اور اس کے حامیوں کے ساتھ ہونا چاہیے“۔اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ تھا۔

حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ کے محاصرہ تک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا پتہ چلتا ہے ۔اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں کہیں نظر نہیںآ ئے۔کیونکہ اکثر محتاط صحابہ رضی اللہ عنہ آبادی کو چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کر چکے تھے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی فتنہ میں مبتلا ہونے کے خوف سے کہیں روپوش ہو گئے تھے۔ان فتنوں کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں مروان کبھی کبھی ان کو مدینہ پر اپنا قائمقام بناتا تھا۔

57ہجری میں مدینہ میں بیمار ہوئے ،بڑے بڑے لوگ عیادت کو آتے تھے،خود مروان بن حکم بھی آتا تھا،بیماری کی حالت میں زندگی کی کوئی آرزو باقی نہ رہی تھی،اگر کوئی تمنا تھی تو صرف یہ کہ جلد از جلد یہ دارالا بتلا اچھوڑ کر دار البقا میں داخل ہوجائیں ۔ابو مسلمہ بن عبدالرحمن عبات کو آئے اور ان کی صحت کے لیے دعا کی ۔انہوں نے کہا”خدا یا اب دنیا میں نہ لوٹا“پھر ابو سلمہ کو مخاطب کرکے بولے”وہ زمانہ بہت جلد آنے والا ہے جب انسان موت کو سونے کے ذخیر ہ سے زیادہ پسند کرے گا،اگر تم زندہ رہے تو دیکھو گے کہ جب آدمی کسی قبر پر گزرے گا تو تمنا کرے گا کہ کاش بجائے اس کے وہ اس میں دفن ہو تا“۔

بستر مرگ پر پیس آنے والی منزل کے خطرات کو یاد کرکے بہت روتے تھے ،لوگ رونے کا سبب پوچھتے تو فرماتے کہ میں اس دنیا کی دلفریبیوں پر نہیں روتا بلکہ سفر کی طوالت اور زادہ راہ کی قلت پر آنسو بہاتا ہوں۔اس وقت میں دوزخ جنت کے نشیب وفراز کے درمیا ن ہوں۔معلوم نہیں ان راستوں میں سے کس پر جانا ہو۔
آخری وقت میں تجہیز و تکفین کے متعلق ہداتیں دیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح مجھ کو عمامہ اور قمیض پہنانا اور عرب کے پرانے دستور کے مطابق میری قبر پر خیمہ نصب کرنا اور نہ جنازہ کے پیچھے آگ لے کر چلنا اور جنازہ لے جانے میں جلدی کرنا۔
اگرمیں صالح ہوں گا تو جلد اپنے رب سے ملوں گا اور اگر بد قسمت ہوں گا تو ایک بوجھ تمہاری گردن سے دور ہو گا۔
انتقال کے بعد ان کی وصیت پر پوری طرح عمل کیا گیا ان کی نماز جنازہ ولید نے پڑھائی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی مجموعی تعداد 5374ہے،ان میں 325متفق علیہ ہیں اور 79میں بخاری اور 93میں مسلم منفرد ہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu