Open Menu

Hazrat Hatib Ka Kaht - Article No. 2858

Hazrat Hatib Ka Kaht

حضرت حاطب کاخط - تحریر نمبر 2858

ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کرنے کا ارادہ فرمایا تو اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجمعین کوتیاری کا حکم دیا ،ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ آپ کا سامانِ سفر اور متاعِ جہاد تیار کر دیں۔

پیر 31 دسمبر 2018

علامہ محمدولید الاعظمی العراقی
ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کرنے کا ارادہ فرمایا تو اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجمعین کوتیاری کا حکم دیا ،ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ آپ کا سامانِ سفر اور متاعِ جہاد تیار کر دیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان تیار کررہی ہیں ۔

حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا:
”بیٹی ! کیا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے تیاری کا حکم دیا ہے؟“
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا:
”جی ہاں !“
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھرپوچھا:
”کہاں کا ارادہ ہے؟“
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا:
”خدا کی قسم! مجھے یہ علم نہیں ہے کہ کہاں کا ارادہ ہے؟“
اس وق تک کسی کو معلوم نہ تھاکہ کس جانب جانا ہے ۔

(جاری ہے)

تیاری کرلینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ مکہ کی طرف جانا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
”کسی پر مکہ جانے کا معاملہ ظاہر نہ کرنا۔“
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا بھی فرمائی کہ مولائے کریم ! قریش کے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو بے خبر رکھ تا آنکہ میں انہیں ان کے شہر میں جالوں ۔
ابن اسحق نے محمد بن جعفر رحمتہ اللہ علیہ سے حضرت عمروہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی جانب روانگی کے لیے مکمل تیاری فرمائی تو حضرت حاطب بن ابی بلتعتہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قریش کی طرف ایک خط ایک عورت کے ہاتھ سردار انِ مکہ کے نام روانہ کردیا۔
انہوں نے اس عورت کے ساتھ طے کر لیا تھا کہ وہ اس خدمت کا صلہ اسے عطا کریں گے ۔
وہ عورت خط لے کرروانہ ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو با خبر کر دیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس عورت کے پیچھے بھیجا اور فرمایا:
”جاؤ اور اس عورت سے خط برآمد کرو۔

یہ دونوں صحابہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)تیز رفتار سواریوں پر مکہ کی جانب روانہ ہوئے اور راستے میں اس عورت کو پکڑ لیا۔انہوں نے ا سے خط کے بارے میں پوچھا تو اس نے صاف صاف انکار کردیا ۔اس کے سارے سامان کی تلاشی لی گئی مگر خط نہ ملا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
”میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہم جھوٹ بول رہے ہیں ۔
تو اسے عورت! خط ہمارے حوالے کردے ،نہیں تو ہم تیری جامہ تلاشی کریں گے۔“
جب اس عورت نے یہ صورت حال دیکھی تو کہا:
”ذرا ادھر ہٹ جاؤ۔“
حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دوسری طرف ہوئے تو اس عورت نے اپنے سر کے بالوں کی میندھیاں کھولیں اور خط نکال کردے دیا۔یہ دونوں صحابی خط لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بار گاہ میں حاضر ہوئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط ملنے کے بعد حضرت حاطب بن ابی بلتعتہ رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور پوچھا:
”اے حاطب! تم نے یہ حرکت کیوں کی؟“
حضرت حاطب بن ابی بلتعتہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً عرض کیا:
”یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم)خدا کی قسم ! میں اللہ اور اس کے رسول کا سچا وفا دار اور مومن ہوں ۔نہ میں نے اپنی وفاداری بدلی ہے اور نہ ہی میرا ایمان متغیر ہوا ہے ۔
دراصل بات یہ ہے کہ مکہ میں میراکوئی خاندان اور قبیلہ نہیں مگر میرے اہل وعیال مکہ میں ہی ہیں ۔اس لیے میں نے قریش کو ممنون کرنے کے لیے یہ خط بھیجا تا کہ وہ میرے بیوی بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حاطب ابن ابی بلتعتہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سچ کہتا ہے ۔“
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:
”یا رسول اللہ !( صلی اللہ علیہ وسلم )یہ شخص منافق ہو گیا ہے ۔
مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اُڑادوں ۔“
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’اے عمر! حاطب بن ابی بلتعتہ بدر میں شریک تھا اور تمہیں کیا خبر کہ اللہ تعالیٰ نے بدریوں پر نظر کرم فرمائی اور فرمایا:
”میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔“
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورة الممتحنتہ کی یہ آیت نازل فرمائی:
”اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
تم انہیں خبر پہنچاتے ہو دوستی سے حالانکہ وہ منکر ہیں اس حق کے جو تمہارے پاس آیا ۔گھر سے جدا کرتے ہیں رسول کو اور تمہیں اس پر کہ تم اپنے رب ”اللہ“پر ایمان لائے ۔اگر تم نکلے ہو میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا چاہنے کو تو ان سے دوستی نہ کرو۔تم انہیں خفیہ پیام محبت کا بھیجتے ہو اور میں خوب جانتا ہوں جو تم چھپاؤ اور جو ظاہر کرو اور تم میں جو ایسا کرے بیشک وہ سیدھی راہ سے بہکا۔“

Browse More Islamic Articles In Urdu