Open Menu

Hijab Aur Sharmo Haya - Article No. 3036

Hijab Aur Sharmo Haya

حجاب اور شرم وحیا! - تحریر نمبر 3036

شیطان بے پردہ عورتوں کو غیروں کی نظرمیں مزید پُر کشش بناتا ہے افسوس موجودہ دور کی ان خواتین پر جو خود کو دور جاہلیت کے برابر کررہی ہیں

جمعہ 22 فروری 2019

اُم مفاذہ
حجاب عربی زبان کے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کسی کو کسی شے تک رسائی حاصل کرنے سے روکے رکھنا ۔علامہ شریف جرجانی علیہ الرحمہ کتاب التعریفات میں فرماتے ہیں کہ حجاب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو آپ سے آپ کا مقصود ہی چھپا دے ۔مثال کے طور پر آپ کو ئی چیز دیکھنا چاہیں مگر وہ شے کسی پردے میں ہو۔اس پردے کو حجاب کہتے ہیں۔


ارشاد باری تعالیٰ ہے ”یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چھپ گئے“۔عورتوں کے حجاب کے بارے میں حضرت سیّد نا امام ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :عورتوں کے حجاب سے مراد یہ ہے کہ وہ اس طرح سے پردہ کریں کہ مرد اُنہیں کسی طرح سے دیکھ نہ سکیں۔
عورت کون ہے ؟
عورت کا لفظی معنی ہے”جسم کا وہ حصہ جس کا ظاہر ہونا قابل عاروشرم ہو“۔

(جاری ہے)

ایک اور روایت کے مطابق ”عورت عورت ہے“۔مطلب ہے کہ عورت اَجنبی شخص کے لئے ہر طرف سے چھپانے کی چیز ہے ۔
انسان اُسی چیز کو چھپا تا ہے جس کو غیر کی نظروں سے بچانا ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا اُس کی طرف مائل نہ ہو جائے غیر سے مراد کون ہیں ۔حضرت سیّد نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘فرماتے ہیں ‘
ختم المرسلین حضرت سیّد نانبی کریم رُوف ورحیم علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے ”عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اُسے نگاہ اُٹھا اُٹھا کر دیکھتا ہے “۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اِس حدیث شریف کی شرح میں بیان فرماتے ہیں کہ :
کے معنی ہیں کہ کسی کا بغور معائنہ ومشاہدہ کرنا ۔دوسرا معنی یہ مراد لیتے ہیں کہ لوگوں کی نگاہ میں اُس کو بھلا کر دینا اتنا پُر کشش بنا دینا کہ دیکھنے والا اُسے بغور دیکھے۔مرادیہ ہے کہ جب عورت بے پردہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے لوگوں کی نظر میں مزید پُر کشش بناتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ اُسے خواہ مخواہ تکتے ہیں۔

پردے کا حکم:
سیّد الانبیاء سیرت کی خوبصورت کتاب جسے سیّد نا مخدوم بن ہاشم علیہ الرحمہ نے لکھا ہے فرماتے ہیں ۔ 4ہجری ذیقعدہ کے مہینے میں مسلمان عورتوں کے لئے پردہ کا حکم نازل فرمایا گیا۔حضرت سیّد نا امام ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی فتح الباری شریف میں فرماتے ہیں ۔کہ تمام اقوام میں سب سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ پردے کا حکم4ہجری میں نازل ہوا۔

آخر یہ پردہ عورتوں کے لئے ہی کیوں؟
پردئہ حجاب گویا اسلامی شعار کی حیثیت رکھتا ہے اسلام سے پہلے عورتوں پرپردہ لازم نہ تھا۔اِسلام نے عورت کو عزت دی اور اسے پردئہ حجاب کے زیور سے آراستہ کرکے عظمت وکردار کی بلندی عطا فرمائی ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
”اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی“۔

حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد محمد نعیم مراد آبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اِس آیت مبارکہ میں اگلی جاہلیت سے مراد اسلام سے قبل خواتین ہیں جو اپنی زینت کا اظہار بہت زیادہ کرتی تھیں تا کہ غیر مردوں کے لئے توجہ کا سبب بنیں ۔افسوس موجودہ دور کی ان خواتین پر جو اپنے آپ کو دور جاہلیت کی خواتین کے برابر کررہی ہیں ۔عورت گھر کی دولت ونگران ہوتی ہے اور دولت کو چھپا کر رکھا جاتا ہے ۔
دولت کی چوری کا خطرہ ہوتا ہے اگر اس کو سنبھال کر اور چھپا کر رکھا جائے تو غیر مردوں جیسے چوروں سے دُور رہتی ہے۔
عورت اپنے گھر میں کھلتا اور مہکتا ہوا پھول ہوتا ہے جب تک وہ باغ میں یعنی گھر میں رہتا ہے مہکتا رہے اور غیروں سے محفوظ رہتا ہے ۔اگر وہ ٹوٹ کر باہر آجائے تو مرجھا جاتا ہے عورت اپنے شوہر اپنے باپ دادا بیٹے بلکہ سارے خاندان کی عزت اور آبرو ہوتی ہے ۔
اِس کی مثال سفید اور اُجلے روشن لباس کی سی ہے اگر اس روشن لباس پر معمولی ساداغ بھی ہوتو وہ دور سے ہی نظر آجاتا ہے غیروں کی نگا ہیں اِس کے لئے بد نما داغ کی مثل ہیں ‘لہٰذا ان سے بچنا چاہئے۔
موجودہ دور کے لوگوں کی گفتگو:
دور حاضر میں لوگ ان خواتین پر جو گھر میں رہنا پسند کرتی ہیں یہ تنقید کرتے ہیں کہ یہ تو گھر میں قید ہی رہتی ہے اس خاتون پر ظلم وستم کی انتہا ہورہی ہے ۔
گھر میں رہنے سے عورت ذہنی مریضہ ہو گئی ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ سننے میںآ تا ہے ۔اگر کوئی عورت گھر میں رہے تو اسے دنیا سے بیزار بولا جاتا ہے اگر وہ بالکل باپردہ حالت میں کسی کے گھر میں جائے تو اُسے ملانی جی کہا جاتا ہے اگر وہ باپردہ کسی تقریب میں جائے تو حجاب اُتارنے کا کہا جاتا ہے یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ تم بڑی پردہ دار ہو اب اس کو چھوڑ دو ۔
کوئی یہاں تک کہتا ہے کہ یہ دقیانوسی طبیعت کی مالک ہے اس طرح کی گفتگو کرنے والے لوگ جان لیں کہ یہ شریعت کے ساتھ کھلم کھلا مذاق ہے ۔احکام شریعہ کی توہین ہے ایسا کرنے والوں کے لئے عبرت ناک سزا ہو گی ۔گھر میں عورت کا رہنا اُس پر ظلم وستم نہیں بلکہ عزت وعصمت کی حفاظت ہے۔ اس کو قدرت نے نمائش کے لئے پیدا نہیں فرمایا۔
اُم الموٴ منین حضرت سیّدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا:
ایک بار حضرت اُم الموٴمنین حضرت سیّدہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا گیا کہ آپ باقی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح نہ حج پر گئی ہیں اور نہ ہی عمرہ پر جاتی ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:میں نے حج اور عمرہ کر لیا ہے چونکہ میرے رب نے مجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے لہٰذا اب میں پیام اجل آنے تک گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔
راوی فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر کے دروازے سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔
حضرت سیّد ہ فاطمہ الز ہرار ضی اللہ تعالیٰ عنہا:خاتون جنت حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے وصال سے پہلے یہ وصیت فرمائی کہ وصال کے بعد مجھے رات کے وقت دفن کیا جائے تا کہ میرے جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے ۔
سبحان اللہ! کیا شان ہے پیارے آقا کریم علیہ وسلم کی عظیم بیٹی کی ایسی ہی وہ عظیم مائیں ہوتی ہیں جن کی گود سے حضرت سیّد نا امام حسن اور حضرت سیّد نا امام حسین رضی اللہ عنہا جیسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اُم الموٴمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا:
اُم الموٴمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ عفیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد اور میرے والد گرام کے بعد جب میں اپنے گھر میں داخل ہوتی تو نقاب کا اہتمام نہ ہوتا ۔
کیونکہ ایک سر کار دو عالم علیہ وسلم اور دوسرے میرے والد گرامی علیہ وسلم ہیں جب اُن کے ساتھ امیر الموٴمنین حضرت سیّد نا فاروق رضی اللہ عنہ دفن ہوئے تو میں خوب پر دے کا اہتمام کرتی تھی ۔اس حدیث شریف کو امام احمد علیہ الرحمہ نے روایت کیا ہے۔
مجبوری کی حالت میں پردے کا حکم :
عورت کو گھر میں ہی رہنا چاہئے اگر کبھی کسی لباس (یعنی لباس کی بناوٹ)وطریقہ پوشش (پہننے کا انداز )
اب عورتوں میں رائج ہے کہ کپڑے باریک جن میں سے بدن چمکتا ہے یا سر کے بالوں یا گلے یابا زو کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی حصہ کھلا ہوتو سوائے محارم کے جن سے نکاح ہمیشہ کو حرام ہے کسی کے سامنے ہو نا سخت حرام قطعی ہے ۔

حالت سفر میں پردہ :
نبی محتشم سرور کا ئنات فخر موجودات علیہ وسلم کے مکہ شریف سے مدینہ شریف ہجرت فرمانے کے بعد کچھ عشاق مکہ شریف میں رہ گئے تھے ۔جب اُن میں سے کسی کو موقع میسر آجاتا تو وہ بھی مدینہ شریف روانہ ہو جاتا۔انہی میں ایک باپردہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں جو کہ شرم وحیاء کے پیکر حضرت سیّد نا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ تھیں ۔
اُنہوں نے اس قدر طویل سفر میں پردے کا خوب ا ہتمام فرمایا جس کی مثال نہیں ملتی ۔
آپ کو اس کا انعام بارگاہ نبوت سے یہ ملا کہ سرور کائنات علیہ وسلم نے نہ صرف خوشی کا اظہار فرمایا بلکہ اپنے آزاد کردہ غلام حضرت سیّد نا زید بن حارثہ علیہ وسلم سے اُن کا نکاح فرمادیا۔حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ عفیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتی ہیں حج کے موقع پر قافلے ہمارے پاس سے گزرتے جبکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے محبوب‘ دانائے غیوب سرکار کا ئنات علیہ وسلم کے ساتھ اِحرام باندھے ہوئے تھی ۔

جب لوگ ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی جلباب (برقع نمابڑی چادر )سے سر سے نیچے احتیاطاً لٹکا لیتی (اس احتیاط سے کہ وہ ہمارے چہرے پر نہ لگتی )اس طرح سے غیر لوگ ہمیں دیکھ نہ پاتے یہ تقوعی وطہارت کی اعلیٰ ترین مثال ہے ۔معلوم ہوا کہ ایسا پردہ چہرے کے اُوپر سے لٹکا لینا سر کی جانب سے جو چہرے کو مس نہ کرے بلکہ علیٰحدہ رہے ‘اس سے حالت احرام کی شرط بھی باقی رہتی ہے اور تقویٰ کا معیار بھی حاصل ہوتا ہے پردے کی حرمت کو بھی تقویت ملتی ہے ۔

محرم سے پردہ نہیں؟
عورت کے محرم سے مراد وہ ہیں جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح ہو ۔محارم میں تین قسم کے افراد داخل ہیں ۔
نسب کی بنا پر جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہو۔
رضاعت یعنی دودھ کے رشتے کی بناپر جن سے نکاح حرام ہو ۔
مصاہرات یعنی سسرالی رشتے کی وجہ سے جن سے نکاح حرام ہو ۔
جیسے سسرکے لئے بہو اور ساس کے لئے داماد۔

عورت کے محرم رشتہ دار:
دادا۔نانا۔چچا۔ماموں ۔بھائی ۔بھتیجا۔بھانجا۔بیٹا۔رضاعی چچا۔مانوں ۔رضائی بھتیجا۔بھانجا۔رضاعی باپ بھائی۔سوتیلا بھائی۔سوتیلا بیٹا۔سوتیلا باپ ۔داماد ۔سسر ۔پوتا ۔نواسہ ۔
جن سے پردہ فرض ہے:
ہراجنبی مرد۔شوہر کے پھوپھا۔خالو ۔ماموں زاد ۔خالہ زاد ۔پھوپھی زاد ۔چچاز اد۔خالو ۔پھو پھا ۔جیٹھ دیور ۔
شوہر کا بھتیجا ۔بھانجا بہنوئی ۔نندوئی ۔شوہر کے چچا ماموں۔
بیٹا کھویا ہے حیاتین:
حضرت عبدالخبیر بن ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد گرامی اور اپنے حد محترم سے روایت کرتے ہیں ‘فرماتے ہیں :
”حضور سیّد نا نبی کریم روف ورحیم علیہ وسلم کے پاس ایک عورت حاضر خد مت ہوئی جس کو اُم خلادرضی اللہ تعالیٰ عنہا کہا جاتا تھا وہ نقاب اوڑھے ہوئی تھی وہ اپنے شہید بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔
ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس سے کہا تو اپنے بیٹے کے متعلق پوچھنے چلی ہے اور نقاب پہنے ہوئی ہے؟اُس نے کہا:اگر میں اپنے بیٹے کی طرف سے مصیبت زدہ ہوں تو میری حیاء کو مصیبت لاحق نہیں ہوئی ہے ۔امام المر سلین حضور سیّدنارسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تیرے بیٹے کے لئے دو شہید وں کا ثواب ہے ۔وہ عرض کرنے لگی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )ایسا کس وجہ سے ہے ؟آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو اہل کتاب نے شہیدکیا ہے ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu