Open Menu

Ikhlas Ki Haqeeqat O Ehmiyat - Article No. 3482

Ikhlas Ki Haqeeqat O Ehmiyat

اخلاص کی حقیقت و اہمیت - تحریر نمبر 3482

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا اور لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔

جمعہ 7 اگست 2020

مولانا فضل الرحیم اشرفی
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا اور لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔“(راہ مسلم)
اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ ہر اچھا کام یا کسی کے ساتھ اچھا سلوک صرف اس لئے اور اس نیت سے کیا جائے کہ ہمارا خالق و پروردگار ہم سے راضی ہو،ہم پر رحمت فرمائے اور اس کی ناراضگی اور غضب سے ہم محفوظ رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ تمام اچھے اعمال و اخلاق کی روح یہی اخلاص نیت ہے اگر اچھے سے اچھے اعمال و اخلاق اخلاص سے خالی ہوں اور ان کا مقصد رضا الٰہی نہ ہو بلکہ نام و نمور یا اور دکھلاوا اور کوئی ایسا ہی جذبہ ان کا محرک اور باعث ہو تو اللہ کے نزدیک ان کی کوئی قیمت نہیں اور ثواب بھی نہیں ملتا لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کا ثواب جو اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کا اصل صلہ اور نتیجہ ہے وہ صرف اعمال و اخلاق پر نہیں ملتا بلکہ یہ جب ملتا ہے جبکہ ان اعمال و اخلاق میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اُخروی ثواب کا ارادہ بھی کیا گیا ہو۔

(جاری ہے)

اپنے معاملات میں خود ہمارا بھی یہی اصول ہے فرض کیجئے کوئی شخص آپ کی بڑی خدمت کرتا ہے آپ کو ہر طرح آرام پہنچانے اور خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر کسی ذریعہ سے آپ کو معلوم ہو جائے کہ اسے آپ کے ساتھ کوئی خلوص نہیں بلکہ اس نے یہ سب کچھ اپنی ذاتی غرض کے لئے کیا ہے یا آپ کے کسی دوست یا رشتہ دار سے اپنا کوئی کام نکلوانا چاہتا ہے تو پھر آپ کے دل میں اس شخص کی اور اس کے برتاؤ کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔

بس یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا ہے‘فرق اتنا ہے کہ ہم دوسروں کے دلوں کا حال نہیں جانتے اور اللہ تعالیٰ سب کے دلوں اور ان کی نیتوں کا حال جانتا ہے پس اس کے جن بندوں کا یہ حال ہے کہ وہ اس کی خوشنودی اور رحمت کی طلب میں اچھے کام کرتے ہیں وہ ان کے اعمال کو قبول کرکے ان سے راضی ہوتا ہے اور ان پر رحمتیں نازل کرتا ہے اور دارالجزاء یعنی آخرت میں اس کا بدلہ عطا فرمائے گا۔

اخلاص کی ضد ریاء اور دکھلاوا ہے‘اس کے بارے میں ارشاد نبوی ہے ”جس نے دکھلاوے کے لئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا اور جس نے دکھلاوے کے لئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے صدقہ و خیرات دکھاوے کے لئے کیا اس نے شرک کیا۔“حقیقی شرک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات یا اس کے افعال یا اس کے خاص حقیقت میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے یا اللہ کے علاوہ کسی اور کی بھی عبادت کی جائے‘اسے شرک حقیقی ،شرک جلی اور شرک اکبر کہتے ہیں ایسے شرک کرنے والوں کی ہر گریخشش نہیں ہو گی لیکن بعض اعمال و اخلاق ایسے بھی ہیں جو شرک حقیقی میں شامل نہیں لیکن ان میں شرک کا تھوڑا بہت شائبہ ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی شخص عبادت یاکوئی اور نیک کام لوگوں کو دکھانے کے لئے کرے تاکہ لوگ اسے عبادت گزار نیکو کار سمجھیں اسی کو ریاء کہا جاتا ہے۔

سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرئہ مبارک سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیز بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے بھی زیادہ خطر ناک ہے؟ہم نے عرض کیا بتائیے! آپ نے فرمایا وہ شرک خفی ہے اور وہ یہ کہ آدمی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو پھر اپنی نماز کو اس لئے لمبا کر دے کہ کوئی آدمی اس کو نماز پڑھتا دیکھ رہا ہے۔
“مسند احمد میں محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ”شرک اصغر“کا ہے،صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا شرک اصغر کیا ہے؟فرمایا ریاء“۔صحیح بخاری و مسلم میں حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،جو شخص کوئی عمل سنانے اور شہرت کے لئے کرے گا اللہ تعالیٰ اسے شہرت دے گا اور جو کوئی عمل دکھاوے کے لئے کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور دکھا دے گا۔

صحیح مسلم میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ایسے شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو کوئی اچھا عمل کرتا ہے اس کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف کرتے ہوں ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی اچھا عمل کرتا ہو اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرتے ہوں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو مومن بندے کے لئے نقد بشارت ہے۔

دراصل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ذہن میں ریاء کا اتنا خوف تھا کہ ان میں سے بعض کوشبہ ہونے لگا کہ لوگ ان کے نیک اعمال کی تعریف کرنے لگے تو کہیں یہ ریاء میں داخل نہ ہو جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا۔اس سے معلوم ہوا کہ عمل کرنے والے کے اراد ہ اور کوشش کے بغیر اگر دوسرے لوگوں کو اس کے اعمال کا علم ہو جائے پھر ان کو اس سے خوشی اور محبت ہو جائے تو یہ اخلاص کے منافی نہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu