Open Menu

Katib Wahi - Article No. 1674

Katib Wahi

کاتب وحی - تحریر نمبر 1674

حضرت امیر معاویہؓ نبی کریم ؐے سسرالی رشتہ دار بھی ہیں۔ آپ کی ہمشیرہ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمّ حبیبہؓآپ ؐ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔ یہ حضرت امیر معاویہؓ کی حقیقی بہن ہیں۔ لہٰذا امیر معاویہؓ کا رسولِ کریمؐ سے دوہرا رشتہ ہے۔

منگل 10 اپریل 2018

علامہ منیر احمد یوسفی حضرت امیر معاویہؓ کا نام ’’معاویہ‘‘ اور کنیت ’’عبدالرحمان‘‘ ہے۔ آپ کا نسب اپنے والد کی طرف سے پانچویں پشت میں حضور نبی کریمؐسے مل جاتا ہے۔ حضرت معاویہ (ابو عبدالرحمان) بن صخر (ابو سفیان) بن جرب بن امیہ بن شمس بن عبد مناف اور والدہ کی طرف سے بھی آپ کا نسب پانچویں پشت میں رسولِ کریمؐسے مل جاتا ہے۔ حضرت معاویہ بن ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔
عبد مناف رسولِ کریم ؐکے چوتھے دادا ہیں کیونکہ رسولِ کریم ؐبن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔ حضرت معاویہؓ عبد مناف میں نبی کریم ؐسے مل جاتے ہیں۔ لہٰذا امیر معاویہؓ نسبی لحاظ سے حضور نبی کریمؐؐ کے قریبی اہل قرابت میں سے ہیں۔ حضرت امیر معاویہؓ نبی کریم ؐے سسرالی رشتہ دار بھی ہیں۔

(جاری ہے)

آپ کی ہمشیرہ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمّ حبیبہؓآپ ؐ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔

یہ حضرت امیر معاویہؓ کی حقیقی بہن ہیں۔ لہٰذا امیر معاویہؓ کا رسولِ کریمؐ سے دوہرا رشتہ ہے۔ نسبی اور سسرالی۔ حضرت امیر معاویہؓ کا رنگ سفید تھا اور وہ حسین و جمیل آدمی تھے جب ہنستے تو اُن کا اوپر والا ہونٹ اُلٹ جاتا۔ حضرت امیر معاویہؓ اعلانِ نبوت سے ۸ سال پہلے پیدا ہوئے۔ آپ کی جائے پیدائش مکہ مکرمہ ہے۔ آپ صلح حدیبیہ کے دن ۷ھ میں اِسلام لائے مگر مکہ مکرمہ والوں کے جبر و استداد و ظلم و ستم سے اپنا اِسلام چھپائے رکھا پھر فتح مکہ مکرمہ کے دن اپنا اِسلام ظاہر کیا۔
غزوئہ حنین میں وہ شریک تھے اور حضور ؐ نے انہیں مال غنیمت سے ایک سو اُونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی عطا فرمائی۔ حضرت سیّدنا ابو بکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں ملک شام کی طرف لشکر روانہ ہوا۔ بعد ازیں حضرت امیر معاویہؓ کے بھائی حضرت یزید بن ابو سفیان کو ملک شام کا حاکم بنایا۔ حضرت امیر معاویہ اپنے بھائی یزید بن ابو سفیانؓ کے ساتھ ملک شام چلے گئے۔
جب حضرت یزید بن ابو سفیانؓ فوت ہونے لگے تو اُنہوں نے اپنی جگہ حضرت امیر معاویہؓ کو حاکم مقرر کر دیا۔ ۔ یہ تقرر امیر المومنین حضرت فاروق اعظمؓ کے دَور میں ہوا۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے اِس تقرر کو برقرار رکھا۔ حضرت امیر معاویہؓ خلافتِ فاروق اعظم اور خلافتِ عثمان غنیؓ میں اِسی گورنری کے عہدے پر فائز رہے اور بیس سال تک زمام حکومت سنبھالے رکھا۔
حضرت امیر معاویہؓ نہایت دیانتدار‘ سخی‘ سیاستدان‘ قابل حکمران اور وجیہہ صحابی تھے۔ آپ نے نہایت قابلیت سے حکمرانی کی۔ آپ کی حکومت میں نہایت آسانی سے مالیہ وصول ہو جاتا تھا جو مدینہ منورہ پہنچا دیا جاتا تھا۔ دونوں خلفائے راشدین حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ آپ سے خوش رہے۔ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا فاروق اعظمؓ نہایت محتاط اور حکام پر سخت گیر تھے۔
ذرا سے قصور پر حکام کو معزول فرما دیتے تھے۔ مگر اِس کے باوجود حضرت امیر معاویہؓ کو برقرار رکھا جس سے اندازہ ہوتا ہے اُنہوں نے امیر المؤمنین کی محتاط حکومت میں بڑی ذمہ داری اور خوش اَسلوبی سے اپنی ذمہ داری کو اَدا کیا۔ حضرت عبدالرحمان بن ابو عمیرہؓ سے روایت ہے ‘ حضور نبی کریم ؐ ؐ نے حضرت امیر معاویہؓ کے لئے دُعا فرمائی: ’’اے اللہ !تو اِسے ہادی اور مہدی بنا کہ لوگ اِس سے ہدایت حاصل کریں‘‘۔
صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے اُن سے روایت کی ہے مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس‘ حضرت ابو سعید خدری‘ حضرت ابو دردائ‘ حضرت جریر‘ حضرت نعمان بن بشیر‘ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابن زبیرؓ وغیرہ اور تابعین میں سے حضرت ابو سلمہ اور حمید عبدالرحمان کے بیٹے‘ عروہ‘ سالم‘ علقمہ بن وقاص‘ ابن سیرین اور قاسم بن محمد وغیرہ نے۔ حضرت امیر معاویہؓ سے روایت ہے کہ جب سے رسولِ کریم ؓ نے مجھے فرمایا تھا کہ اگر تو کبھی حاکم بن جائے تو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا (فرماتے ہیں) تب سے میرے دِل میں حکمرانی کا خیال پیدا ہو گیا۔
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ کی شہادت کے بعد پانچویں خلیفۂ راشد حضرت سیّدنا امام حسنؓ مسند خلافت پر فائز ہوئے مگر چھ ماہ خلافت فرمانے کے بعد حضرت امیر معاویہؓ پوری مملکت اِسلامیہ کے امیر ہو گئے۔حضرت امیر معاویہؓ صحابیت اور سسرالی نسبتِ رسول اللہ ؐ کے علاوہ اور بھی خصوصی فضائل کے حامل ہیں۔ آپ نبی کریمؐکے کاتب وحی اور کاتب خطوط بھی تھے۔
حضور ؐ جو پیغامات سلاطین کو اَرسال فرماتے تھے وہ حضرت امیر معاویہؓ سے لکھواتے تھے۔ حضرت امیرمعاویہؓ رسولِ کریم ؐکے اَمین تھے۔ حضرت زید بن ثابتؓ جو کاتب وحی تھے اُن کی طرح امیر معاویہؓ بھی زیادہ کام کرتے تھے۔ حضرت امیر معاویہؓ مجتہدین صحابہ کرامؓ میں سے ہیں اور مجتہدین صحابہ کرامؓ بڑے اعلیٰ اور اشرف مانے جاتے ہیں۔ حضرت اُمّ حرام ؓ فرماتی ہیں‘ میں نے رسولِ کریمؐ سے سنا آپ ؐ فرماتے تھے’’ میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمند رپر سوار ہو کر جہاد کرے گا اُس پر جنت واجب ہو گئی‘‘۔
حضرت اُم حرام ؓفرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ میں بھی اُس میں ہوں گی ؟تو آپ ؐ نے فرمایا: ہاں! تو بھی اُن میں ہوگی۔ یہ جہاد ۲۸ھ؁ کو امیر المؤمنین حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں ہوا جس کے امیر حضرت امیر معاویہؓ تھے۔ یہ جہاد جزیرہ قبرص کو فتح کرنے کے لئے ہوا۔ اِس میں اُمّ حرام ؓ شامل تھیں۔ اِس لشکر کے لئے آپ ؐ نے جنتی ہونے کی بشارت دی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قندیل نورانی قدس سرہ العزیز مکتوبات شریف کے دفتر اول حصّہ دوم مکتوب نمبر ۵۸ میں لکھتے ہیں‘ حضرت عبداللہ بن مبارکؓ (جو دین کے سرداروں اور رفقہاء اُمّت میں سے ہیں۔
اِن کی ذات مجمع خیرات اور مصدر برکات تھی) سے پوچھا گیا حضرت امیر معاویہؓ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز تو آپ نے جواب دیا‘ وہ غبار جو حضورؐ کے ساتھ حضرت امیر معاویہؓ کے گھوڑے کے ناک میں داخل ہوا وہ کئی درجے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے افضل ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ ۲۲رجب المرجب ۶۰ہجری میں ۷۸سال کی عمر میں لقوہ کی بیماری سے فوت ہوئے۔
حضرت امیر معاویہؓ کے پاس رسولِ کریمؐ ؐکے چند مقدس تبرکات تھے۔ یعنی چادرِ اَقدس‘ ناخن شریف‘ قمیض مبارک‘ ازار شریف اور موئے مبارک۔ اور آپ کی وصیت کے مطابق چادر مبارک‘ قمیض مبارک اور ازار شریف میں آپ کو کفن دیا گیا اور موئے مبارک اور ناخن شریف اعضائے سجوداور آنکھوں نتھوں پر رکھ دیئے گئے۔ جب امیر معاویہؓ فوت ہوئے تو ضحاک بن قیس حضرت امیر معاویہؓ کا کفن ہاتھ میں لے کر منبر پر چڑھا اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوا۔
حضرت امیر معاویہؓ عرب کی تلوار کی دھار اور اس چمن کی خوشبو تھے اللہ نے اپنے بندوں پر انہیں حکومت عطا فرمائی اور اِن کی افواج قاہرہ خشکی و تری پر چھا گئیں حضرت امیر معاویہؓ اللہ کے ایک بندے تھے جنہوں نے اللہ کو مدد کے لئے پکارا اور اُدھر سے مناسب جواب عطا ہوا۔ یہ حضرت امیر معاویہؓ کا کفن ہے ہم انہیں اس کفن میں لپیٹ کر قبر میں دفن کر دیں گے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu