Open Menu

Khulasa Tul Quran, Zia Ul Quran Ki Roshni Mein (qist 1) - Article No. 3392

Khulasa Tul Quran, Zia Ul Quran Ki Roshni Mein (qist 1)

خلاصة القرآن، ضیاء القرآن کی روشنی میں(قسط 1 ) - تحریر نمبر 3392

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت یہ سورة مبارکہ نازل ہوئی ۔مکہ مکرمہ کے مقابلہ میں مدینہ منورہ کے حالات کافی حد تک مختلف تھے اس لیے اس سورة کے مضامین بھی مکی سورتوں سے مختلف ہیں

پیر 27 اپریل 2020

تحریر: پیر فاروق بہاؤالحق شاہ

پہلی منزل کا آغاز سورة فاتحہ سے ہوتا ہے ۔اس میں ایک رکوع اور سات آیات ہیں ۔ہر سورة کی طرح اس سورة کا آغاز بھی بسم اللہ شریف سے کیا گیا ہے۔بسم اللہ شریف کو اسلامی آداب معاشرت میں اہم مقام حاصل ہے۔یہاں تک کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''دروازہ بند کرو تو اللہ کا نام لیا کرو،باہر جاؤ تو اللہ کا نام لیا کرو ۔

اپنے برتن ڈھانپو تو اللہ کا نام لیا کرو۔اپنی مشک باندھو تو اللہ کا نام لیا کرو(قرطبی)اس طرح بسم اللہ کی فضیلت کے متعلق تمام مفسرین نے طویل کلام کیا ہے اور مختلف فضائل بیان کیے ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر امام قرطبی کی نقل کردہ حدیث کی نقل کرنے پر اکتفا کروں گا۔کہ عثمان بن ابی العاص نے شکایت کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب سے مشرف بے اسلام ہوا ہوں جسم میں درد رہتا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں پر درد ہو وہاں ہاتھ رکھ کر پڑھو ۔

(جاری ہے)

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اوعذبعذة اللہ وقدرتہ من شر ما اجدو احاذر۔
سورة بقرہ:
اس منزل کی پہلی سورة بقرہ کے نام سے موسوم ہے ۔سورة بقرہ مدنی سورة ہے۔یہ قرآن کریم کی طویل سورة ہے جو ڈھائی پاروں پر محیط ہے۔ اس پوری سورة میں 40رکوع ،286آیات،6031لفظ اور 20ہزار حروف ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت یہ سورة مبارکہ نازل ہوئی ۔
مکہ مکرمہ کے مقابلہ میں مدینہ منورہ کے حالات کافی حد تک مختلف تھے اس لیے اس سورة کے مضامین بھی مکی سورتوں سے مختلف ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعوت اب جس مرحلہ میں داخل ہو رہی تھی اس کے پیش نظر احکامات جاری کیے گئے۔کئی غلط رسوم کے خاتمہ کا حکم ہوا۔کئی احکامات کا حکم صادر ہوا۔اہل مکہ بت پرست اور مشرک تھے ۔وحی،نبوت،قیامت کا شعور ان کے ہاں سرے سے موجود ہی نہ تھا ۔
قتل و غارت اور لوٹ مار میں فخرواطمینان محسوس کرتے تھے۔اس لیے مکی سورتوں کے مضامین انکی افتاد طبع کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیے گئے۔کہ انکے عقائد باطلہ اور اعمال فاسدہ کی اصلاح کی جاسکے جبکہ مدینہ منورہ میں صورتحال قدرے مختلف تھی۔یہاں کا اقتدار اور طاقت کا مرکز یہودی تھے ۔یہود چونکہ اہل کتاب تھے اس لیے وحی،رسالت اور قیامت کے شعور سے آگاہ تھے۔
اور اس پر ایمان رکھتے تھے۔لیکن وہ اپنے قومی نشے میں اس حد تک بد مست تھے کہ وہ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے کہ نبوت انکے علاو ہ کسی اور کو مل نہیں سکتی ہے۔اور جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں قدم رنجا فرمایا تو یہود کو اپنا اقتدار اور طاقت کا محل ڈگمگاتا ہوا محسوس ہوا ۔انہوں نے اسلام اور آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف مختلف سازشیں شروع کر دیں۔
چناچہ اس سورة مبارکہ کے کئی رکوع یہود کے اصلاح احوال کے لیے نازل کیے گئے۔یہاں پر مکہ مکرمہ سے مختلف صورتحال کچھ یوں بھی تھی کہ مکہ میں اسلام اور مسلمان قلیل تعداد میں تھے۔لیکن مدینہ منورہ میں اکثر لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ انکی طاقت مجتمع ہو چکی تھی۔اس لیے یہاں نازل ہونے والی سورتوں کے احکامات بھی مختلف ہو گئے۔پہلے پارہ کے پہلے رکوع میں ہی ان خوش نصیبوں کا تذکرہ ہوا جن کے دلوں کو اللہ کریم نے حق کے پیغام کے لیے محبت فرمایا تو اللہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک وہی لوگ فلاح پانے والے کامیاب لوگ ہیں جنہوں نے آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیغام کوقبول کیا اور انکے ساتھ چلنے والے قافلہ کا حصہ بنے۔
آگے چل کر ان لوگوں کا تذکرہ فرمایا جو جان بوجھ کر اسلام قبول نہیں کر رہے۔تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ جن بدبختوں نے اتنی واضح س نشانیوں کے باوجود اسلام قبول نہیں کیا ہم نے انکے دلوں پر قید لگا دی ہے۔
اصلاح کے نام پر فساد:
قرآن کریم کی اس منزل میں ایک اہم فتنہ کی طرف بڑی خوبصورتی سے اشارہ کیا کہ جب فسادی ٹولے کو کہا جاتا ہے کہ آپ ملک میں فتنہ برپا نہ کریں تو جوابا وہ ٹولہ کہتا ہے کہ فساد کرنے والے تو نہیں ہیں بلکہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔
آج بھی کئی ٹولے اصلاح کے نام فساد برپا کرنے میں مصروف ہیں ۔قرآنی آیات آج بھی اس فتنہ کے متعلق خبردار کر رہی ہیں۔
اہل حق کا تمسخر اڑانا:
جب مسلمانوں کی طرف سے کفار مکہ اور یہود کو کہا جا تا کہ آپ اسلام قبول کریں اور حق کی طرف آ جائیں تو وہ بجائے کہ حق کا راستہ اختیار کرتے وہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے اور کہتے ہم کوئی احمق ہیں جو اسلام قبول کریں ۔
؟اس پر اللہ کریم نے بڑی واضح انداز میں یہ حقیقت کھول کر بیان کر دی کہ احمق مسلمان نہیں بلکہ احمق تو تم لوگ ہو جو نبوت کا شریں پانی دستیاب ہونے کے باجود کفر کا غلیظ اور بد بودار پانی پینے کو ترجیح دے رہے ہو۔
قرآن کریم کا ایک منفرد چیلنج:
جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس پر طرح طرح کے اعتراضات کیے گئے۔لیکن اس سحر بیانی کا کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔
پہلے پارے کے ابتدائی حصہ میں اللہ کریم کی طرف سے ایک چیلنج دیا گیا کہ اگر تمہیں قرآن پاک کی صداقت میں کوئی شبہ ہے تو اپنے تمام قبائل کو بلاؤ ۔اپنے حمایتوں کو بلاؤ۔اورسب ملکر ایک سورة بنا کر دیکھاؤ یا ایک آیت ہی ہی بنا کر دکھا دو۔پھر فرمایا کہ تم ایسا نہیں کر سکو گے اور نہ ہی ایساکر سکتے ہو تو ڈرو اس وقت سے جب تمہیں آگ میں ڈالا جائے گا۔
اور آگ بھی وہ جسکا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔اور یہ آگ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو قرآن اور صاحب قرآن کا انکار کرتے ہیں۔
انسان کا اللہ کا خلیفہ ہونے کا تذکرہ:
انسان خالق کائنات کا ایک عظیم شاہکار ہے۔اور یہ واحد مخلوق ہے جسکو اللہ کریم نے زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا ۔قرآن کریم کی اس منزل میں اس عظیم احسان کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
کہ جب اللہ تعالی نے فرشتوں کو بتایا میں انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں تو فرشتوں میں جواب میں عرض کی کہ یا اللہ انسان زمین پر جا کر فساد برپا کرئے گا ۔خون بہائے گا۔ہمارے ہوتے ہوئے آپکو کوئی اور مخلوق تخلیق کرنے کی کیا ضرورت ہے تو اللہ کریم نے جواب میں فرمایا ۔اے فرشتوں جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔پھر اللہ کریم اپنی قدرت سے حضرت آدم کوتمام علوم کا علم دے دیا۔
اور فرشتوں نے اپنے عجز کا اظہار کیا اور خدا کی ربوبیت کے سامنے سر جھکا دیا۔
سجدہ تعظیمی اور عظمت آدم:
جب فرشتوں نے حضرت آدم  کے سامنے اپنے عجز کا اعتراف کیا تو اللہ نے حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔تب تمام فرشتوں نے حضرت آدم  کو سجدہ کیا ۔ابلیس نے انکار کیا تو وہ راندہ درگاہ ہو گیا۔یہاں پر اس امر کی وضاحت مناسب ہے کہ سابقہ امتوں میں سجدہ تعظیمی جائز تھا۔
سجدہ کا لغوی معنی ہے اپنی پیشانی زمین پر رکھنا ۔حضور ضیاء االامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری فرماتے ہیں کہ سجدہ کی دو صورتیں ہیں ۔ایک صورت یہ ہے کہ انسان جس چیز کو سجدہ کر رہا ہو وہ اس بات کا اعتقاد دیکھے کہ مسجود علیہ چیز خالق حقیقی اور سجدہ کے لائق ہے ۔دوسری صورت یہ ہے جس کے سامنے سجدہ کیا جا رہا ہو محض اسکی تکریم کی خاطر سجدہ کیا جائے۔
پہلی شریعتوں میں یہ سجدہ جائز تھا ۔لیکن آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہر قسم کے سجدہ سے منع فرمایا ۔اللہ کریم کی ذات کے علاوہ کسی اور ذات کو سجدہ کرنا جائز نہیں۔
حضرت آدم کی توبہ کی قبولیت:
حضرت آدم  جنت میں قیام پزیر تھے۔لیکن دانہ گندم کھانے کی پاداش میں انکو جنت سے زمین پرجانے کا حکم ہوا۔صاحب ضیا ء القرآن لکھتے ہیں کہ آدم بھولے سے یہ خطاء تو کر بیٹھے لیکن پھر فرط ندامت سے اتنا روئے کہ انہوں نے آنسووں کے دریا بہا دیے۔
ان کے درد کے نالوں سے پتھروں کے دل پھٹ جاتے تھے۔دن رات آہ و فغاں سے کام تھا۔اس طرح کئی سال بیت گئے ۔یہاں پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت نقل کرنا مناسب ہو گا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ عتاب کے بعد حضرت آدم کو کئی سالوں بعد یاد آیا کہ مجھے جس وقت اللہ تعالی نے پیدا کیا تھا اور روح میرے اندر پھونکی تھی تو میں نے سرعر ش کی طرف اٹھایا اور دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا ۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔میں نے خیال کیا جس ذات کا نام اللہ تعالی نے اپنے برابر لکھا ہوا ہے اسکا واسطہ دیکر مانگتا ہوں ۔چناچہ حضرت آدم  نے دعا مانگی اے اللہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وجہ سے معاف فرما ۔تو حق تعالی نے انکی مغفرت فرمائی اور اللہ کریم نے فرمایا اے آدم۔محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب پیغمبروں سے عظیم اور تیری اولاد سے ہیں اگر وہ نہ ہوتا تو کچھ بھی پیدا نہ کرتا۔

مشکلات کے حل کے لیے دعا:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی مشکل درپیش ہوتی آپ نماز پڑھتے ۔صاحب ضیا ء القرآن تحریر کرتے ہیں کہ اگر انسان کو کوئی مشکل درپیش ہو تو اسکو چاہیے احتیاط سے وضو کرئے ۔پھر دو رکعت نماز پڑھے اللہ کی حمد و ثناء کرئے ۔اسکے بعد کثرت سے درود شریف پڑھے اسکے بعددعا مانگے۔

بنی اسرائیل کے حالات:
اس منزل کے کئی رکوع بنی اسرائیل کے حالات بیان کرنے پر صرف ہوتے ہیں ۔فرعون اور موسی کا تزکرہ ہوا اس بارے میں اس واقع کا تزکرہ بھی ہے جب حضرت موسی  نے اپنے عصا سمندر کے پانی پر مارا تو اس میں سے کئی راستے نمودار ہو گئے اور جب فرعون نے وہ سمندر عبور کرنا چاہا تو اسکا سارا لشکر غرق ہو گیا۔

ٓآداب نبوت:
پہلے پارے میں ایک اہم آیت ۔ لا تقلو راعنا موجود ہے اس میں آداب رسالت بہت خوب انداز میں بیان کر دیا گیا۔جب بھی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تزکرہ جمیل کرنا مقصود ہو انکو مکمل آداب کے ساتھ یاد کیا جائے ۔ ایسے ذو معنی لفظ کو کسی بھی طور پر استعمال نہ کیا جائے جس سے شان رسالت میں تنقیص کا پہلو نکلتا ہو ۔
اسی پارے کے آخری رکوع میں بیت اللہ کی تعمیر اور حضرت اسماعیل اور انکے والد حضرت ابراہیم  کی دعا کا زکر ہے ۔اور اس بات کا تزکرہ بھی موجود ہے کہ آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت دراصل دعائے خلیل کی قبولیت ہے۔
تحویل قبلہ:
دوسرے پارے کے پہلے رکوع میں تحویل قبلہ کا زکر ہے جو کہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقع ہے اور دوسری طرف اللہ کریم کی بارگاہ ناز میں سرکار کے مقام کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔
اللہ کریم نے فرمایا کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیں آپکا بار بار آسمان کی طرف دیکھنا پسند آ گیا ہے آپ جس طرح چاہیں منہ پھر لیں ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دوران نماز ہی اپنا چہرہ اقدس بیت اللہ سے پھر کر بیت المقدس کی طرف کر دیا ۔ایک طرف اختیار رسالت کا زکر ہے تو دوسری طرف بیت اللہ کی عظمت کا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu