Open Menu

Masla Taqdeer - Article No. 2633

Masla Taqdeer

مسئلہ تقدیر - تحریر نمبر 2633

اللہ تعالیٰ نے جب سب کچھ لکھ دیا ہے کہ انسان دُنیا میں جا کر یہ کام کرے گا۔نیک بخت ہو گا یا بد بخت ‘جنتی ہو گا یا جہنمی۔

منگل 13 نومبر 2018

مُبشر احمد رَبّاَ نی
اللہ تعالیٰ نے جب سب کچھ لکھ دیا ہے کہ انسان دُنیا میں جا کر یہ کام کرے گا۔نیک بخت ہو گا یا بد بخت ‘جنتی ہو گا یا جہنمی۔تواِس میں ہمارا کیا قصور ہے جب کوئی بُرا کام کسی کے مقدر میں لکھا ہے تو اُسے پھر سزا کیوں دی جائے گی؟قرآن وسنت کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں ۔
مسئلہ تقدیر اِن مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث وتمحیص کرنا شرعاً منع ہے کیونکہ اِس کے متعلق بحث وتکرار سے اَجر کی محرومی ‘بدعملی اور ضلالت کے سوا کچھ حاصل نہیں ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب پر اِس حالت میں نکلے کہ وہ مسئلہ تقدیر پر بحث کررہے تھے ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اِس قدر غُصّے میں آگئے معلوم ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پہ انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں ۔

(جاری ہے)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم اِس کا حکم دئیے گئے ہویا تم اِس کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو؟اللہ کے قرآن کی بعض آیات کو بعض کے ساتھ ٹکراتے ہو؟اِسی وجہ سے تم سے پہلی اُمتیں ہلاک ہو گئیں ۔


اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیروشر دونوں کا راستہ دکھایا ہے اور اسے اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چاہے اختیار کر لے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
”ہم نے اُس کوراستہ دکھادیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا نا شکرا۔“
ایک اور مقام پر فرمایا:
”ہم نے اُسے دونوں راستے دکھادئیے۔“
اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیروشر کے دونوں راستے دکھادئیے ہیں اور اُسے عقل وشعور دیا ہے کہ اپنے لیے اِن دونوں راستوں میں سے جو صحیح راستہ ہے اختیار کرلے۔
اگر انسان سیدھے یعنی خیروبرکت والے راستے کو اختیار کرے گا تو جنت میں داخل ہوجائے گااور جہنم کے درد ناک عذاب سے اپنے آپ کو بچا لے گا اور اگر راہِ راست کو ترک کرکے ضلالت وگمراہی اور شیطانی راہ پر گامزن ہوگا تو جہنم کی آگ میں داخل ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اُس نے اپنے عِلم کی بنیاد پر لکھی کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے ۔
اُس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا؟کیا کرے گا؟اُُس کا انجام کیا ہوگا ؟اِس لیے اُس نے اپنے عِلم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے کیونکہ اُ س کا عِلم واندازہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اُس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اُس نے قلمبند کی ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ کے کمالِ عِلم واحاطئہ کلی کا ذکر ہے ۔
اِس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اُس نے اِن لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے ۔
اِس لیے یہ بات کہنا صحیح نہیں ہو گی کہ زانی وشرابی ‘چور وڈاکو وغیرہ جہنم میں کیوں جائیں گے ؟کیونکہ اُن کے مقدر میں ہی زنا کرنا ‘شراب پینا ‘چوری کرنا اور ڈاکے وغیرہ ڈالنا لکھا ہوا تھا ۔اِس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک اُستاد جو اپنے شاگردوں کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور اُن کے لکھنے پڑھنے سے دلچسپی وعدم دلچسپی سے اچّھی طرح واقف ہے اپنے عِلم کی بنا پر کسی ذہین ومحنتی طالب عِلم کے بارے میں اپنی ڈائری میں لکھ دے کہ یہ طالب عِلم اپنی کلاس میں اوّل پوزیشن حاصل کرے گا اور کسی شریر اور غبی وکندذہن طالب عِلم کے بارے میں لکھ دے کہ وہ امتحان میں ناکام ہوگا اور کندذہن ولائق طالب عِلم دونوں کو کلاس میں برابر محنت کرائے اور اکٹھا اُنہیں سمجھا ئے لیکن جب امتحان ہو اور ذہین ولائق طالب عِلم اچّھے نمبر حاصل کرکے اوّل پوزیشن حاصل کرلے اور کندذہن طالب عِلم ناکام ہوجائے تو کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ لائق طالب عِلم اِس لیے کامیاب ہوا کہ استاد نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں اُس کے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ اوّل پوزیشن حاصل کرلے گا اور کندذہن اِس لیے فیل ہوا کہ اُس کے متعلق اُستاد نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ فیل وناکام ہوگا ۔
لہٰذا اِ س بے چارے کا کیا قصور اور گناہ ہے ؟یقینا سمجھدار انسان یہ نہیں کہے گا کہ اِس میں اُستاد کا قصور ہے ۔اِس لیے کہ اِس میں اُستاد کی غلطی نہیں کیونکہ وہ دونوں کو برابر سمجھا تا رہا کہ امتحان قریب ہیں ‘محنت کر لو وگرنہ فیل ہو جاؤ گے ۔اُستاد کی ہدایت کے مطابق وذہین طالب عِلم نے محنت کی اور نالائق وشریر طالب عِلم اپنی بُری عادات میں مشغول رہا اور اپنا وقت کھیل کود اور شرارتوں میں صرف کردیا۔

اِسی طرح اللہ تعالیٰ جس کا عِلم بلاشبہ پوری کائنات سے زیاد ہ اکمل واتم ہے ‘اُس سے کوئی چیز مخفی وپوشیدہ نہیں ‘اُس نے اپنے کامل عِلم کی بناء پر ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی لکھ دیا ہے کہ ے بدبخت ہوگا یا نیک بخت ؟جنتی ہوگایا جہنمی ؟مگر اِن سے اختیارات اور عقل وشعور سلب نہیں کرتا بلکہ اُن کی راہنمائی کرتے ہوئے اچھّے اور بُرے راستوں میں فرق اپنے انبیاء ورُسل علیہ السلام بھیج کرکرتا رہا ہے اور سلسلہ نبوت ختم ہوجانے کے بعد ورثتہ الانبیاء صالح علماء کے ذریعے کائنات میں آنہیں ایمان واعتقاد اور اعمالِ صالحہ کی دعوت دیتا ہے۔
کفرو شرک‘ معصیت اور گناہ سے منع کرتا ہے ۔جہنم کے عذاب اور حساب وکتاب اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈراتا ہے ۔اِن تمام احکامات کے باوجود جب کافر اپنے کفر اور طغیان پر اڑارہتا ہے ‘فاسق اپنے فسق وفجور سے توبہ نہیں کرتا تو اُس کے اِن بُرے اعمال پر اگر اللہ تعالیٰ اُس کو سزا دے تو اِس میں اعتراض کی کیا بات ہے ۔یہ توعین عدل وانصاف ہے اور اِس کے برخلاف نیک وبداور کافر ومومن سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا عین ظلم وناانصافی ہے ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu