Open Menu

Mehez Allah K Liye Mohabbat - Article No. 3454

Mehez Allah K Liye Mohabbat

محض اللہ کے لئے محبت - تحریر نمبر 3454

قیامت کے دن بہت سے انبیاء اور شہداء اللہ تعالیٰ سے ان کے خاص مقام قرب کی وجہ سے اُن پر رشک کریں گے

جمعہ 5 جون 2020

پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے خوش نصیب بھی ہیں جو نبی یا شہید تو نہیں ہیں‘ لیکن قیامت کے دن بہت سے انبیاء اور شہداء اللہ تعالیٰ سے ان کے خاص مقام قرب کی وجہ سے اُن پر رشک کریں گے “۔ صحابہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ! ہمیں بتلا دیجیے کہ وہ کون بندے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” وہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے بغیر کسی رشتہ اور قرابت کے‘ اور بغیر کسی مالی لین دین کے صرف روح خداوندی کی وجہ سے باہم محبت کی ۔
پس قسم ہے اللہ تعالیٰ کی ‘ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے (بلکہ سراسر نور ہوں گے) اور وہ نور کے منبروں پر ہوں گے‘اور عام انسانوں کو جس وقت خوف وہراس ہو گا اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے‘۔

(جاری ہے)

اور جس وقت عام انسان مبتلائے غم ہوں گے وہ اس وقت بے غم ہوں گے۔“ اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:”معلوم ہونا چاہیے کہ جو اللہ کے دوست (اور اس سے خاص تعلق رکھنے والے) ہیں‘ ان کو خوف وغم نہ ہو گا۔


والدین کو اولاد سے الفت ہوتی ہے اور اولاد کو ماں باپ کے ساتھ محبت ہوتی ہے ۔بھائی بہن بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔اسی طرح رشتہ داروں کے درمیان محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ فطری محبت ہے جو انسان کی سرشت میں رکھ دی گئی ہے ۔یہ وہ جبلی محبت ہے جو انسانوں کے علاوہ تمام جانداروں‘ چرندوں‘ پرندوں اور درندوں کے درمیان بھی موجود ہے ۔
ہر جانور اپنے بچوں سے محبت رکھتا ہے اور بچوں کو بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ محبت ہوتی ہے ۔یہ محبت جاندار مخلوق کی زندگی کے لئے ناگزیر ضرورت ہے اور ایک جبلی تقاضا ہے۔
ایک محبت وہ ہے جو کسی کے حسن سلوک‘ ہمدردی‘ خیر خواہی اور احسان کے نتیجے میں پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک شخص کسی کو خطرے سے نکا لتاہے یا مشکل میں اس کی مدد کرتا ہے یا اس کی کوئی مالی ضرورت پوری کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس محسن کے ساتھ محبت پیدا ہو جاتی ہے ۔
چنانچہ یہ محبت ایسی ہے جو نیکوں اور بُروں‘فاسقوں‘ فاجروں‘مشرکوں اور کافروں کے درمیان بھی پیدا ہو جاتی ہے ،یعنی کسی کا حسن سلوک دوسرے شخص کے اندر محبت بھرے جذبات کے ظہور کا سبب بن جاتا ہے ۔لیکن ایک محبت وہ ہے جس کا باعث نہ تو رشتہ داری کا تعلق ہے اور نہ ہی وہ کسی مالی مدد یا احسان کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے ۔یہ وہ محبت ہے جو محض اللہ کے دین سے تعلق سے پیدا ہوتی ہے ۔
اس محبت میں کسی کا احسان کار فرما نہیں ہوتا‘ بلکہ یہ تو کسی شخص کی نیک نفسی ‘زہدو ورع‘خدا ترسی ور للہیت سے متاثر ہو کر ظاہر ہوتی ہے ۔یہ پورے طور پر خلوص پر مبنی ہوتی ہے ۔ایسی محبت جو محض اللہ کی خاطر ہو ‘بڑی قابل قدر اور قیمتی شے ہے ۔ویسے تو ہر وہ عمل جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے کیا جائے ‘رب العالمین کی خوشنودی کا باعث اور بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت سے سر فراز ہوتا ہے ۔
مسند احمد کی ایک روایت میں ‘جس کے راوی حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ ہیں ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس بندے نے بھی اللہ کے لئے کسی بندے سے محبت کی اُس نے اپنے رب تعالیٰ ہی کی عظمت وتوقیر کی ۔یہ اس لئے کہ جس شخص کو معرفت حق حاصل ہو گی ،یعنی اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کی عظمت نقش ہو چکی ہو گی وہی شخص اس مقام پر پہنچ سکے گا جہاں وہ اللہ کے پیاروں کے ساتھ محبت کے جذبات سے سرشار ہو گا اور اس کا مطمح نظر محض اللہ کی رضا جوئی ہو گا۔

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” بندوں کے اعمال میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ محبت ہے جو اللہ کے لئے ہو اور وہ بغض وعداوت ہے جو اللہ کے لئے ہو“۔ (سنن ابی داؤد)
قرآن مجید میں ہے کہ ایمان والوں کو سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے ہے ‘اسی لیے جو لوگ محض اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں خالق کائنات بھی اُن سے محبت کرتا ہے ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میری محبت ان لوگوں کے لئے واجب ہے جو باہم میری وجہ سے محبت کریں اور میری وجہ اور میرے تعلق سے کہیں جڑ کر بیٹھیں اور میری وجہ سے باہم ملاقات کریں اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کریں۔(موطا امام مالک رحمة اللہ علیہ)۔
یہ اتنی بڑی بشارت ہے کہ جس بندے کو یہ مل جائے وہ اپنے مقدر پر جتنی بھی خوشی منائے کم ہے ‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو سب سے سچا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی زیر درس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اُن بندوں پر روز قیامت انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے جو آپس میں محض اللہ کی خاطر محبت کرتے ہوں گے ‘نہ ان کے درمیان رشتے ناتے کا تعلق ہو گا اور نہ ہی کوئی مالی لین دین کا معاملہ ہو گا۔
یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ حدیث کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ ان متحابین کا مقام جنت میں انبیاء و شہداء سے افضل ہو جائے گا ‘بلکہ ان لوگوں کو اتنا اونچا مقام ملے گا کہ انبیاء وشہداء بھی تعجب کریں گے کہ یہ لوگ اس قدر بلند درجے تک پہنچ گئے ہیں!
مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ کہاں ہیں میرے وہ بندے جو میری عظمت و جلال کی وجہ سے آپس میں الفت ومحبت رکھتے تھے ؟آج جبکہ میرے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہے‘میں اپنے ان بندوں کو اپنے عرش کے نیچے سایہ دوں گا۔

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن سات خوش نصیبوں کو قیامت کے دن عرش کا سایہ دینے کا وعدہ کیا ہے اُن میں ایک وہ بھی ہیں جو آپس میں اللہ کے لئے محبت کا تعلق رکھتے ہوں ۔قیامت کا دن وہ دن ہو گا جس دن سورج کی حرارت شدید ترین ہو گی اور دھوپ کی گرمی سے بچنے کے لئے کہیں کوئی سایہ نہ ہو گا اور ہر شخص پر انتہا درجے کا خوف طاری ہو گا۔
ان حالات میں متحابین کی کیفیت یہ ہو گی کہ ان کے چہرے منور ہوں گے ‘وہ نورانی منبروں پر بیٹھے ہوں گے ‘خوشگوار سائے سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور اُن سے کسی طرح کا کوئی غم اور حزن طاری نہ ہو گا۔ گویا یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید میں الفاظ آئے ہیں کہ :”یاد رہے کہ جو اللہ کے دوست (اور اس سے خاص تعلق رکھنے والے) ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ کو اپنے فرمانبردار ‘عبادت گزار اور بلند کردار لوگوں سے محبت ہے ۔پس جو لوگ ان قدسی صفات مردان حق کے ساتھ محبت رکھتے ہیں وہ اللہ کے محبوب بن جاتے ہیں‘کیونکہ دوست کا دوست بھی دوست ہوتاہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ:”ایک شخص اپنے ایک بھائی سے جو ایک دوسری بستی میں رہتا تھاملاقات کے لئے چلا‘ تو اللہ تعالیٰ نے اس راہ گزر پر ایک فرشتے کو منتظر بنا کر بٹھا دیا۔
( جب وہ شخص اس مقام سے گزرا ‘تو)فرشتے نے اُس سے پوچھا :تمہارا کہاں کا ارادہ ہے ؟اُس نے کہا :میں اس بستی میں رہنے والے اپنے ایک بھائی سے ملنے جا رہا ہوں ۔فرشتے نے کہا:کیا اس پر تمہارا کوئی احسان ہے‘اور کوئی حق نعمت ہے جس کو تم پورا اور پختہ کرنے کے لئے جا رہے ہو؟ اُس بندے نے کہا: نہیں! میرے جانے کا باعث اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کے لئے مجھے اس بھائی سے محبت ہے( یعنی بس اسی للہی محبت کے تعلق اور تقاضے سے میں اس کی زیارت اور ملاقات کے لئے جا رہا ہوں) فرشتے نے کہا کہ میں تمہیں بتایا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس یہ بتانے کے لئے بھیجا ہے کہ اللہ تم سے محبت کرتا ہے ‘جیسا کہ تم اللہ کے لئے اس کے اس بندے سے محبت کرتے ہو۔
“(صحیح مسلم)
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا!
جو شخص محض اللہ کی خاطر محبت کے جذبات لے کر اپنے مسلمان بھائی کو ملنے جا رہا تھا اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے اس کو اپنی محبت کی خوشخبری سنائی۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اللہ کے ساتھ محبت کے زبانی دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ‘محبت وہ ہے جس کے نتیجے میں اطاعت پیداہو ۔خدا کا محبوب بننے کے لئے اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت پر پورے ذوق وشوق کے ساتھ عمل کرنا ہی رضائے الٰہی کے مقام پر فائز ہونا ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu