Open Menu

Muashrti Insaf Or Is K Taqazay - Article No. 3072

Muashrti Insaf Or Is K Taqazay

معاشرتی انصاف اور اسکے تقاضے - تحریر نمبر 3072

اسلام میں عدل و انصاف انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی پہلوئوں پر مشتمل ہے جسکی 5 اہم اقسام ہیں۔

جمعرات 28 مارچ 2019

پیر سید ثقلین حیدر چوراہی
معاشرتی انصاف، قانونی انصاف، سیاسی انصاف ، معاشی انصاف، مذہبی انصاف کسی چیز کو برابر دو حصوں میں تقسیم کرنا عدل اور کسی چیز کا نصف انصاف کہلاتا ہے۔ عدل کرنے والے کو عادل اورانصاف کرنے والے کو منصف کہتے ہیں۔ عدل و انصاف کی ضِد ـ’’ظم و زیادتی ‘‘ ہے۔ معاشرتی انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو عدل و انصاف فراہم کیا جائے۔

اور کسی بھی فرد کی حق تلفی نہ ہونے دی جائے۔ انصاف کو اپنی مرضی اور پسند کے سانچے میں نہ ڈھالا جائے بلکہ جو اصول اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عطا فرمائے ہین اُن ضابطوں کو اپنایا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ تین اہم سبب انسانؤ کو اِنصاف سے روکتے ہیں۔

اولاً : اپنے عزیزوں یا پسند یافتگان کی طرف داری۔

(جاری ہے)



ثانیا ً : کسی دوسرے شخص کی عداوت یا دشمنی ۔



ثلاثتاً :مال و دولت کی شدید محبت اور طلب ۔

بلا شبہ عدل و انصاف حیات ِ انسانی کا راحتوں، مسرتوں ، شادابیوں اور سر شاریوں کا ضامن ہونے کے ساتھ ساتھ خاندان یا معاشرے کے استحکام پذیر اور پُر امن ہونے کا پیامبر بھی ہے۔ یہ دنیا میں بھی نیک نامی ، عزوشرف اور افتخار و وقار کا مظہر ہے اور آخرت میں بھی سرخروئی اور نجات کا ضامن ۔
جہاں انصاف اپنی رعنائیوں اور توانائیوں کے ساتھ مضبوط ہو گا وہاں خاندان خوشحال، قومیں آسودہ حال اور ملک امن و آشتی کا گہوارہ ہوں گے اور جہاں عدل و انصاف نہیں ہو گا حقداروں کو حق نہیں دیا جائے گا وہاں خاندان منتشر قومیں نا آسودہ اور ملک انتشار کا نشان بن کر رہ جائیں گے۔
قوموں کی تاریخ کا یہ انمٹ سبق ہے کہ رَب دھرتی پر کُفر و شرک تو برداشت کر تا ہے مگر ظلم زیادہ دیر برداشت نہیں کرتا ۔
عدل و انصاف کے حوالے سے انفرادی حوالے سے لے کر اجتماعی سطح تک ہمارا کردار کوئی زیادہ قابل ِ تعریف نہیں ہے۔ ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد سے حصہ دیتے ہوئے کتراتے ہیں۔ اگر دو بیویاں ہوں تو اُن میں انصاف نہیں کر سکتے۔
ہو سکتا ہے کہ آج قسمت کی دیوی ہم پر مہربان ہو۔ ماحول اور وقت ہمارا معاون و مددگار اور ہمارے لیے انتہائی سازگار ہو۔
مگر یہ ہر صاحب ِ شعور انسان جانتا ہے کہ موسم سدا ایک جیسے نہیں رہتے۔ وقت کی شاخیں سدا لذیز اور شیریں پھلوں سے نہیں لدی رہتیں۔ عشرت کدوں کو عبرت کدوں میں بدلتے دیر نہیں دلگتی۔
ہو سکتا ہے کہ آج آپ جس فیصلے کو دوسروں پر مسلط کررہے ہیں اور اپنے تئیں تمام تر ’’حفاظتی اقدامات ‘‘اور ’’قانونی تحفظات ‘‘کو مضبوط تر بنا چکے ہیں لیکن مکانات ِ عمل کو تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک پاتی، جب قدرت اپنے فیصلے سناتی ہے تو پھر اُن کی گونج آسمانوں میں سنائی دیتی ہے۔
کسی مظلوم کی آہ کو باریاب ہونے سے کہاں کوئی روک سکا ہے۔
عدل و انصاف کے حوالے سے زرایہ مضحکہ خیز رویہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ دنیا کا کوئی بھی حق تلفی یا حق غصب کرنے والا شخص اپنے آپ کو ظالم کہلوانا پسند نہیں کرتا۔ بلکہ وہ ظلم کرنے کے باوجود بھی ستائش و تعریف کا متمنی رہتا ہے۔ وہ مظلوم کے استحصال اور تذلیل کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

ہمارے اسی معاشرے میں مظلوم کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، دوسروں کی نظر میں اس کے مقام و مرتبہ کو کم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے کہا جاتا ہے کہ کوئی حق تلفی والے پر انگلی نہ اٹھائے اسکے ہر اقدام کو درست تصور کرے اور پھر کہیں مظلوم انصاف کے لیے اپنی آواز بلند نہ کرے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu