Open Menu

Nafli Ibadat K Bare Main Eheem Hidayat - Article No. 3391

Nafli Ibadat K Bare Main Eheem Hidayat

نفلی عبادات کے بارے میں اہم ہدایات - تحریر نمبر 3391

جمعہ کی رات کو قیام (نفلی عبادات اور تہجد وغیرہ) کے لئے مخصوص نہ کیا کرو اور نہ ہی جمعہ کے دن کو روزے کے لئے مخصوص کیا

پیر 27 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کی رات کو قیام (نفلی عبادات اور تہجد وغیرہ) کے لئے مخصوص نہ کیا کرو اور نہ ہی جمعہ کے دن کو روزے کے لئے مخصوص کیا کرو بجز اس صورت کے کہ جمعہ کا دن کسی ایسی تاریخ کو آجائے جب تم میں سے کوئی شخص اس میں روزہ رکھتا ہو۔
(رواہ مسلم)
سامعین ذی قدر! آج کی زیر مطالعہ حدیث مبارک کو دنیائے اسلام کے عظیم محدث امام مسلم رحمة اللہ علیہ اپنی شہرئہ آفاق کتاب”صحیح مسلم“ میں سیّدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔ اسی سے ملتی جلتی حدیث حضرت امام ترمذی رحمة اللہ علیہ اپنی سنن میں نقل کرکے ہم تک پہنچا چکے ہیں ۔

(جاری ہے)

مضمون اور مسئلہ دونوں احادیث مبارکہ میں تقریباً ایک ہی بیان فرمایا گیا ہے جب کہ آج کی حدیث میں چند الفاظ کا اضافہ بھی نوٹ کیا گیا ہے ۔

ارشاد گرامی کا مدعا یہ ہے کہ جمعة المبارک کا دن جو ہفتے کے سات دنوں میں”سید الایام“مانا گیا ہے حتیٰ کہ بعض روایات میں اسے عیدالفطر اور عید الاضحی کے دنوں سے بھی افضل دن قرار دیا گیا ہے اس سے متعلق ایک خصوصی ہدایت یہ دی جارہی ہے کہ نفلی عبادات کے لئے صرف جمعہ کی رات کو خاص مت کرو۔کوشش کروکہ ہفتے کی ساتوں راتوں میں نفلی عبادات کا اہتمام رہے ۔
نماز تہجد، تلاوت قرآن پاک،درود پاک ،استغفار اور اسی طرح ذکر اللہ پر مشتمل پاکیزہ کلمات طیبات جن کا احادیث مبارکہ میں کثرت سے تذکرہ کیا گیا ہے ہر رات کے کچھ حصہ کا معمول رہے ۔
یہ بڑی سعادت اور خوش بختی ہے اور صلحا امت کا شعار ہے ۔ایمان کی تقویت کا باعث ہے ۔خلوص اور للہیت کے حصول کا اعلیٰ ذریعہ ہے ۔جب یہ معمولات ہماری راتوں کو زندہ رکھنے کا وقیع حصہ ہوں گے تو شب جمعہ بھی ازخود اس میں شامل ہو جائے گی۔
اس کے لئے الگ سے تگ ودو کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کی روح بھی یہی ہے کہ جو صاحب ایمان اپنے قلب کا تزکیہ اور تصفیہ چاہتا ہے تو وہ محض ایک رات ہی کی تلاش میں نہ رہے بلکہ ہر رات کا کچھ حصہ اس اہم عمل کے لئے وقف کرے جس میں جمعہ کی رات بھی شامل ہے ۔یہ عمل اپنی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر تسلسل کا تقاضا کرتاہے ۔
حدیث پاک میں بین السطور اسی کی تلقین کی جارہی ہے ․․․․․دوسرا جزوحدیث مبارک کا یہ ہے کہ جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لئے بھی خاص مت کرو۔ کون نہیں جانتا کہ روزہ رکھنا اہم ترین عبادت ہے ۔احادیث میں فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کے فضائل بڑی کثرت سے ملتے ہیں۔ اور الحمد للہ اہل ایمان ان کی برکات سے غافل نہیں ہیں ۔
یہاں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اپنے امتی سے یہی فرمایا ہے کہ جمعہ کے بابرکت دن کا روزہ رکھنا چاہتے ہوتو پھر صرف ایک روزہ نہیں بلکہ اس سے آگے پیچھے ایک روزہ رکھ کر اس کا جوڑا بنادو۔
اگر دیکھا جائے تو اس ارشاد گرامی میں جمعہ کے دن کی اہمیت کو اور بڑھا دیا گیا ہے کہ جمعہ کے روزے کو اکیلا نہ کرو بلکہ اس کی تعظیم کے پیش نظر جمعرات کے دن کا یا ہفتے کے دن کا روزہ بھی رکھ لو۔ یہ بات اس عظیم دن کے پروٹوکول اور عظمت کی ہے کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد ایک ایک دن کو ملا لوتا کہ درمیان والے دن کا مقام ومرتبہ واضح ہو ۔سو ایک پہلو سہولت کا ہے تو دوسرا عظمت وتوقیر کا ہے ۔
سبحان اللہ وبحمدہ ،سبحان اللہ العظیم۔ یہی اعجاز اور حُسن ہے اُس شریعت مطہرہ کا جسے خالق کائنات جل مجدہ نے ہمارے لئے پسند فرمایا ہے اور جس کی تشریح کا عملی نمونہ رحمة للعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے ۔مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص ہر مہینے میں کچھ نفلی روزے مثلاً ایام بیض کے روزے رکھتاہے اور ان میں جمعہ کا دن بھی آجاتا ہے تو یہ روزہ وہ رکھے کہ یہ تخصیص جمعہ نہیں ہے۔

سامعین گرامی قدر!آخر میں ہم آپ کی توجہ ایک اہم نکتہ کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے ،اور وہ یہ ہے کہ جمعة المبارک کے دن کے حوالے سے اوپر ذکر کی گئیں دونوں صورتوں کا تعلق نفلی عبادت سے ہے ۔رات کا قیام یا دن کا روزہ دونوں نفلی عبادت ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کا اہتمام کرنے کی ممانعت فرمائی ہے ۔نکتہ اس میں یہ ہے کہ نفل عبادات کے مقابلہ میں فرض عبادات محدود ہیں ۔
ان کا ایک مقرر اور متعین نصاب اور نظام ہے ۔ان میں کمی بیشی کا کوئی شائبہ نہیں ہے ۔مگر نفلی عبادات کی کوئی حد نہیں ہے ۔اور عموماً یہ بات
دیکھی گئی ہے کہ انسان نفلی اور مباح کاموں میں زیادہ دلچسپی رکھتاہے ۔اور بالعموم افراط وتفریط یا غُلوفی الدین انسانی زندگی میں ایسے ہی کاموں کے ذریعے داخل ہوتے ہیں۔اور ایک موقع ایسا آجاتاہے کہ شیطانی اکساہٹوں کی وجہ سے فرائض سے توجہ ہٹنا شروع ہوجاتی ہے اور مباح کاموں کا اہتمام پورے زور وشور سے شروع ہو جاتاہے ۔
اور انہی مباحات سے خلاف شرع امور بھی شیطانی تزئین وآرائش کی وجہ سے انسانی کشش کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔پھر معروف ومنکر کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور بند ہ انہی کا بندہ بن کر رہ جاتاہے ۔سنت پیچھے چلی جاتی ہے اور بدعات ورسومات دین کا روپ دھار لیتی ہیں ۔
جن کے نتائج وعواقب اس قدر خوفناک اور بھیانک ہوتے ہیں کہ دین بھی ہاتھ سے نکل جاتاہے اور دنیا بھی نہیں سنورتی ۔
خسر الدنیا والاخرة کاربانی فیصلہ صادر ہو جاتاہے ۔اسی لئے تو حضرت بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ اور دیگر علماء تصوف فرما گئے ہیں کہ اگر کوئی شخص پانی پر چوکڑی مار کر بیٹھ جائے یا ہوا میں پرندوں کی طرح اڑنا شروع کر دے اور اتباع سنت نام کی کوئی چیز اس کی زندگی میں نظر نہ آئے تو سمجھ لو کہ یہ گمراہ آدمی ہے اور جو کچھ اس سے صادر ہو رہا ہے جسے نا سمجھ لوگ کر امت سمجھتے ہیں ،یہ سب استدراج ہے اور اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے اور کسی بھی وقت اس کی ڈھیلی رسی کھینچ لی جائے گی۔
اصل دین تو استقامت علی الدین ہے ۔سچ ہے کہ الاستقامة فوق الکرامة ۔دین میں تکلفات اور ناروا پابندیوں اور مشکل پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔آج کی زیر مطالعہ حدیث اس کی ایک جھلک ہے اور بڑی چشم کشا ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعاء پر ہم اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہیں کہ۔ اے اللہ جب تک آپ مجھے زندہ رکھیں مجھ پر رحم فرما کہ میں سب گناہ چھوڑ دوں ،نیز مجھ پر رحم فرما کہ میں لا یعنی کاموں کو کرنے کے تکلف میں نہ پڑجاؤں اور مجھے ایسے اعمال میں حسن نظر سے نواز دے جو آپ کو مجھ سے راضی کر دیں ۔آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu