Open Menu

Nasir-Al-Din Tusi - Article No. 3507

Nasir-Al-Din Tusi

نصیر الدین طوسی - تحریر نمبر 3507

الطوسی اسلامی دانشورانہ تاریخ میں ایک مشہور و معروف اور متاثر کن ہستی کی حیثیت کے حامل ہیں

منگل 13 اکتوبر 2020

مسعود مفتی
الطوسی اسلامی دانشورانہ تاریخ میں ایک مشہور و معروف اور متاثر کن ہستی کی حیثیت کے حامل ہیں ۔وہ ایک فلاسفر ہونے کے علاوہ علم فلکیات کے ماہر بھی تھے ۔ایک ریاضی دان بھی تھے اور علم بخوم کے ماہر بھی تھے ۔انہوں نے سائنسی موضوعات پر کئی ایک مقالے بھی تحریر کیے تھے ۔بیس برس کی عمر تا پچاس برس کی عمر انہوں نے کو ہستان(Quhistan) کے گورنر نصیر الدین منصور کی خدمات سر انجام دی تھیں ۔
منگولوں نے جب ہلاکو خان کی سر براہی میں اس قلعے کو تباہی و بربادی سے ہمکنارکیا تب انہوں نے منگولوں کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور ہلاکو خان کا اعتماد حاصل کیا ۔انہوں نے ایک نجومی کی حیثیت سے منگولوں کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور ہلاکو خان کا اعتماد حاصل کیا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے مراغا (Maragha) میں منگول مشاہدہ گاہ قائم کی ۔(اس وقت آذربائیجان کا شمال،مغربی صوبہ تھا)اپنی زندگی کے آخری ایام کے دوران وہ صوفی ازم کی جانب راغب ہوئے تھے ۔

انہوں نے بغداد (عراق)میں وفات پائی تھی ۔وہ ایک عالم فاضل شیعہ عالم دین تھے ۔ وہ اسلامی مسائل پر غیر اسلامی فلسفیانہ آئیڈیاز کا اطلاق کرتے ہیں ۔ان کے بہت سے ہم عصروں میں سے سعدی نے سیاحت میں عافیت جانی جبکہ دیگر نے مثلاً جلال الدین رومی ۔انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر صوفیانہ زندگی کی نذر کر دیا ۔الطوسی نے مابعد ہلاکو خان کے ساتھ شامل ہونے کے اپنے عذارانہ فعل اور اپنے ہی بہی خواہ نصیر الدین عبدالرحیم منصور(وفات 1257ء بعد از مسیح) ۔
سنی خلیفہ جنہوں نے اسے تحفظ عطا کیا تھا کو ہلاک کرنے کے بارے میں اپنے دفاع میں جو الفاظ کہے تھے وہ سنجیدہ یا غیر سنجیدہ بھی ہو سکتے ہیں ۔وہ موقع پرست ہونے کے علاوہ ریاکاری کا بھی سہارا لیتے تھے ۔
انہوں نے فروری 1201ء(جمادی الاول 597ہجری) میں طوس میں جنم لیا تھا ۔الطوسی محمد ابن الحسن عام طور پر خواجہ نصیر الدین الطوسی یا خواجہ نصیر کے نام سے جانے جاتے تھے ۔
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم طوسی میں ہی اپنے والد محمد ابن الحسن کی زیر نگرانی حاصل کی ۔جو ایک نامور شٹی(Shiite) ماہر قانون تھے ۔انہوں نے مذہبی سائنسوں اور دانشورانہ سائنس کے عناصر کا مطالعہ اپنے والد کے ساتھ سر انجام دیا تھا ۔جو طوس میں شیعہ ازم کے بارہ اماموں کے نظریے کے ماہر قانون تھے ۔انہوں نے فطری فلسفہ․․․․․مابعد الطبیعات اور منطق کی تعلیم اپنے ماموں سے حاصل کی تھی اور الجبرا اور جیو میٹری کی تعلیم بھی حاصل کی تھی ۔
جلد ہی الطوسی کی شہرت ایک غیر معمولی مفکر کی حیثیت سے پھیل چکی تھی ۔فرید الدین داماد(Damad) ان کے استاد تھے اور طوسی نے ان سے فلسفے کی تعلیم حاصل کی تھی ۔قطب الدین مصری جو بذات خود فخر الدین رازی (1148ء تا1201ء)کے بہترین طالب علم تھے ۔الطوسی نے ان سے طب کی تعلیم حاصل کی ۔انہوں نے کمال الدین ابن یونس (1145تا1242بعد از مسیح)سے ریاضی کی تعلیم حاصل کی ۔
وہ ابو علی سینا کی تحریروں کے ایک نمایاں طالب علم تھے ۔
جس ابتدائی دور سے وہ گزرے تھے وہ دور اسلامی تاریخ کا نازک ترین دور تھا ۔منگول وسطی ایشیا سے خراساں کی جانب بڑھ رہے تھے ۔لہٰذا گرچہ الطوسی ایک مشہور مفکر تھے لیکن وہ کوئی مناسب حیثیت حاصل نہ کر سکے تھے جو مفکرانہ زندگی کے لئے ناگزیر تھی ۔اس دور میں خراساں میں اگر کوئی امن کا جزیرہ تھا تو وہ اسماعیلی قلعے اور پہاڑوں کے مضبوط سلسلے تھے اور انہیں یہ پیش کش کی گئی کہ وہ اسماعیلی حکمران کے تحفظ کے سائے تلے آجائیں ۔
اسماعیلی جس کا نام نصیر الدین عبدالرحیم المنصور موہاتا شامی(Muhata Shami) تھا(وفات 655 الہجری1257/بعد از مسیح)الطوسی نے یہ پیش کش قبول کر لی اور کوہستان(Quhistan) قلعہ چلے آئے جہاں پر عزت و احترام کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا اور انہیں اسماعیلی دربار میں توقیر بخشی گئی ۔نصیر الدین عبدالرحیم ایک عالم فاضل اسماعیل لیڈر تھے جو در حقیقت ایک کتاب تحریر کرنا چاہتے تھے ۔
اخلاق موہاتا شامی (Akhlaq-MohtaShami) اور انہوں نے اس کتاب کے مواد کا مختصر خاکہ تیار کر رکھا تھا اور اس کے ابو اب کی ترتیب بھی تیار کر رکھی تھی ۔اس کتاب کا آغاز قرآنی آیات سے ہوتا تھا اور قدیم دانشوروں اور فلاسفروں کے فرمودات کی روشنی میں اس کتاب کا اختتام ہوتا تھا لیکن انتظامی ذمہ داریوں کی بنا پر وہ اپنی اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر تھا اور اس نے طوسی کو یہ ہدایت کی کہ وہ اس کتاب کے سلسلے میں جو کچھ بھی سر انجام دے چکا تھا وہ دیگر حوالوں کے تحت اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔
اسماعیلی لیڈر(خیر الدین عبدالرحیم منصور)نے طوسی کو حتمی مواد میں شامل کرنے کے لئے کسی قدر مواد تحریر بھی کر دیا تھا ۔
جب کوہستان(Quhistan)کے گورنر کو ہلاکو خان کے منگول حملے کا سامنا کرنا پڑا ۔(1257بعد از مسیح )تب الطوسی دیگر بہت سے شٹی (Shiite) مسلمانوں کی مانند منگولوں کے ساتھ مل گیا اور ان لوگوں نے سنی خلیفہ نصیر الدین عبدالرحیم کو ہلاک کرنے کے سلسلے میں منگولوں کی معاونت سر انجام دی اور اسلامی سر زمین اور ثقافت کا کنٹرول سنبھالنے میں بھی منگولوں کی معاونت سر انجام دی الطوسی جس نے کتاب نصیر الدین عبدالرحیم منصور کے نام منسوب کی تھی ۔
جو خلیفہ وقت تھا ۔اس نے اس انتساب کو پھاڑ ڈالا اور اسے دوبارہ تحریر کیا اور ہلاکو خان کے نام منسوب کیا ۔الطوسی ایک عظیم مفکر تو ہو سکتا ہے لیکن اس نے جس غدارانہ انداز میں اپنی بہی خواہ اور اپنے محسن عبدالرحیم المنصور کو ہلاک کیا تھا وہ انداز اسے منافق اور موقع پرست ثابت کرتا ہے ۔
تحریری کام
نصیر الدین الطوسی کے تقریباً 150مقالے اور خطوط ایسے ہیں جن کے بارے میں علم ہے ۔
ان میں سے 25فارسی اور بقایا عربی زبان میں ہیں ۔انہوں نے ایک مقالہ عربی ،فارسی اور ترکی زبان میں بھی تحریر کیا تھا اور مظاہرہ کیا تھا کہ انہیں تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔کہا جاتا ہے کہ وہ یونانی زبان بھی جانتے تھے ان کی تحریریں تقریباً تمام تر اسلامی سائنسوں کی شاخوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ان دونوں میں سے ابن سینا ایک بہترین معالج تھے جبکہ الطوسی ایک بہترین ریاضی دان تھے اور فارسی زبان کے بہترین لکھاری تھے ۔
الطوسی نے منطق کے موضوع پر بھی پانچ تحریریں پیش کیں ۔ان میں اساس الاقتباس جو کہ فارسی میں تحریر کی گئی تھی بے حد اہمیت کی حامل ہے فلسفہ․․․․․اخلاقیات ․․․․اور علم دین کے میدان میں الطوسی نے ابن سینا کی کتاب الاسرار ولتنبیہات پر تبصرہ پیش کیا ۔اس کے علاوہ اخلاق نصیری پیش کی جو فارسی زبان میں اس میدان میں بہترین کاوش تصور کی جاتی ہے ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu