Open Menu

Rasool Allah Saw Ki Hakeemana Naseehatain - Article No. 3466

Rasool Allah Saw Ki Hakeemana Naseehatain

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکیمانہ نصیحتیں - تحریر نمبر 3466

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو اسلام سکھایا اور پھر اُن کی تربیت کرکے انہیں اچھا انسان بنایا۔

بدھ 1 جولائی 2020

”حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘انہوں نے فرمایا کہ مجھے میرے محبوب دوست (صلی اللہ علیہ وسلم)نے سات باتوں کا خاص طور سے حکم فرمایا ہے۔مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے مساکین اور غرباء سے محبت رکھنے کا اور ان سے قریب رہنے کا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے کہ دنیا میں ان لوگوں پر نظر رکھوں جو مجھ سے نچلے درجہ کے ہیں اور اُن پر نظر نہ کروں جو مجھ سے اُوپر کے درجہ کے ہیں۔
(آگے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ)اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ میں اپنے اہل قرابت کے ساتھ صلہ رحمی کروں اور قرابتی رشتہ داروں کو جوڑوں اگر چہ وہ میرے ساتھ ایسا نہ کریں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ کسی آدمی سے کوئی چیز نہ مانگوں۔

(جاری ہے)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ میں ہر موقع پر حق بات کہوں‘اگر چہ وہ لوگوں کے لئے کڑوی ہو۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ میں کلمہ کثرت سے پڑھا کروں‘کیونکہ یہ سب باتیں اُس خزانے سے ہیں جو عرش کے نیچے ہے۔“
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے صحابہ میں سے تھے۔
اُن کا شمار سابقون الاولون میں ہوتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔جب وہ مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے انہی کو مخاطب فرماتے۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر تھے اور انہیں خلیل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف معلم ہی نہ تھے بلکہ مربی بھی تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو اسلام سکھایا اور پھر اُن کی تربیت کرکے انہیں اچھا انسان بنایا۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت ہی تھی جس نے عرب کے ناشائستہ لوگوں کو اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا۔حدیث زیر درس میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا خاص طور پر حکم دیا۔
پہلی بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمائی وہ یہ ہے کہ میں مساکین اور مفلس لوگوں سے محبت رکھوں۔عام طور پر مسکین اور غریب لوگوں کو معاشرہ میں کم درجہ کے افراد سمجھا جاتا ہے‘دوسرے لوگ ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور نہ اُن کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے رزق کی فراخی نہیں دی اور رزق کی فراخی کسی شخص کے اچھا اور معزز ہونے کی علامت نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے کہ مفلس لوگ حقیر نہیں ہوتے۔اگر وہ احکام الٰہی کی پابندی کرنے والے اور قناعت پسند ہیں تو وہ مال داروں سے اچھے ہیں‘کیونکہ دولت مند لوگ مال خرچ کرنے میں عموماً بخل سے کام لیتے ہیں یا مال نا جائز کاموں میں خرچ کرتے ہیں اور برتری کے زعم میں مبتلا ہو کر مسکین اور غریب افراد کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں‘اور یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔
غریب اور مسکین لوگوں کے ساتھ نشست وبرخاست اور میل جول رکھنے سے انسان عجب وتکبر سے بچ جاتا ہے اور اسے اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق ارزاں ہوتی ہے۔
دوسری بات جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی وہ یہ ہے کہ میں اُن لوگوں پر نظر رکھوں جو مجھ سے نیچے درجہ میں ہیں‘یعنی جن کے پاس دُنیوی زندگی کا سامان مجھ سے کم ہے اور ان پر نظر نہ کروں جن کی مالی حالت مجھ سے اچھی ہے۔
ظاہر ہے کہ اگر آدمی اپنے سے کمتر حیثیت کے لوگوں کو دیکھے گا تو اُس میں شکر کے جذبات پیدا ہوں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سے زیادہ مالدار لوگوں کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘کیونکہ امیروں کی طرف دیکھ کر حسرت پیدا ہو گی‘احساس کمتری پیدا ہو گا اور موجود نعمتوں پر شکر گزاری کی توفیق نہ ہو گی‘بلکہ کثرت کی خواہش پیدا ہوگی جو ذہنی سکون اور اطمینان کو غارت کردے گی۔
مزید کے حصول میں لگ کر بندہ نا جائز ذرائع اور وسائل کی طرف لپکتا ہے۔بیوی بچوں کی طرف سے سہولیات کے مطالبات پر وہ سوچوں میں گم رہنے لگتا ہے اور آسانی کے ساتھ شیطان کے دھوکے میں آکر حصول دولت کے نا جائز طریقوں سے ملوث ہونے لگتاہے‘اس طرح لالچ میں آگے بڑھتے بڑھتے وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کا واپس مڑنا ممکن نہیں رہتا۔اس ساری برائی کا تدارک پہ ہے کہ انسان راضی برضائے رب کے جذبات کے ساتھ جو میسر ہو اس پر قناعت کرے اور دوسروں کی عیاشیاں اور محلات دیکھ کر افسردہ نہ ہو۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تیسری بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمائی وہ یہ ہے کہ میں اپنے اہل قرابت کے ساتھ صلہ رحمی کروں‘یعنی قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تعلق جوڑ کر رکھوں اگر چہ وہ مجھ سے ناطہ توڑیں۔عام طور پر رشتہ داروں میں شکر رنجیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو طول پکڑ لیں تو عداوت تک پہنچ جاتی ہیں۔حالانکہ اپنے عزیز و اقارب کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کرکے قرابت داری کے تعلق کو قائم رکھنا ضروری ہے۔
رشتہ داری کا تعلق خدا کا پیدا کردہ ہے‘اس کو کمزور کرنے کی بجائے مضبوط کرنا چاہیے۔قرآن مجید میں بار بار صلہ رحمی کی تلقین کی گئی ہے اور حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ اگر عزیز و اقارب اچھا سلوک نہ بھی کریں تو بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قطع رحمی کرنے والا یعنی قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تعلق توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
جو شخص قرابت داروں کے ساتھ تعلقات توڑتا ہے گویا وہ خدائی فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کا مرتکب ہوتا ہے۔عزیز و اقارب میں جو غریب ہوں ان کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی بجائے اُن کی مدد کرنی چاہیے۔اسی طرح غریب اور تنگ دست رشتہ داروں کو چاہیے کہ وہ اپنے خوشحال بھائی بندوں سے حسد نہ کریں اور نہ اُن کے لئے زوال نعمت کی تمنا کریں‘بلکہ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے دین ودنیا کی بھلائیوں کا سوال کریں۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ چوتھی بات جو میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمائی وہ یہ ہے کہ میں کسی شخص سے کوئی چیز نہ مانگوں‘یعنی ضرورت کی ہر چیز کا سوال اللہ تعالیٰ سے کروں۔دوسروں سے مانگیں تو نہ ملنے پر شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے قناعت ‘سادگی اور خود انحصاری کا سبق ملتا ہے جو انسان کو باوقار اور خود دار رکھتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کا یہ اثر تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے اگر کسی گھڑ سوار کا چابک نیچے گر جاتا تو وہ اس بات سے گریز کرتا کہ کسی دوسرے کو کہے کہ وہ اسے اٹھا کر دے دے‘بلکہ وہ بہتر سمجھتا کہ خود گھوڑے سے اتر کر اپنا چابک پکڑے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اپنی حاجت کے لئے اللہ تعالیٰ سے سوال کرو‘اگر جوتے کا تسمہ بھی مانگنا ہوتو اللہ سے مانگو‘اس سے توکل اور راضی برضائے رب کی نعمتیں میسر آتی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی سواری پر جار ہے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جب تو کسی چیز کو مانگنا چاہے تو بس اللہ سے مانگ اور جب کسی ضرورت اور مہم میں تو مددکا محتاج اور طالب ہو تو اللہ ہی سے امداد اور اعانت طلب کر۔(جامع ترمذی)کسی مخلوق سے سوال کرنا اور مدد مانگنا نری نادانی اور گمراہی ہے۔
اللہ کی مشیت کے بغیر انسان کو کسی طرف سے خیر یا بھلائی نہیں مل سکتی اور نہ اُس کی کوئی حاجت پوری ہو سکتی ہے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پانچویں بات جو مجھے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی وہ یہ ہے کہ میں ہر موقع پر حق بات کہوں اگر چہ وہ لوگوں کو کڑوی لگے۔لوگوں کو تو وہ بات پسند آتی ہے جو ان کے مزاج اور خواہش کے مطابق ہو۔
سچی بات جب خواہش سے ٹکرائے گی تو نا پسند لگے گی‘مگر ایک مسلمان بندے کو حق گوئی ہی زیب دیتی ہے۔لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر حق کو چھپانا اور لگی لپٹی باتیں کرنا گناہ کا کام ہے‘صاف گوئی مردان حق کا شیوہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے“۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر یہاں تک عمل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے متعلق فرمایا:”آسمان کسی ایسے شخص پر سایہ فگن نہیں ہوا اور زمین نے کسی ایسے شخص کو کندھوں پر نہیں اٹھایا جو ابو ذر رضی اللہ عنہ سے زیادہ سچی زبان رکھتا ہو“۔
امیر معاویہ شام کے گورنر تھے‘وہ اپنا محل تعمیر کروا رہے تھے‘حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا:”اگر اس محل کی تعمیر اللہ کے مال سے ہو رہی ہے تو خیانت ہے اور اگر اس پر اپنا مال خرچ کر رہے ہو تو یہ اسراف ہے“۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چھٹا حکم یہ دیا کہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں۔
یعنی دنیا والے اگر چہ مجھے برا کہیں لیکن میں وہی کہوں اور وہی کروں جو اللہ کا حکم ہو اور جس سے اللہ راضی ہو اور کسی کے برابھلا کہنے کی مطلق پر واہ نہ کروں۔اس طرز عمل کو ثابت قدمی اور پامردی کہتے ہیں۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں انتہائی دلیر اور بے باک تھے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آخری بات جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر مجھے حکم دیا وہ یہ تھی کہ میں کثرت سے کلمہ پڑھتا رہوں‘کیونکہ یہ کلمہ اس خزانے سے آیا ہے جو عرش کے نیچے ہے اور یہ وہ خزانہ ہے جہاں تک کسی کی دسترس نہیں ۔
یہاں کی متاع بے بہا اللہ تعالیٰ جن بندوں کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے ۔اس کلمے کا مفہوم یہ ہے کہ گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کی قوت بس اللہ ہی کی تو فیق سے بندے کو ملتی ہے۔یعنی اگر اللہ کا فضل اور اس کی توفیق شامل حال نہ ہوتو بندہ نہ تو گناہ سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی نیک اعمال کر سکتا ہے ۔اگر اس حقیقت پر نظر رہے تو بندہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے دست بدعا رہے گا اور اُس سے توفیق اور فضل مانگتارہے گا تاکہ برائی سے بچ سکے اور نیکی کرسکے۔
اس کلمے کا مطلب سمجھ کر اس کا ورد کرنے والا نیکی کرنے کو اپنا کمال نہیں سمجھے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہو گا جس نے اُسے اچھی توفیق دی۔
اور اسی طرح گناہ سے بچے گا تو بھی خالق ومالک کا شکر ادا کرے گا کہ اُس نے اُسے گناہ سے بچا لیا۔عقیدہ اور عمل کی اصلاح کے لئے اس کلمے کا ورد اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:کیا میں تم کو وہ کلمہ بتاؤں جو عرش کے نیچے سے اترا ہے اور خزانہ جنت میں سے ہے۔
وہ کلمہ ہے جب بندہ دل سے یہ کلمہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بندہ(اپنی انانیت یس دستبر دار ہو کر)میرا تابع فرمان ہو گیا ہے۔بعض اہل علم وتقویٰ کا کہنا ہے کہ قلب ونفس کی جلی اور خفی کدورتوں کو دور کرنے میں اس کلمے کی خاص تاثیر ہے۔چنانچہ اصلاح نفس کے لئے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اس کے مطلب کا فہم حاصل کرکے خلوص نیت کے ساتھ اس کلمے کو ورد زبان رکھے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu