Open Menu

Rasool SAW Ki 3 Hidayat - Article No. 3318

Rasool SAW Ki 3 Hidayat

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین ہدایات - تحریر نمبر 3318

”تم اپنے گھروں کو قبریں نہ بنالو ‘اور میری قبر کو میلہ نہ بنا لینا‘ہاں مجھ پر صلوٰة بھیجا کرنا‘تم جہاں بھی ہو گے مجھے تمہاری صلوٰة پہنچے گی۔“

جمعرات 20 فروری 2020

پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”تم اپنے گھروں کو قبریں نہ بنالو ‘اور میری قبر کو میلہ نہ بنا لینا‘ہاں مجھ پر صلوٰة بھیجا کرنا‘تم جہاں بھی ہو گے مجھے تمہاری صلوٰة پہنچے گی۔“
اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں جو فتح خیبر 7ھ میں ایمان لائے۔
اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رفاقت کا زمانہ تین ساڑھے تین سال کا ہے ۔قبول اسلام کے بعد وہ ہمہ وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور ان کی واحد دلچسپی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرنا تھی۔اس راستے میں انہوں نے شدید بھوک‘پیاس اور مسلسل فاقے برداشت کیے۔

(جاری ہے)

اس عزیمت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خصوصی دعاؤں سے نوازا ۔

اگر چہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں بہت تھوڑا وقت گزارا مگر ان کی مرویات کی تعداد کتب احادیث میں سب سے زیادہ ہے ۔دوسرے جلیل القدر صحابہ اس خوف کے پیش نظر حدیث نہیں بیان کرتے تھے کہ کہیں الفاظ میں کمی بیشی نہ ہو جائے‘چنانچہ وہ صرف وہی احادیث بیان کرتے تھے جن کے متعلق انہیں اپنے حافظے پر پورا یقین ہوتا تھا۔
مگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنے حافظے پر پورا اعتماد تھا۔اس سلسلہ میں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حافظے کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی چادر پھیلاؤ۔میں نے چادر پھیلا دی۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پڑھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے میں نے چادر کو سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔
اس دن کے بعد سے میں کبھی آپ کی کوئی بات نہیں بھولا۔یہی میری کثرت روایت کا سبب ہے۔ اس جاں نثار اور فدا کار صحابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بڑی محبت تھی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بلی تھی جسے وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی گود میں بلی دیکھی تو پیار سے انہیں ابو ہریرہ (بلی کا باپ)فرمادیا۔
پس آپ کا دیا ہوا یہ نام ایسا مشہورو مقبول ہوا کہ ان کے اصل نام عبدالرحمن بن صخر کی جگہ اس کنیت نے لے لی۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ پہلی یہ کہ تم اپنے گھروں کو قبریں نہ بنانا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں کو اللہ کے ذکر سے معمور رکھنا۔ تلاوت قرآن اور نماز سب سے بڑاذکر ہیں۔ قبرستان میں تو فوت شدہ لوگ ہوتے ہیں جو اس دارالعمل سے کوچ کر کے دار الآخرت میں پہنچ گئے ہیں۔
اب وہ ہاں نہ ذکر اذکار کر سکتے ہیں اور نہ نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ پس جس گھر میں اللہ کا ذکر اور نماز کا اہتمام نہیں ہوتا وہ قبرستان کی ایک قبر کی مانند ہے۔ اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ذکراذکارکریں اور نماز پڑھیں۔ فرض نمازیں تو بہر حال مسجد میں جا کر باجماعت ادا کرنا لازم ہے‘ لیکن سنن ونوافل گھروں میں ادا کرنے افضل ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا معمول یہ تھا کہ وہ فرضوں سے پہلے کی سنتیں گھروں میں ادا کرتے تھے اور فرض کی ادائیگی کے لئے مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔فرضوں کے بعد کی سنتیں بھی اپنے گھروں میں ادا کرتے ۔ چونکہ نفلی نمازوں میں اخفا پسندیدہ ہے اس لئے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر ان کا پڑھنا بہتر ہے تاکہ ان میں ریاکاذرہ بھی شامل نہ ہواور یہ عبادت خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے ہوجائے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ہدایت یہ ہے کہ میری قبر کو عید نہ بنانا۔ یعنی جس طرح لوگ سال کے کسی معین دن عرس اور میلے کا اہتمام کرتے ہیں اس طرح کا کوئی میلہ یا عرس میری قبر پر منعقد نہ کرنا۔ عید وہ دن ہے جو سال میں ایک مقررہ تاریخ کو آتا ہے اور اس دن خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عید اور عرس کا مفہوم ایک ہی ہے۔ آج عرس کے نام پر جو تقریبات منعقد ہوتی ہیں ‘ قبروں پر میلے لگتے ہیں‘ قبروں کا طواف کیاجاتا ہے ‘ وہاں نذرونیاز اور منتیں مانی جاتی ہیں اور دوسری غیر سنجیدہ خرافات دیکھنے میں آتی ہیں ان کی اسلام جیسے دین حق میں کوئی گنجائش نہیں۔
البتہ قبرستان کی زیارت اور وہاں مدفون لوگوں کے حق میں دعائے مغفرت کی تلقین ضرور ہے۔ یہ بات جہاں فوت شدگان کے لیے انتہائی مفید ہے وہاں زائرین کے لیے بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ نیز مسنون طریقہ سے زیارت قبور موت کی یاد دلاتی ‘ نیک عمل کا داعیہ پیدا کرتی اور گناہوں سے دور رہنے کا سبق دیتی ہے۔
تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ مجھ پر درود پڑھا کرو۔
درود مسلمان کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے محسن ہیں ‘ ان کی وجہ سے آج ہم مسلمان ہیں۔ اسلام بہت بڑی نعمت ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین ومذہب اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں۔ اللہ کا پسندیدہ اور مقبول دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعے ہمیں ملا ہے۔ تو اس احسان کے بدلہ میں ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اللہ کے حضوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں دعا گوہوں۔
اسی دعا کا نام درود ہے۔ درودشریف کے الفاظ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو سکھا دیے۔ تھوڑے تھوڑے الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ درودشریف کتب احادیث میں منقول ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ فضلیت درودابراہیمی کی ہے جو نماز میں شامل کیا گیا ہے ۔ پھر درود شریف کے فوائد میں ایک تو یہ ہے کہ اُمتی درود پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اللہ سے رحمت کی دعا کرتا ہے‘ جو بڑی فضلیت کی بات اور کسی حدتک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کا اعتراف واقرار ہے۔
دوسرے درود پڑھنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عظیم اجروثواب کی خوشخبری سنائی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”میرا جو اُمتی خلوص دل سے مجھ پر صلوٰة بھیجے اللہ تعالیٰ اُس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے‘ اُس کے دس گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کردیتا ہے۔

گویا درود شریف ایسا وظیفہ ہے جونیکیوں میں اضافے اور گناہوں کو مٹانے کا سبب ثابت ہوتا ہے۔ ہر اہل ایمان چاہے جتنا بھی نیکو کار اور متقی ہو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بموجب اپنے اعمال کے بل بوتے پر جنت میں نہیں جاسکتا۔ چنانچہ ہر اُمتی کو بخشش اور مغفرت کے لئے اللہ کی رحمت کی حاجت ہے اور اُس کی یہ ضرورت درودشریف پڑھنے سے پوری ہورہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر نماز کے آخری قعدے میں درودپڑھنا مقرر کردیا گیا ہے کہ اللہ کے اس کے فضل وکرم سے ہر نماز پڑھنے والا مستفید ہوسکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درود شریف کے ساتھ خصوصی تعلق واضح ہے۔ لہٰذا کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاص قرب نصیب ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قیامت کے دن مجھ سے قریب ترین میرا وہ اُمتی ہوگا جو مجھ پر زیادہ صلوٰة بھیجنے والا ہوگا۔

درودشریف وہ وظیفہ ہے جس کے لئے کوئی وقت اور جگہ مقرر نہیں۔ ہر اُمتی اپنے حالات اور مصروفیت کے مطابق درود شریف کے لئے وقت مقرر کرسکتا ہے۔ جب بھی اور جہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کا اُمتی درودشریف پڑھے گا اُس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دی جاتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے اُس کو میں سنتا ہوں اور جو شخص درود سے مجھ پر درود بھیجے وہ میرے پاس پہنچایا جاتا ہے۔

بعض روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک درود شریف پہنچانے والا فرشتہ صلوٰة سلام بھیجنے والے اُمتی کا نام اس کی ولدیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا ہے‘ یعنی وہ کہتا ہے : اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ درودشریف پڑھنے والے کا ذکر محبوب خدا کی بارہ گاہ میں نام بنام ہوجائے۔ زیردرس حدیث میں بھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود شریف کی ترغیب دی ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جہاں بھی ہوگے مجھے تمہاری صلوٰة پہنچے گی۔

اُمتیوں کو یہ حکم ہے جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنیں یا پڑھیں تو آپ درود شریف پڑھیں۔ چنانچہ مسلمانوں کا یہ معمول ہے کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنتے ہیں تو’ ’ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم “ کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بخیل کہا ہے جس کے سامنے آپ کانام لیا جائے مگر وہ درود نہ پڑھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ “
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ” اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذکر کیاجائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ “
چونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے اس لیے جب اللہ کے حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں اور اُس کے ساتھ درود بھی پڑھیں تو دُعا کی قبولیت کا باعث ہوگا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
” دُعا آسمان اور زمین کے درمیان رُکی رہتی ہے ‘ اوپرنہیں جاسکتی ‘ جب تک کہ تم اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجو ۔“
زیر درس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے گھروں میں سنن ونوافل پڑھنے کو معمول بنایا جائے تاکہ گھر میں خیروبرکت کا دور دورہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر عرس اور میلہ نہ لگانے کا حکم ہے۔
وہاں تو یہ کام نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں یہ بھی شامل ہے کہ بزرگوں اور اولیا ء اللہ کے مزارات کا تقدس بھی غیر سنجیدہ اجتماعات کے ساتھ مجروح نہ کیا جائے ۔ ہاں کرنے کا کام یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود سلام پڑھا جائے جس سے نیکیاں حاصل ہوں اور گناہ مٹتے جائیں اور اللہ کے فرمان پر عمل بھی ہو جائے ۔ درود شریف کے ضمن میں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ صرف مسنون درود پر اکتفا کیا جائے‘ کیونکہ وہی الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان اور بھروسہ کے قابل ہیں اور جملہ فیوض وبرکات اسی میں ہیں۔ دوسرے انسانوں کے بنائے درود پرنہ بشارتیں ہیں اور نہ ہی اُن پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu