Open Menu

Rasool Ullah SAW Ki Rohaani Quwaat - Article No. 3463

Rasool Ullah SAW Ki Rohaani Quwaat

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوت - تحریر نمبر 3463

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زیر کر دیا اور مجھ سے ایک بکری لے لی۔

جمعرات 25 جون 2020

”رُکانہ بن عبدیزید سے روایت ہے“اور یہ لوگوں میں سب سے قوی مشہور تھے‘کہ میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کی چند بکریوں کو چرا رہے تھے۔یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے شروع شروع کی ہے۔ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :”کیا مجھ سے کشتی لڑتے ہو؟“میں نے کہا اچھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جی ہاں مجھ سے“۔
میں بولا اچھا کیا دو گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو جیتے اس کی ایک بکری۔“میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زیر کر دیا اور مجھ سے ایک بکری لے لی۔پھر مجھ سے فرمایا:”کیا دوبارہ پھر کشتی لڑو گے؟“۔میں بولا بہت اچھا۔

(جاری ہے)

میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر مجھ کو زیر کر دیا اور ایک بکری مجھ سے اور لے لی۔

اس مرتبہ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہیں مجھ کو پچھڑتے ہوئے کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیا دیکھ رہے ہو؟“میں نے کہا یہ دیکھ رہا ہوں کہ مبادا مجھ کو کہیں کوئی اور بکریاں چرانے والا دیکھ رہا ہو اور میرے مقابلہ کی اس کو بھی ہمت ہو جائے‘کیونکہ میں سب سے زور آور آدمی مشہور ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اچھا تیسری بار پھر لڑتے ہو؟اور جیتو گے تو ایک بکرے ملے گی“۔
میں بولا بہت اچھا۔میں نے پھر کشتی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر مجھ کو زیر کر دیا اور مجھ سے ایک بکری لے لی۔اب تو میں غمگین ہو کر بیٹھ گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:”غمگین کیوں ہو؟“میں نے کہا سب سے پہلے تو اس بات پر کہ جب میں عبدیزید کی بکریاں لے کر واپس ہوں گا تو ان میں تین بکریاں جو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے چکا ہوں (وہ کم ہوں گی)۔
دوسری بات یہ ہے کہ مجھ کو یہ بڑا گھمنڈ تھا کہ قریش میں سب سے زیادہ مضبوط آدمی میں ہوں (مگر آج اس کے خلاف نکلا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اچھا چوتھی بار پھر کشتی کرتے ہو؟“میں نے کہا کیا اب تین بار پٹ جانے کے بعد بھی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اچھا لو بکریوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ میں تم کو سب واپس کیے دیتا ہوں۔“چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب واپس کر دیں۔
پھر اس کے متصل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا شہرہ ہو گیا۔اُس وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور مشرف با سلام ہو گیا۔اور میرے اسلام کا باعث یہی بات تھی کہ میں یقین کر چکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اپنی طاقت سے زیر نہیں کیا ‘بلکہ ضرور کسی اور دوسری (الٰہی) طاقت سے زیر کیا ہے۔“
رُکانہ کے ساتھ کشتی لڑنے کا یہ واقعہ اوائل نبوت کا ہے ۔
اس میں ہمارے لئے بہت سی راہ نمائی موجود ہے۔اول یہ کہ نبوت کے ابتدائی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بد ستور بکریاں چراتے تھے۔اگر چہ اُم الموٴمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کو پندرہ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا،بی بی صاحبہ دولت مند خاتون تھیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی دولت پر انحصار نہیں کیا‘بلکہ اپنے ہاتھ سے روزی کمانے کو ترجیح دی اور اپنے چچا ابو طالب کی بکریاں چراتے رہے۔
یوں روزی کمانے کے معمولی سمجھے جانے والے کاموں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے عظمت ملی۔آج کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ محنت مزدوری کے کاموں کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔بلکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے تو بہترین روزی وہی ہے جو اپنے ہاتھوں سے کمائی جائے۔
رُکانہ قریش کا نامور پہلوان تھا۔اس کے مقابلے کا طاقتور کوئی دوسرا نہ تھا۔
وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بکریاں چراتا تھا۔حالات تو ایسے تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چیلنج کرتا مگر کشتی لڑنے کی دعوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دی ۔اس پر اسے تعجب ہوا کہ مجھ جیسے پہلوان کو یہ چیلنج!چنانچہ وہ آمادہ ہو گیا اور کہا کہ کشتی جیتنے والے کو کیا ملے گا؟اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بکریوں کے گلے میں سے ایک بکری۔
“چنانچہ کشتی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گرادیا اور ایک بکری اُس سے لے لی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا کہ دوسری بار کشتی کرو گے؟تو رُکانہ نے کہا ہاں۔اب دوسری بار کشتی ہوئی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے گرادیا اور اُس سے ایک اور بکری لے لی ۔اب تو رُکانہ پریشان ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ کوئی دوسرا انسان اسے کشتی میں مات کھاتے ہوئے دیکھ تو نہیں رہا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تجھے کیا ہے کہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہے؟رُکانہ نے کہا:یہ دیکھ رہا ہوں کہ چرواہوں میں سے کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا کہ اس کو بھی میرے مقابلے کی ہمت ہو جائے،کیونکہ میں تو آج تک سب سے زور آور آدمی مشہور ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیسری بار کشتی کرو گے؟اگر جیت گئے تو ایک بکری تمہاری ۔رُکانہ نے ہاں کرلی اور کشتی شروع ہو گئی۔
اب کے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُکانہ کو گرادیا اور اُس سے ایک بکری لے لی ۔اب تو رُکانہ کا برا حال تھا۔ وہ دل شکستہ اور غمگین ہو کر بیٹھ گیا ۔یہ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”رُکانہ!تجھے کیا ہے؟“رُکانہ نے کہا:پہلی بات تو یہ ہے کہ تین بکریاں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے چکا ہوں‘جب واپس جاؤں گا تو گلے کے مالک کو کیا جواب دوں گا؟دوسرے یہ کہ میں تو اپنے کو قریش کا سب سے طاقتور شخص سمجھتا تھا مگر آج تو میں ایسا نہ رہا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“اچھا چوتھی بار پھر کشتی کرتے ہو؟“رُکانہ نے کہا کہ کیا اب تین بار پٹ جانے کے بعد بھی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اچھا سنو تینوں بکریاں میں تجھے واپس کیے دیتا ہوں۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں بکریاں اُس کو دے کر اسے مطمئن کر دیا۔اس واقعے کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی شہرت ہو گئی۔
اس وقت رُکانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کر لیا۔حضرت رُکانہ کہتے ہیں کہ یہی واقعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سبب بنا کہ میں اسلام لے آیا‘کیونکہ مجھے یقین ہو چکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی طاقت سے زیر نہیں کیا بلکہ ضرور کوئی دوسری طاقت مجھے مغلوب کرنے کا سبب بنی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نامور پہلوان کو چیلنج کرنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی مدد پر پورا بھروسہ تھا کہ ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیابی ہو گی جو رُکانہ کو حیرت میں ڈال دے گی ‘اور رُکانہ جب سوچے گا تو پھر میری نبوت پر ایمان لے آئے گا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
جیتنے پر بکریاں وصول کرنا بھی کسی مالی منافع کے لئے نہ تھا‘ورنہ آپ رُکانہ کو بکریاں واپس نہ کرتے ‘مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اُس کو پریشان دیکھ کر ہی بکریاں واپس کردیں‘حالانکہ اس نے اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی التجا نہیں کی تھی ۔ازخود بکریاں واپس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عمل سے کسی اچھے نتیجے کی توقع رکھتے تھے جو بالآخر رُکانہ کے اسلام لانے کی صورت میں سامنے آگیا۔
رُکانہ کو غمگین دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دلجوئی کی جس میں اُمت کے لئے ایک بہت اچھی مثال ہے۔
اگرچہ شرط لگانا اچھی بات نہیں‘مگر اول تو یہ نبوت کے ابتدائی دور کا واقعہ ہے جب ابھی تفصیلی احکام نازل نہیں ہوئے تھے‘اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے حکم کے پابند تھے۔دوسرے یہ شرط تو مثبت نتائج کے لئے تھی نہ کہ مال اکٹھا کرنے کے لئے ۔
یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُکانہ کو بن مانگے اس کی بکریاں واپس کردیں۔پھر شرط تو رُکانہ نے لگائی تھی ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف قبول کی۔رُکانہ کو یقین تھا کہ وہ شرط جیت جائے گا اور اسے فائدہ حاصل ہو گا‘لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اُس کا مقابلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامور پہلوان کو پچھاڑ دینا ایک معجزہ تھا‘اسی لئے رُکانہ کو اپنے ہارنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہ آئی اور اسے اقرار کرنا پڑا کہ اُس کی شکست مد مقابل کی جسمانی قوت کے بل پر نہ تھی بلکہ یہ کوئی اور ہی طاقت تھی جس نے اُسے مغلوب کیا۔
چنانچہ جب اسلام کا شہرہ ہوا تو یہی گزرا ہوا واقعہ رُکانہ کی ہدایت کا سبب بن گیا اور اُس نے اسلام قبول کر لیا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu