Open Menu

Rasta Ka Haq - Article No. 3344

Rasta Ka Haq

راستہ کا حق - تحریر نمبر 3344

”عام گزرگاہوں اور راستوں میں بیٹھنے سے بچتے رہا کرو۔“

بدھ 25 مارچ 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”عام گزرگاہوں اور راستوں میں بیٹھنے سے بچتے رہا کرو۔“لوگوں نے کہا: اُس کے سوا تو کوئی ہمارا چارہ کار ہی نہیں ،ہمیں وہاں بیٹھنا پڑتاہے اور ہم وہاں گفتگو بھی کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا:جب تم لوگوں کو وہاں بیٹھنا پڑ جائے تو راستہ کا حق ادا کر دیا کرو۔لوگوں نے عرض کیا:راستہ کا حق کیا ہے؟فرمایا:نظریں جھکا کر رکھنا۔ایذاء رسانی سے اپنے آپ کو روکے رہنا،سلام کا جواب دینا،بھلائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔(رواہ البخاری)
سامعین محترم!نہایت اہم ہے یہ ارشاد گرامی اور کیا خوب دلپذیر گفتگو ہے جو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے درمیان ہو رہی ہے ۔

(جاری ہے)

صحیح پوچھیں تو جوامع الکلم کی شاہکار ہے یہ حدیث مبارک ۔غور فرمائیے کہ یہ بات صرف اُسی وقت یا اُسی حالت کے ساتھ مختص نہیں جس میں یہ وقوع پذیر ہوئی ہے ۔بلکہ آج بھی ایسے مواقع آموجود ہوتے ہیں جب عام گزرگاہوں یا راستوں میں کوئی بحث یا گفتگو چل نکلتی ہے اور ایسی محویت کا عالم طاری ہوتاہے کہ انسان کی دیگر ذمہ داریاں پس پردہ چلی جاتی ہیں ۔
اس لئے پہلے مرحلہ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ عام گزرگاہوں پر بیٹھنے سے جس قدر ہو سکے ،اجتناب کرو۔اس حکم کو سن کر صحابہ کرام نے اپنی مجبوریوں کا ذکر کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں راستوں میں نہ صرف یہ کہ بیٹھنا پڑتاہے بلکہ ہم با ہم گفتگو بھی کرتے ہیں ۔اپنے اصحاب اور پوری امت پر شفقت فرماتے ہوئے آپ نے اپنے حکم پر اصرار نہیں فرمایا۔
ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی اور نہ ہی بُرا منایا ۔
بلکہ اس نشست کو با مقصد نشست میں تبدیل کر دیا اور فرمایا کہ اگر یہ بیٹھنا ناگزیر ہو جائے تو پھر راستہ کا حق ادا کر دیا کرو۔اب یہ بالکل ایک نئی بات تھی اور شاید صحابہ کرام نے بھی پہلی بار سنی کہ راستہ کا بھی کوئی حق ہوتاہے ۔تو فوراً دریافت کیا کہ اے اللہ کے نبی !راستہ کا حق کیاہے ؟آخر راستہ تو راستہ ہی ہوتاہے ۔
فرمایا:سنو راستہ کا ایک نہیں، چار حق ہیں ۔اُن میں پہلا حق غض البصر ہے ۔یعنی نگاہیں پست رکھنا ہے۔ مطلب ہے کہ ہر آنے جانے والے کو خواہ مخواہ دیکھتے رہنا راستہ کی حق تلفی ہے ۔گزرنے والوں میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی ہوتی ہیں۔اور نا محرم خواتین کو دیکھنا صرف گناہ ہی نہیں بلکہ بہت بڑا گناہ ہے۔
سورة نور کی آیت نمبر 30اور 31میں موٴمن مرد اور موٴمن عورتوں کو یکساں انداز میں نگاہیں پست رکھنے کا حکم فرمایا گیا۔
راستوں،بازاروں ،عام گزرگاہوں اور پارکوں میں نگاہ کی آورگی سے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنا اور نظریں جھکا کر رکھنا موٴمنا نہ طریق اور بلندی اخلاق کی علامت ہے ۔ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظر جھکاکر رکھنے پر ایمان والوں کو جنت کی ضمانت دی ہے ۔یہ چونکہ اہم بات تھی اور ہے ،بار بار سرزد ہو جانے کا اندیشہ بھی تھا۔
اس لئے آپ نے اسے راستہ کا پہلا حق قرار دیا،راستہ کا دوسرا حق کف الاذی ہے۔یعنی ایذاء رسانی سے لوگوں کو بچانا۔یہ ایذاء رسانی ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے ہو سکتی ہے۔ اشاروں کنایوں سے ہو سکتی ہے ۔قرآن حکیم میں ہے ویل لکل ھمذة لمزة یعنی تباہی ہے ہر عیب نکالنے والے اور طعنہ دینے والے کے لئے ۔علماء مفسرین تصریح کرتے ہیں کہ یہ آنکھوں اور اشاروں سے بھی ہو سکتاہے اور وہ بھی اس وعید کے ذیل میں آتاہے ۔
یہ بھی ایذاء رسانی کی ایک صورت ہے کہ گفتگو کرنے والوں میں دو آدمی الگ ہو کر سرگوشیوں میں مصروف ہو جائیں ۔قرآن حکیم نے ایسی سرگوشیوں کو شیطانی کار روائی قرار دیا ہے۔اور فرمایا اس کا مقصد صرف ایمان والوں کو پریشان کرنا ہے۔
قرآن حکیم کی سورة المطففین نے ہمیں بتایا ہے کہ جب مسلمانوں کا گزر کافروں کی کسی مجلس سے ہوتا تو وہ اپنے بغض اور خبث باطن کی وجہ سے ان پر آوازے کستے اور آنکھوں سے اشارے کرتے ۔
اور اپنی اس بے ہودہ حرکت پر خوش ہوتے ۔لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کو بالعموم اور راستوں میں بیٹھنے والوں کو بالخصوص آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اس برائی سے اجتناب کریں اور اسے راستہ کا حق سمجھتے ہوئے اس کی پابندی کریں ۔یہ مشاہداتی اور تجرباتی چیز ہے کہ ایسی گزرگاہوں پر معمولی بے احتیاطی سے تکرار کی نوبت آتی ہے پھر تکرار سے بڑھ کر جھگڑے کی شکل اختیار کرتی ہے اور بالآخر جھگڑے سے لڑائی بن جاتی ہے اور لڑائی کے انجام سے ہم بخوبی واقف ہیں۔
راستہ کا تیسرا حق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ردالسلام فرمایا۔یعنی سلام کا جواب دینا بھی راستہ کا حق ہے۔سلام کرنا دراصل محبت اور یگانگت کا پیغام اور اسلامی معاشرہ کا طرہ امتیاز ہے۔
ہدایات یہ ہیں کہ ہم کسی کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا نہیں جانتے ،سلام کرنا چاہئے۔سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھنے والوں کو سلام کرے۔
نیز یہ کہ سلام کرنا سنت ہے جبکہ سلام کا جواب دینا فرض علی الکفایہ ہے ۔راہ گزر میں بیٹھنے والوں کو جب کوئی آنے جانے والا سلام کرے تو اس کا جواب دینا نہ صرف باعث اجر وثواب بلکہ راستہ کا حق ہے اور اسے ادا کیا جانا چاہیے۔ یعنی جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس سے بہتر جواب دویا اُسی طرح کے الفاظ دھرادو۔یہ قرآنی حکم ہے اور اس کا سر انجام دیا جانا نہایت ضروری ہے ۔
کتنی ہی اہم گفتگو کیوں نہ ہورہی ہو،ایسے میں کوئی سلام کرے تو جواب دینے میں تساہل سے کام نہیں لینا چاہیے۔قابل افسوس ہے یہ بات کہ آجکل ہمارے ہاں نام نہاد مصروفیات اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا۔بوجھ بن کر رہ گیا ہے اور بعض تو اسے اپنی ہتک شان بھی سمجھتے ہیں ۔
سامعین ذی قدر!راستہ کا چوتھا اور آخری حق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امربالمعروف ونہی عن المنکر قرار دیا۔
یعنی بھلائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔یہ کام جس قدر اہم ہے اسی قدر اپنے اندر عمومیت رکھتاہے ۔اس کے لئے خاص ماحول ،جلسے اجتماع یا سیمنار کی ضرورت نہیں ۔اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ امربا لمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا کوئی بہت بڑا علامہ ،محقق یا دانشور ہو۔بھلی بات کہنے اور کسی برائی کو روکنے کا کوئی بھی موقع ملے اور کہیں بھی ملے اور اس کی استطاعت بھی ہوتو ضرور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے ۔
فرمایا گیا ہے یعنی میری طرف سے تمہیں ایک بات بھی پہنچی ہے تو اُسے اپنے پاس مت رکھو۔یہ نور ہے، روشنی ہے ،خوشبو ہے ،اور نہایت ہی کار آمد ہے،اسے آگے پہنچادو۔معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کرو اور نہ ہی اس کے لئے کسی بڑے موقع(Event) کا انتظار کرو۔راستے میں بھی ہوتو کیا ہوا۔ہماری ایک اچھی بات سے کسی ایک بھی آدمی کی اصلاح ہو گئی یا اس کی زندگی کا رُخ بدل گیا یا صرف سوچنے پر ہی آمادہ ہو گیا تو سمجھئے کہ خیر کی راہ کھل گئی ۔

ذمہ داری سے عہدہ برا ہوئے ،اللہ بھی راضی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی خوش ۔ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو سکتی ہے ۔مگر بات پھر وہی آتی ہے کہ دیگر فرائض اور ذمہ داریوں کی طرح ہم اپنی اس ذمہ داری سے بھی غفلت کا شکار ہیں۔ اس لئے ”معروف “کم اور ”منکر “پھیل رہی ہے ۔اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں بیٹھے مسلمانوں سے بھی فرمایا ہے کہ تمہیں یہاں پر بھی یہ فریضہ سر انجام دینا ہے ،کسی حال میں تم اس سے سبکدوش نہیں ہو سکتے ۔
پہنچا دینا تمہارا کام ہے ۔ہدایت دینا اور ہدایت کی راہ پر چلا دینا اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان حقوق کے ساتھ دیگر حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu