Open Menu

Salam Or Mohabbat - Article No. 3381

Salam Or Mohabbat

سلام اور محبت - تحریر نمبر 3381

تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ اور حقیقی معنوں میں موٴمن ہو نہیں سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔

بدھ 22 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ اور حقیقی معنوں میں موٴمن ہو نہیں سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں کہ جب تم اُسے کرنے لگو تو باہم دگر محبت کرنے لگو گے۔
تو تم اپنے مابین سلام کو عام کرو۔ یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کرو۔(مسلم)
گرامی قدر سامعین!حدیث مبارک میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے لئے ایمان ضروری ہے اور ایمان کے لئے ایک دوسرے سے محبت واُنس ناگزیر ہے۔ اور اس الفت ومودت کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ مسلمان میل ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو السلام علیکم اور وعلیکم السلام کہیں ۔

(جاری ہے)

صرف کہیں ہی نہیں بلکہ اتنی کثرت سے کہیں کہ لفظ سلام کا منشاء پورا ہو جائے۔
اگر ہم لفظ سلام یا السلام پر غور کریں گے تو ہمیں منشاء نبوی کا مکمل اور صحیح ادراک ہو سکے گا اور واضح ہو جائے گا کہ کس مصلحت کی بنیاد پر یہ حکم دیا جا رہا ہے ۔اور یہ کہ یہ گڈ مارننگ اور گڈ ایوننگ جیسے محدود جملوں کے مقابلہ میں وزنی اور پر وقار ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ”السلام“ اللہ رب العزت کے پیارے ناموں میں سے ایک پیارا نام ہے ۔
جس کے معنی ہیں سراپا امن وسلامتی والا۔اس اعتبار سے السلام علیکم کا مفہوم یہ بنے گا کہ امن وسلامتی عطا کرنے والی بابرکت ذات تمہارے اوپر ہے۔ تم ہر وقت اس کی نگرانی میں ہو تمہارا کوئی بھی عمل کسی لمحے اس سے اوجھل نہیں۔ اس لئے اپنی حیات مستعار کے رنگ ڈھنگ وہ رکھو جو اُس کو پسند ہوں ۔بندے بن کر رہو اور غیر پسندیدہ اعمال سے اجتناب کرو۔
یہ یاد دہانی بھی ہے اور تنبیہ بھی ۔مگر صرف اُسی کے لئے جو سمجھے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سلام کے صرف لغوی مفہوم کو سامنے رکھا جائے ۔اس صورت میں دعاء بھی ہے اور پیغام امن بھی ۔یعنی تم پر سلامتی ہو ،یہ میری دعاء ہے اور پیغام یہ ہے کہ میرے دل میں آپ کے خلاف کوئی نفرت ،کینہ، بغض اور حسدنہیں۔ میری گفتار اور کردار سے تمہیں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے ۔
میں تمہاری سلامتی کے لئے دعاء گو بھی ہوں اور آرزو مند بھی ۔انتہائی بے بسی کی بات ہو گی اگر کوئی آدمی کسی کو دعاء تک نہ دے سکے اور پرلے درجے کا بخل ہے کہ کوئی کسی کو سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے ۔آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پیغمبر امن وسلامتی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو افشاء السلام یعنی سلام کو عام کرنے کی کیا کیا صورتیں ترتیب دی ہیں ۔
سنن ابو داؤد میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی بھی جب اپنے بھائی سے ملے تو اُسے سلام کرے ۔اگر چلتے چلتے ان کے درمیان کوئی درخت دیوار یا بڑا پتھر حائل ہو جائے تو دوبارہ سلام کرے ۔نیز فرمایا تم میں سے جب کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے ،جب اٹھ کر جانے لگے تو بھی سلام کرے ۔
ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ سوار ،پیدل کو ،پیدل بیٹھنے والے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ کو سلام کریں ۔اسی طرح فرمایا چھوٹا بڑے کو سلام کرے ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :بیٹے !جب اپنے گھر والوں کے ہاں جاؤ تو انہیں سلام کیا کرو۔ یہ تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے لئے برکت کا موجب ہو گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عموماً سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے ۔بچوں اور خواتین کو بھی سلام کرتے ۔لہٰذا یہ مقام ومرتبہ کا مسئلہ نہیں بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے اور ہر ایک سے توقع رکھی گئی ہے کہ وہ اسے طریق عبادت سمجھ کر ادا کریں گے ۔ذرا گہری نظر سے دیکھیں تو ہمیں یہ بھی ہدایت ہے کہ اپنے آپ کو بھی سلام کریں ۔قرآن حکیم میں ہے کہ جب تم گھروں میں داخل ہو اور وہاں کوئی نہ ہوتو اپنے آپ کو سلام کرو یہ اللہ کی طرف سے نہایت ہی مبارک اور پاکیزہ تحیہ اور دعاء ہے ۔
نماز کے دوران تشہد میں بھی ہم السلام علینا کہہ کر اپنے آپ کو سلام کرتے ہیں یا اپنے آپ پر سلامتی بھیجتے اور دعاء کرتے ہیں ۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:روز قیامت میرے قریب ترین وہ شخص ہو گا جو سلام میں پہل کرتا ہو ۔سلام کرنے میں عبادت کا پہلو بھی بہت نمایاں ہے ۔فرمایا :ایک صاحب ایمان دوسرے موٴمن سے ملاقات کرتا ہے اُسے سلام کرتا اور اُس سے مصافحہ بھی کرتاہے تو ان دونوں کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے سوکھے پتے ۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: السلام علیکم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا۔ وہ آدمی بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دس یعنی تمہیں دس نیکیاں مل گئیں ۔ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمة اللہ ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔
وہ آدمی بیٹھ گیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بیس یعنی تمہیں بیس نیکیاں مل گئیں۔پھر تیسرا آدمی آیا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے ہوئے کہا :السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب سلام مرحمت فرمایا وہ آدمی بھی بیٹھ گیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیس۔ یعنی تمہارے حصے میں تیس نیکیاں آئیں یعنی سلام میں مسنون الفاظ کے اضافے سے نیکیوں میں اضافہ ہو تا گیا ۔
یہ بھی یاد رہے کہ سلام کا جواب دینا سلام کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
حضرات گرامی !اگر ہم السلام علیکم کی تاریخ کو تلاش کرنے نکلیں تو ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ سب سے پہلے ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کو بارگاہ ایزدی سے یہ تحفہ ملا ۔اور فرمایا گیا یہ تمہارے اور تمہاری اولاد کے لئے طریق ملاقات ہے اور حضرت آدم ہی نے سب سے پہلے فرشتوں کو السلام علیکم کہا اور انہوں نے جواب میں وعلیکم السلام کہا ۔
گویا یوں یہ جنتی تحفہ بھی ہے جو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے امت مرحومہ کو نصیب ہوا ہے ۔آج کے اس دور میں جبکہ امن وسلامتی سکھ ،چین اور اطمینان کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔وطن عزیز آئے روز قتل وغارت اور دہشت وبربریت کے نشانے پر ہے، ہم اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اسی سنت کے احیاء کے لئے اپنی سی کوشش کرلیں ۔ کیا معلوم اللہ تعالیٰ اسی کی برکت سے ہماری زمین کو امن وسلامتی کا گہوارا بنا دے اور اس کے باشندوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہو جائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu