Open Menu

Saneha Karbala Ka Paigham - Article No. 3487

Saneha Karbala Ka Paigham

سانحہ کربلا کا پیغام - تحریر نمبر 3487

حریت،آزادی اور اعلائے کلمتہ الحق کے لئے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کو مشعل راہ پایا

پیر 24 اگست 2020

احمد بن شہزاد
نسل انسانی کی تاریخ میں چشم فلک نے کبھی حق و صداقت کے معرکے دیکھے ہیں تو کبھی کفر و باطل کے انسانیت سوزہنگامے۔حق پرستوں سے باطل کے پجاریوں کو ہمیشہ بیر رہا ہے۔سانحہ کربلا بھی اسی قدیم سلسلے کے دو کرداروں سے دنیا کو روشناس کرتا ہے ۔سانحہ کربلا آج سے چودہ سو سال پہلے رونما ہوا لیکن اس کی یاد ابھی تک زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔
بقول شاعر
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حریت،آزادی اور اعلائے کلمتہ الحق کے لئے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کو مشعل راہ پایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔

(جاری ہے)

اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خدا پرستی،حریت فکر،انسان دوستی،مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت بر قرار رہی۔
یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی۔لہٰذا مسلمان اس تبدیلی کو اسلامی نظام پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے۔
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا کے لئے میدان عمل میں اترے۔راہ حق پر چلنے والوں کے ساتھ جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جو رو جفا،بے رحمی اور استبداد کی بد ترین مثال ہے۔یہ تصور ہی کہ خاندان رسالت کے ارکان پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کیا جو خود کو مسلمان کہتے تھے،بڑا روح فرسا ہے․․․․
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حالات کی عدم موافقت کے باوجود آواز حق بلند کرکے پوری نوع انسانی کے لئے یہ مثال قائم کر دی کہ اہل حق کا شیوہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ باطل قوتوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور اپنے لہو کا نذرانہ دے کر حق کی شمع کو روشن رکھیں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں
شاہ است حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ،بادشاہ است حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
دین است حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ،دین پناہ است حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سر دار نہ داد، دست در دست یزید!
حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین
زندہ قومیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی قدر کرتی ہیں،ان قربانیوں کا تذکرہ کرتی ہیں اور اُن کے کردار اور طرز فکر سے سبق حاصل کرتی ہیں ۔
ہمیں محرم الحرام کے مہینے میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد مناتے ہوئے یہ ضرور غور کرنا چاہیے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہل خانہ کی اس قربانی کا مقصد کیا تھا․․․؟حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت حق کی خاطر ڈٹ جانے اور اپنی جان کی پرواہ تک نہ کرنے کا ایک بے مثال سبق ہے۔

صدق خلیل بھی ہے عشق
صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں
بدر و حنین بھی ہے عشق
ہر سال محرم کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کی بڑی تعداد اس المناک واقعے کی یاد میں غم کی تصویر بن جاتی ہے۔ہمیں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس طرز فکر کو سمجھنا بھی ضروری ہے جس کے تحت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت رہتی دنیا تک کے لئے اَمر ہو گئی۔
امام عالی مقام رحمة اللہ علیہ کی شہادت کے واقعہ میں ہمارے لئے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کردار اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرز فکر۔وہ آفاقی پیغام ہے جو ہر دور کے مظلوم اور مجبور انسانوں کو درس عمل اور ولولہ شوق عطا کرتا رہے گا۔سانحہ کربلا میں حسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ طرز فکر اور یزیدی طرز فکر ہمارے سامنے آتی ہے۔
طرز فکر کے یہ دونوں رخ ہر دور میں سامنے آسکتے ہیں۔ظلم کا ہر نظام اور ہر فعل یزیدیت ہے جبکہ علم و معرفت خدا ترسی،انصاف اور انسان دوستی حسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ طرز فکر ہے۔امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شر کے مقابلے میں خیر کے ترجمان ہی نہیں حق کے نگہبان بھی ہیں۔
قتل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
واقعہ کربلا زمین پر حاکمیت الٰہیہ قائم کرنے ،انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے کا معرکہ تھا۔
اس معرکہ میں نواسہ رسول نے اپنی آل و اولاد کے ساتھ اپنی جان تک قربان کر دی اور زبان حال سے اس بات کا اعلان کر دیا۔
سردار نہ داد، دست در دست یزید!
حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین
نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جگر گوشہ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جنتی نو جوانوں کے سردار،شہید کربلا سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن علی وہ عظیم ہستی ہیں جن کے متعلق حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر کھیل رہے تھے۔
میں نے عرض کیا”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتے ہیں․․․․؟“
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”کیوں نہیں یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں۔“ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا”جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا“․․․(ابن ماجہ)
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رونے کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاتون جنت حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا”کہ ان کا رونا مجھے غمگین کرتا ہے“۔
ایک موقع پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا”حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوں ۔جو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے،حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری اولاد کی اولاد ہے“۔

Browse More Islamic Articles In Urdu