Open Menu

Seeraat Tayyiba Ki Roshni Main DUA Ki Ehmiyat - Article No. 3398

Seeraat Tayyiba Ki Roshni Main DUA Ki Ehmiyat

سیرت طیبہ کی روشنی میں دعاء کی اہمیت - تحریر نمبر 3398

اپنے پروردگار کو گڑگڑا کر اور آہستہ آہستہ پکارو۔ بے شک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔

جمعہ 1 مئی 2020

حافظ عزیز احمد
اپنے پروردگار کو گڑگڑا کر اور آہستہ آہستہ پکارو۔ بے شک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔(صدق اللہ العظیم)
گرامی قدر سامعین !دعاء، دراصل خالق ومخلوق کے درمیان ربط وتعلق کا موٴثر ترین ذریعہ ہے۔ یہ صرف اُٹھا کر چند کلمات کہہ دینے یا پڑھ لینے کا نام نہیں بلکہ رب ذوالجلال کی عبادت کی ایک ایسی صورت ہے جو بندے کے عجزونیاز کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما کر اس کی تشریح فرمائی ہے کہ یہ صرف عبادت ہی نہیں بلکہ عبادت کا مغز ہے اور ہم سب اس بات کو جانتے ہی نہیں بلکہ یقین رکھتے ہیں کہ”عبادت“ صرف اور صرف اللہ کا حق ہے ۔لہٰذا دعاء بھی صرف اللہ ہی سے کی جانا چاہیے ۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ مافوق الاسباب ضروریات میں اللہ کے سوا کسی اور سے مانگنے اور دعاء کرنے سے بڑھ کر کوئی اور گمراہی ہو نہیں سکتی ۔

سورة الاحقاف کی آیت مبارکہ نمبر 5کا غور سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ارشاد گرامی ہے: اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتاہے جو اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے بلکہ انہیں تو ان کی پکار کا سرے سے پتہ ہی نہیں۔
محترم سامعین!دعاء کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو اگر مد نظر رکھا جائے تو یہ یقین مزید پختہ ہو جاتاہے کہ ذات باری تعالیٰ انسان کے قریب تر ہے ۔
اسی لئے اُسے چاہئے کہ وہ اپنی تمام تر حوائج وضروریات میں براہ راست اُس کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلائے ۔اور اس یقین کے ساتھ پھیلائے کہ وہ اللہ سے مانگ کر کبھی نامراد نہ ہو گا۔ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمان کی دعاء کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔مگر اس کے ثمر آور ہونے کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ مانگا، عطا ہو گیا ۔دوم یہ کہ بظاہر مطلوبہ مقصد پورا نہ ہوا مگر اس کے بدلے میں آنے والی مصیبت ٹل گئی (جس کا انسان کو علم نہیں ہوتا) اور سوم یہ کہ اس کی دعاء کو روز قیامت کے اجر کے لئے ذخیرہ کر لیا گیا ۔
یہ سب صورتیں دعاء کی قبولیت کی ہیں ۔یہاں یہ بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اللہ پاک کی ذات عالیہ سے مانگنے کے آداب بھی ہیں جن کو بجالانا ازحد ضروری ہے ۔ان آداب کا بجالانا دراصل انسان کو اُس فریکوینسی تک پہنچا دیتا ہے جہاں خود قبولیت انسان کی دعاء کا استقبال کرتی ہے ۔مثلاً عجزوانکساری سے دعاء کرنا۔ طیب ،پاکیزہ اور حلال رزق کا اہتمام کرنا۔
پورے یقین سے دعاء کرنا ۔ناجائز اور خلاف شریعت دعاء سے اجتناب کرنا۔ ان سب میں اہم ترین رزق حلال ہے جو قبولیت دعاء میں اکسیر کی حیثیت رکھتاہے ۔مشہور حدیث مبارک ہے کہ ایک شخص طویل سفر طے کرتاہے، بال اُس کے بکھرے ہوتے ہیں پر اگندہ کیفیت میں ہوتاہے ۔اللہ کے حضور ہاتھ اُٹھا کر یا رب یارب کہتاہے ۔مگر فرمایا کہ اس کی دعاء کیسے قبول ہو کہ اس کا کھانا حرام ،اس کا پینا حرام اور اس کا لباس حرام ہے ۔
آج ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہم دعاء کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتی۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ ہم اپنی کمائی اور رزق کے بارے میں بے لگام ہیں ۔جائز وناجائز اور حلال وحرام کی کوئی تمیز نہیں ۔ایسی صورت میں دعاء قبول ہوتو کیسے؟اللہ کی ذات پاکیزہ ہے اور پاکیزہ چیزوں ہی کو پسند کرتی ہے ۔طیب وپاکیزہ کی بنیاد پر ہی دعائیہ کلمات اس کی بارگاہ میں پذیرائی حاصل کرتے ہیں ۔
یعنی اللہ کی طرف اچھے کلمات اٹھتے ہیں اور نیک عمل انہیں اوپر اُٹھاتاہے۔ (الفاطر:10) اسی طرح اللہ تعالیٰ سے اپنے خلاف ،اپنے بیوی بچوں کے خلاف اپنے کاروبار کے خلاف دعاء نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیشہ خیر اور بھلائی مانگی جائے، شر سے پناہ طلب کی جائے۔
برادران عزیز! دعاء کے لئے کچھ اوقات اور مواقع ایسے ہیں جو دعاء کی طاقت میں اضافہ کر دیتے ہیں ۔
مثلاً اقامت صلوٰة کے وقت دعاء کرنا ،فرض نماز کے بعد دعاء کرنا۔ جمعة المبارک کی مخصوص گھڑی میں دعاء کرنا ،پچھلی رات یعنی سحر کے وقت دعاء کرنا۔بارش کے وقت دعاء کرنا ،بوقت جہاد دعا کرنا ،مطاف میں اور حجرا سود کے قریب دعا کرنا عرفات اور رمی جمار کے وقت دعاء کرنا۔
رحمت تمام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعاء کی برکت اور اہمیت کے پیش نظر امت کی پوری زندگی کو دعاؤں سے معمور کر دیا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن مواقع پر دعاء فرمائی ہے ،اس کی ایک طویل فہرست ہے ۔ان کو ہم مسنون دعاؤں سے جانتے ہیں ۔آج بحمد اللہ ایسی سینکڑوں کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں جن میں ان ساری دعاؤں کو یکجا کر دیا گیا ہے ۔لہٰذا ان سے استفادہ کرنا چاہئے ۔بعض دعائیں تواتنی مختصر ہیں کہ انہیں یاد کرنا نہایت ہی آسان ہے ۔یہ دعائیں برکت ورحمت کا ذریعہ اور عظیم الشان روحانی سہارا ہیں ۔
ذرا آپ اندازہ کیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بندے کا اپنے خالق ومالک سے رابطہ استوار کرنے کے لئے دعائیہ کلمات کو زندگی کے کونے کونے تک پہنچا دیا ہے ۔کھانا کھانے کے آغاز واختتام پر دعاء ۔گھر میں داخل ہونے اور باہر جانے کی دعاء، مسجد میں داخل ہونے اور اس سے باہر نکلنے کی دعاء ،وضو کی دعاء ،سفر پر جانے اور واپسی کی دعاء،میل ملاقات کی دعاء ،صبح اور شام کی دعاء دن اور رات کی دعاء ،سونے کی دعاء ،سو کر اُٹھنے کی دعا۔
بیت الخلاء میں جانے اور باہر نکلنے کی دعاء ،کپڑا پہننے کی دعاء ۔تجارت وکاروبار کی دعاء ،سواری پر سوار ہونے کی دعاء، بیماریوں ،آفات وبلیات اور زلزلوں سے بچنے کی دعاء۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی ایسا نشیب وفراز نہیں جس کے لئے دعاء تلقین نہ کی گئی ہو ۔اپنی مادری زبان میں دعاء کرنے پر قطعاً کوئی پابندی نہیں کہ اس کے ذریعے جذبات کے اظہار کو تقویت ملتی ہے ۔
مگر قرآنی اور مسنون دعاؤں کے کلمات اور الفاظ اپنے اندر غیر مرئی تاثیر رکھتے ہیں اور انسانی زندگی پر لازوال اثرات مرتب کرتے ہیں ۔بس ضرورت یقین اور پھر عمل کی ہے ۔نیز یہ بھی ذہن نشین ہونا چاہئے کہ قرآن حکیم اور لسانِ نبوت سے عطا ہونے والی دعاؤں کی تاثیر دو چند ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ کچھ ایسی دعائیں ہر مسلمان کے سینے میں محفوظ ہوں اور انہی کو اپنی التجاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بنایا جائے۔

جو الحمد للہ ہر مسلمان کو یاد ہے ،اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جامع الدعاء قرار دیا ہے ۔صرف الحمد للہ کہنا بھی دعاء ہے ۔جزاک اللہ کو بھی اسی سلسلہ میں شمار کیا گیا ہے ۔اور سب سے بڑھ کر․․․․یہ سب خوبصورت اور یاد ہوجانے والی دعائیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان تمام دعاؤں کو ہمارے حق میں مقبول فرمائے اور دعائیں مانگنے، دعائیں دینے اور دعائیں لینے کے سلیقہ سے آشنا فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu