Open Menu

Shab E Qadar Ki Justaju - Article No. 3379

Shab E Qadar Ki Justaju

شب قدر کی جستجو - تحریر نمبر 3379

شب قدر کو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو یعنی اکیس ،تئیس ،پچیس کو۔

پیر 20 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شب قدر کو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو یعنی اکیس ،تئیس ،پچیس کو۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ وہ رات آخری دس راتوں میں ہے یعنی انتیس یا ستائیس شب کو۔

سامعین محترم!ماہ صیام جس کے فضائل وبرکات کی تشریح وتوضیح اور اہل ایمان کی تشویق و ترغیب کے لئے سید المر سلین ،خطیب الانبیاء جناب محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان المعظم کے آخری دنوں میں ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا تھا جسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حرف بحرف نقل کیا اور جو حدیث کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے ۔

(جاری ہے)

آج بھی وہ اسی طرح تازہ اور ایمان افروز ہے جس طرح آج سے پونے پندرہ صدی پہلے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس خطبہ مبارکہ میں رمضان المبارک سے متعلق ایک ایک خوبی کو تفصیل سے بیان فرمایا۔روزے کے اثرات وبرکات ،سحری وافطار کا اجر وثواب ،اہم ترین دعاؤں اور اعلیٰ ترین وظائف واذ کار کا تذکرہ بھی فرمایا۔اپنے اسی خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ”لیلة القدر“ کی نشاندہی بھی فرمائی۔
سب اہل ایمان جانتے ہیں کہ قرآن حکیم میں اسی عظیم المرتبہ شب کے بارے میں ایک پوری سورة ۔سورة القدر۔ کے نام سے موجود ہے ۔جس کا آغاز نہایت عظیم الشان اعلان سے ہے کہ کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے اپنی عظیم کتاب قرآن حکیم کو شب قدر میں اتارا۔
قرآن حکیم کا یہ نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر موجودہ شکل میں”یکبارگی نزول“ہے۔ جو اہل دنیا کے لئے خوشخبری تھی کہ اللہ رب العزت کی رحمتوں اور نوازشوں کا ایک لاثانی خزانہ بالکل ان کے قریب پہنچ چکا ہے اور اب کسی بھی لمحے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے وحی کی صورت میں زمین پر آمد کا ایک مبارک سلسلہ شروع ہونے والا ہے جو ان کے ماحول کو برکتوں، رحمتوں اور راحتوں سے معمور کر دے گا۔
یہ رات اپنی ذات میں ایک انقلابی رات ہے۔ یہ عام راتوں کی طرح ایک رات نہیں ہے ۔بلکہ قدر ومنزلت والی رات ہے ۔یہ لیلة القدر اور لیلئہ مبارکہ ہے ۔قرآن حکیم نے اس کی تشریح کے لئے انوکھا انداز اختیار فرمایا ہے ۔فرمایا ہے:وما ادراک مالیلة القدر! آپ کو کیا خبر کہ شب قدر کیا ہے؟سوال کا جواب نہایت ہی خوبصورت اور بے بہا انعام ہے کہ لیلة القدر خیر من الف شھر۔
یعنی شب قدر(کی عبادت)ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔اس شب میں فرشتے اور روح القدس اللہ کی اذن سے ہر بڑے امر کو لے کر اترتے ہیں اور طلوع فجر تک یہ رات سلامتی ہی سلامتی ہے۔ چشم نبوت نے ہمیں یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ کے نورانی فرشتے اس رات میں خوش نصیب عبادت گزاروں سے مصافحہ بھی کرتے ہیں ۔اندازہ فرمایئے کہ ایک سعاد تمند مسلمان اس رات میں تریاسی سال چار ماہ کی عبادت کا ثواب حاصل کر سکتاہے ۔
یہ نص قطعی ہے جو ہر طرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہے ۔ایک حدیث پاک میں ہے کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
سامعین باتمکین!ایسی اہم اور برکتوں سے معمور رات جو رمضان المبارک میں ہوتی ہے اگر اس کا تعین ہو جاتا اور بتلا دیا جاتا کہ فلاں رات ان تمام خوبیوں کی حامل شب قدر ہے تو بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہر مسلمان اس سے متمتع اور مستفید ہو جاتا ۔
اور ایسا ہو جانے والا تھا۔ اور رسول دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ذی قدر اصحاب کو خبر دینے کے لئے تشریف بھی لائے مگر اس وقت دو آدمی آپس میں الجھ رہے تھے جس کی وجہ سے اس عظیم رات کا تعیین اٹھا لیا گیا ۔یہ مسئلہ چونکہ تقدیری مسائل سے ہے اس لئے اس کی حقیقت کو جاننا ہماری ذہنی رسائی سے بالاتر ہے لیکن اس کے اندر سے اس رات کی جستجو اور تلاش کا پہلو ہو یدا ہوا اور اہل ایمان کے لئے ان کے اجر وثواب میں اضافے کا باعث بنا۔
اسی تناظر میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت سے نہایت مشفقانہ انداز میں ارشاد فرمایا کہ اس رات کو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔ پھر مزید شفقت فرماتے ہوئے فرمایا کہ طاق راتوں یعنی اکیس، تئیس، پچیس، ستائیس اور انتیس کی راتوں میں اس کی فضیلت کو پانے کے لئے تگ ودو کرو۔ بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایک ارب ستائیس کروڑ اہل ایمان میں سے کروڑوں لوگ اپنے صادق ومصدوق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ارشاد کی تعمیل میں ان راتوں میں قیام ،عبادت ،استغفار ،تلاوت ،درود پاک اور دیگر وظائف واوراد میں مشغول رہ کر اللہ رب العزت کا قرب حاصل کرنے اور اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر نے کی مخلصانہ کوشش کرتے ہیں ۔
آخری عشرہ رمضان کا مسنون اعتکاف بھی شب قدر کے حصول کے لئے ایک گرانقدر نعمت ہے ۔اور صاحبان تو فیق اسی لئے مساجد کا رخ کرتے اور اپنے اوقات کو قیمتی بناتے ہیں ۔احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے ،صحابہ کرام کی ایمانی بصیرت اور سلف صالحین کی دینی فراست کے پس منظر میں،رمضان المبارک کی اکیسویں ،تیئسویں اور ستائیسویں شب کے بارے میں”شب قدر“ہونے کے قابل اعتماد اقوال ملتے ہیں ۔
صحابی رسول حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ستائیسویں شب رمضان کو لیلة القدر ہونا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے ۔صحابہ کرام کی ایک مجلس میں جس کا اہتمام سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، مختلف آراء اور تجربات سامنے آئے ۔آخر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن حکیم میں ذکر کئے جانے والے سات کے عدد کو سامنے رکھ کر عرض کی اگر سات کا عدد آخری عشرہ یعنی بیسویں رات میں جمع کر دیا جائے تو ستائیس بنتا ہے لہٰذا ستائیسویں شب شب قدر ہے اور اگر اسے تیس سے نفی کر دیا جائے تئیس بنتاہے لہٰذا تئیسویں شب شب قدر کا درجہ پاتی ہے ۔
اگر تو جیہہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ایک قول سترہ رمضان المبارک کا بھی نقل کیا گیا ہے کہ”یوم الفرقان“یعنی غزوئہ بدر کا دن ہے جس میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح سے ہمکنار فرمایا تھا ۔احادیث مبارکہ میں اس رات کی کچھ علامات بھی ملتی ہیں کہ یہ پر سکون رات ہوتی ہے ۔شوروشغب نہیں ہوتا۔ اس رات کے آنے والے دن کا سورج تپش بھرا نہیں ہوتا۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ سب معاملہ وجدان ،ایمانی کیفیت اور روحانی احساس کا ہے ۔جو ہر آدمی کا ایک جیسا نہیں ہوتا۔ تاہم یہ طے ہے ان شاء اللہ کہ صاحبان ایمان جس شب کو بھی اس کو پالینے کی جستجو میں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر ،بیٹھ کر مکمل انہماک اور خشوع وخصوع اور اخلاس سے عبادت کریں گے ،اللہ پاک جو رحمان ورحیم اور رؤف ورحیم ہے اس کی برکتوں اوررحمتوں سے اُسے مالا مال کر دے گا ۔اس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں ۔نہ اس کی عطاء میں رکاوٹ ہے اور نہ وہ بے بہا عطا سے تھکتا ہے ۔اللہ پاک سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں شب قدر کی قدر سے روشناس فرمائے اور اس کے احسانات وانعامات سے سر فراز فرمائے ۔آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu