Open Menu

Shabhe Mustafa SAW Syedna Imam Hassan RA - Article No. 3149

Shabhe Mustafa SAW Syedna Imam Hassan RA

شبیہہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ - تحریر نمبر 3149

خواب میں پیشانی پر لکھی عبارت قلیل زندگی کی تعبیر ثابت ہوئی

منگل 21 مئی 2019

مولانا محمد الیاس گھمن
تاریخ الخمیس میں ہے کہ آپ کی ولادت 3ہجری رمضان لمبارک کے وسط میں مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ابن علی بن ابی طالب کا نام حسن نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا پسند فرمودہ ہے۔آپ جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی صاحبزادی خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے بڑے فرزند ہیں۔ آپ کی کنیت ابو محمد جبکہ آپ کے القاب سبط رسول ،ریحانہ النبی اور شبیہ بالر سول ہیں ۔
امام تر مذی نبی کریم کے غلام ابورافع کے حوالے سے حدیث نقل فرماتے ہیں کہ حضرت حسن کی ولادت پر نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان کہی ۔بچے کی ولادت کے وقت اسلام کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ نومولود کے منہ میں گھٹی ڈالی جائے امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ جب سید نا حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک لعاب دہن سے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو گھٹی دی۔

(جاری ہے)

ساتویں روز بطور عقیقہ دو دو بکریاں ذبح کیں اور حکم دیا کہ ان حضرات کے سروں سے بال اتروانے کے بعد خوشبو لگائی جائے۔
مناقب احادیث کی روشنی میں:
جامع تر مذی میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک اوپر والے نصف حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ملتا جلتا تھا بلکہ روحانی طور پر بھی آپ پر گہرے اثرات تھے ۔
آپ کا چال چلن،گفتار ،رفتار ،جلوت ،خلوت ،قول وعمل ،ایثار ہمدردی ،عادات و اطوار،خوش خلقی حسن سلوک ،مروت رواداری،شجاعت وعزیمت ،دور اندیشی وفراست،حکمت ودانائی ،علم وتقویٰ،زہدودرع،خشیت وللہیت،محبت ومعرفت خداوندی الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہرتھے۔
امام ابونعیم اصفہانی نے حلیة الاولیاء میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے مجھے فرمایا:جب میں سیدنا حسن کو دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں پھر واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دن سیدناحسن رضی اللہ عنہ دوڑ کر آئے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کو پکڑ کر”ازراہ محبت“کھیلنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازراہ شفقت اپنا لعاب مبارک حضرت حسن کے منہ میں ڈال رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ فرمارہے تھے۔
(اللھم انی احبہ فاحبہ)․․․․․․اے اللہ ! میں حسن رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے یہ دعاتین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ امام ابن عساکرودیگر محقق ومورخین نے لکھا ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک اپنی جگہ بیٹھ کر ذکر اللہ میں مشغول رہتے پھر آپ کے پاس قوم کے اشراف لوگ آکر مجلس میں شرکت کرتے اور آپ ان کو وعظ ونصیحت اور اسلامی احکامات کا درس دیتے یہ مجلس چاشت کے وقت تک لگی رہتی ۔
چاشت کے نوافل ادا کرنے کے بعد آپ امہات المومنین کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان کی خدمت میں سلام عرض کرتے۔کبھی کبھار امہات المومنین کی طرف سے آپ کو ہدیہ ملتا جسے آپ بخوشی قبول فرماتے ۔اس کے بعد آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے۔اور شام کو بھی آپ کا یہی معمول ہوتا۔
امام ذہنی رحمة اللہ علیہ نے سیراعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے کہ آپ جب سونے کے لیے بستر پر تشریف لاتے تو سورہ الکہف کی تلاوت فرماتے ،امام ابن ابی شیبہ نے امام اسحاق بنت طلحہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ رات کے ابتدائی حصے میں قیام اللیل میں مشغول ہوجاتے اور آخر شب میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ قیام اللیل تہجد اداکرتے تھے۔

امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جوانی میں مجھ سے جو عمل خیر نہیں ہو سکے ان میں ایک عمل پیدل حج کرنا ہے۔جبکہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے(مدینہ منورہ قیام کے دوران)25پیدل حج ادا فرمائے۔
امام ابن عساکرنے اپنی مختصر تاریخ میں لکھا ہے کہ ابو ہارون نامی ایک شخص اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے حج کے لیے سفر کیا مدینہ طیبہ پہنچے تو ارادہ کیا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھی
حاضر ی دیں۔
مجلس سے واپس ہوئے تو سیدناحسن رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی وساطت سے ہم سب کے لیے چار چار سودرہم بھیجے۔جسے انہوں نے حاجت نہ ہونے پر واپس بھجوادیا۔مگر آپ نے فرمایا نیک عمل کو واپس نہ کرو اگر میں ان سے زیادہ دیتا تو وہ بھی تمہارے لیے کم تھا میں نے تمہیں یہ زادراہ کے طور پر دیا ہے تاکہ تم سفر میں خرچ کرو۔
امام ابن عسا کرنے اپنی تاریخ میں سیدنا زین العابدین کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک بار سیدنا حسن رضی اللہ عنہ طواف کررہے تھے اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اور کہا کہ آپ میرے کام کے لیے فلاں شخس کے پاس تشریف لے چلیں چنانچہ آپ طواف کعبہ چھوڑ کر اس کے ساتھ ہو لیے۔
اسے دیکھتے ہوئے ایک شخص نے اعتراض کے طور پر کہا کہ آپ طواف کعبہ جیسی نیکی چھوڑ کر چلے گئے؟تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے چلا جائے اور اس کا وہ کام ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو حج اور عمرے کا ثواب عطا فرماتے ہیں اور اگر کام پورانہ ہوتو عمرے کا ثواب پھر بھی عطا فرماتے ہیں ۔
پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے حج اور عمرہ دونوں کا ثواب حاصل کر لیا ہے ۔اس طرح کے دیگر کئی واقعات آپ کی زندگی میں ملتے ہیں۔
امام ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار سید نا حسن رضی اللہ عنہ نے خوا ب دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر قل ھو اللہ احد لکھا ہوا ۔جس پر آپ بہت خوش ہوئے بعد میں اس خواب کا تذکرہ مشہور تابعی سعید بن مسیب کے سامنے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے خود یہ خواب یکھا ہے تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی زندگی قلیل ہونے کی علامت ہے ۔
چنانچہ چند دنوں بعد بقول امام ذہبی آپ کی ایک زوجہ جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی نے آپ کو زہر دیا۔جس کی وجہ سے آپ چالیس دن برابر اس زہر کے اثر سے بیمار رہے اور بالآخر 49ہجری کو اس دنیا سے رحلت فرماگئے۔آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو والدہ محترمہ جناب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد کے پاس جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu