Open Menu

Youm Alhaj - Insaniyat Ki Meeraj Ka Din - Article No. 3210

Youm Alhaj - Insaniyat Ki Meeraj Ka Din

”یوم الحج“انسانیت کی معراج کا دن! - تحریر نمبر 3210

آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے امتیازات اور تکبر کا خاتمہ کرکے انسانیت کی ناہموار سطح کو برابر کر دیا

جمعرات 8 اگست 2019

ڈاکٹر شاہ نوازتارڑ
9ذوالحج تھی،میدان عرفات نفوس قدسیہ سے بھر ا پڑا تھا ،خلیل اللہ اور ذبیح اللہ کے خلوص وتقویٰ کے بعد چشم فلک نے للہیت کا یہ منظر پہلی بار دیکھا تھا،اس موقع پر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے عظمت واحترام آدمیت کا وہ آفاقی پیغام دیا کہ جس کا روم و ایران کی سلطنتوں میں کوئی تصور تھا نہ مصرویونان کی تہذیبوں میں اس کا کوئی وجود تھا۔

سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سسکتے اور پسے ہوئے طبقے کو وہ عروج بخشا کہ انسانیت ہمیشہ اس عظمت واحترام پر نازاں رہے گی۔ابتدائے آفر ینش سے انتہائے کائنات تک”میگنا کارٹا“اور ”جنیو اکنونشن “سمیت دنیا کا کوئی دستور ،قانون اور ضابطہ اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی (قصویٰ)پر سوار تھے ،سنن ابی داؤد کی کتاب الحج کے باب صفة حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے،آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے رب ذوالجلال کی حمد وثناء کے بعد ارشاد فرمایا”زمانہ جاہلیت کے دستور میرے پاؤں تلے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امتیازات ،تفاخر ،تصنع اور تکبرکا خاتمہ کرکے انسانیت کی ناہموار سطح کو برابر کر دیا۔

(جاری ہے)

احادیث ،سیرت ،سوانح اور تاریخ کی کتابوں میں ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”لو گو!تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو ،آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا،کسی عربی کو عجمی ،گورے کو کالے،سرخ کو سفید پر کوئی فضیلت نہیں ،تم میں سے اللہ تعالیٰ ذوالجلال والا کرام کے نزدیک عزت والا صرف متقی ہے“۔
اسلامی ،فلاحی معاشرہ ومملکت کے قیام اور معاشی ،سماجی نا ہمواریوں کے خاتمے کے لئے رسم ورواج کے استئصال کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔
صحیح مسلم اور سنن أبی داؤد کی روایت میں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا زاد ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا خون معاف کرنے کا اعلان فرمایا ،معاشی نا ہمواری کے خاتمے کے لئے سود کو باطل قرار دیا اور آغاز اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کیا۔متمدن سلطنتوں اور مہذب معاشروں میں عزت و عظمت کے لئے ترس کررہ جانے والی صنف نازک کو وہ احترام اور مرتبہ عطا کیا کہ حوا علیہ السلام کی بیٹی اس پر ہمیشہ فکر کرتی رہے گی۔
سنن أبی داؤد میں ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”لوگو!عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ۔“
سیرت ابن ہشام اور تاریخ طبری میں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے“۔احترام آدمیت اور عزت وعظمت انسانیت کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نوازا گیا اعزاز بھی ہمیشہ اولاد آدم کے ماتھے کا جھومر رہے گا۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں”سمعناوأطعنا“کی عملی تصویر بنے،مخاطبین سے پوچھا کہ”یہ کون سا شہر ،کون سا دن اور کون سا مہینہ ہے“میدان عرفات پر سکوت طاری تھا،دلوں کی دھڑکنیں تک سنائی دے رہی تھیں،پھر محسن
کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم نے استفہامیہ انداز میں خود ہی ارشاد فرمایا کہ ”کیا یہ مکہ نہیں ،کیا یہ ذوالحج نہیں اور کیا آج یوم الحج نہیں ،تو درسگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یا فتگان یک زبان پکاراٹھے کہ کیوں نہیں!یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مکہ ہی ہے ،ذوالحج کا ہی مہینہ ہے اور آج یوم الحج ہی ہے ۔

کائنات میں احترام انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار نے ارشاد فرمایا کہ”تمہاری جان ،تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح بیت اللہ،مکہ مکرمہ،
ذوالحج اور یوم الحج محترم ہیں۔صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد کی روایات میں ہے کہ خاتم النبین آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سامعین وقاعدین عرفات سے استفسار فرمایا کہ جب رب کائنات تم سے میرے بارے میں پوچھے گا تو کیا جواب دو گے تو جماعت صحابہ رضی اللہ عنہ پکار اٹھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام کما حقہ پہنچا دیا ہے تو خاتم المرسلین نے انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور کائنات کے وحد ولاشریک مالک ومختار سے مخاطب ہوئے کہ ”اللہ ذوالجلال والا کرام تو گواہ رہنا،اے اللہ تعالیٰ تو گواہ رہنا ،اے اللہ تعالیٰ تو گواہ رہنا“۔

انسانیت کے لئے اس سے بڑا پیغام مسرت وانبساط کیا ہو سکتا تھا کہ دشمن بھائی بھائی بن گئے ،غلام کو آقا کے برابر عزت ملی،حسب نسب کی فضیلت اور جاہلیت کی بڑائی پر تقویٰ اور قانون مساوات غالب آگیا،انسانی جان ،عزت اور مال کے احترام سے معاشرے میں مساوات اور برابری آگئی،سود خوری کے خاتمے سے معاشی ناہمواری ختم ہو گئی۔آج بھی خطبہ حجتہ الوداع کو بنیادی انسانی حقوق کے چار ٹر کے طور پر نافذ کر دیا جائے تو اسلامی فلاحی ریاست تشکیل پا سکتی ہے لیکن اس کے لئے حکمرانوں کو عملی کر دار ادا کرنا ہو گا،محض نام لینے سے ریاست مدینہ کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔

”آؤ ہم ایسی نئی دنیا تخلیق کریں ،جہاں انساں نہ انساں کا دشمن ٹھہرے
جہاں مزدور مشینوں کا نہ ایند ھن ٹھہرے ،جہاں فردانہ کسی دھند کا مسکن ٹھہرے“

Browse More Islamic Articles In Urdu