Open Menu

Zouq E Ibadat - Article No. 3179

Zouq E Ibadat

ذوقِ عبادت - تحریر نمبر 3179

”اور ذکر کرو ہمارے بندے داؤد(علیہ السلام)نعمتوں والے کو بے شک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے ۔

جمعہ 14 جون 2019

امام حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتاہے:
”اور ذکر کرو ہمارے بندے داؤد(علیہ السلام)نعمتوں والے کو بے شک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے ۔ہم نے اس کے لئے پہاڑوں کو مسخر کیا جو تسبیح کرتے تھے صبح وشام اور پرندے اس کے فرمانبردار تھے اور ہم نے مضبوط کیا اس کی حکومت کو اور اسے حکمت اور فیصلہ کن بات کا اختیار دیا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ الاید سے مراد فرمانبرداری کی قوت ہے یعنی حضرت داؤد علیہ السلام کو عبادت کی قوت اور اسلام کی سمجھ بوجھ عطا کی گئی تھی۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو عبادت کی طاقت دی گئی تھی۔
بیشتر علماء ومفسرین کرام کا قول ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام ساری رات عبادت کیا کرتے تھے اور آپ علیہ السلام نے اپنی آدھی زندگی روزہ میں بسر کی یعنی ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔

(جاری ہے)


حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ بہترین نماز جو اللہ عزوجل کی بار گاہ میں مقبول ہے وہ حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور سب سے بہترین روزے بھی حضرت داؤد علیہ السلام کے ہی ہیں۔ آپ علیہ السلام نصف رات تک آرام فرماتے اور تہائی رات عبادت الٰہی میں بسر کرتے۔پھر رات کے آخری حصہ میں آرام فرماتے تھے۔آپ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور جب دشمن سے آمنا سامنا ہوتا تو راہ فرار اختیار نہ کرتے تھے۔

اللہ عزوجل نے حضرت داؤد علیہ السلام کو ایسی آواز عطا فرمائی تھی کہ جس کی مثل ممکن نہ تھی۔آپ علیہ السلام جب ترنم اور سوز کے ساتھ تلاوت فرماتے تو فضاؤں میں اڑنے والے پرندے ٹھہر جاتے اور آپ علیہ السلام کے ساتھ تسبیح میں مشغول ہو جاتے۔پہاڑوں سے بھی تسبیح کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور پہاڑو پرندے صبح و شام آپ علیہ السلام کے ساتھ مل کر اللہ عزوجل کی تسبیح بیان کیا کرتے۔

امام اوزاعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ عزوجل نے حضرت داؤدعلیہ السلام کی آواز میں سوزوترنم عطا فرمایا جو کسی اور کو عطا نہ ہوا۔آپ علیہ السلام کی آواز کو سننے کے لئے پرندے اور وحشی جانور رک جاتے اوربھوک وپیاس کی پرواہ کئے بغیر کھڑے رہتے یہاں تک کہ ان میں سے بیشترمر جاتے تھے۔

حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی آواز جو بھی سن لیتا وہ جھومنے لگ جاتا۔آپ علیہ السلام زبور کی تلاوت کرتے کہ کانوں نے ایسی آواز نہ سنی ہوتی۔آپ علیہ السلام کی آواز پر جن‘انسان‘پرندے اور چوپائے ٹھہر جاتے اور بعض بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے تھے۔
حضرت ابن ابی الدینا رحمة اللہ علیہ نے حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام جب زبور کی تلاوت شروع کرتے تو آپ علیہ السلام کی آواز کی دلکشی سے کنواری عورتیں پردے سے باہر نکل آتی تھیں۔

(یہ روایت غریب ہے )۔
حضرت عبدالرزاق رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا ء رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ قرآن مجید کو ترنم کے ساتھ پڑھنا کیسا ہے؟آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں؟میں نے حضرت عبید بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس موسیقی کا ایک آلہ تھا جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تو اسے بجاتے تھے جس سے آواز میں سوز پیدا ہوتا تھا۔
آپ علیہ السلام چاہتے تھے کہ خود بھی روئیں اور دوسروں کو بھی رلائیں۔
مسند امام احمد میں حضرت امام احمد رحمة اللہ علیہ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی آواز سنی جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوموسیٰ (رضی اللہ عنہ)کو آل داؤد (علیہ السلام)کے مزامیرکا حصہ ملا ہے۔

یہ حدیث صحیحین کی شرائط پر پوری اترتی ہے مگر انہوں نے اسے اس طریقہ سے روایت نہیں کیا۔
حضرت امام احمد رحمة اللہ علیہ نے مسند امام احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوموسیٰ (رضی اللہ عنہ) کو لحن داؤدی عطا کیا گیا ہے۔
ابو عثمان نہدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بربط اور مزامیر کی آواز سنی ہے مگر حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی آواز سے زیادہ خوبصورت آواز کوئی نہیں ہے۔

اللہ عزوجل نے حضرت داؤد علیہ السلام کو خوبصورت آواز کے ساتھ یہ بھی قوت عطا فرمائی تھی کہ زبور کو نہایت تیزی کے ساتھ پڑھ جایا کرتے تھے۔چنانچہ امام احمد رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے زبور کی تلاوت نہایت آسان کردی گئی تھی کہ آپ علیہ السلام اپنے جانور پر زین رکھنے کا حکم دیتے اور جب تک زین رکھی جاتی آپ علیہ السلام زبور کی قرأت مکمل کر چکے ہوتے تھے۔
آپ علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کے علاوہ کوئی چیز نہ کھاتے تھے۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے عبدالرزاق رحمة اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور کو آسان کر دیا گیا تھا اور آپ علیہ السلام اپنے گھوڑے پر زین کسنے کا حکم دیتے اور جب تک گھوڑے پر زین کسی جاتی تھی آپ علیہ السلام زبور کی قرأت ختم کر چکے ہوتے تھے اور آپ علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کے علاوہ کچھ تناول نہ فرماتے تھے۔

حدیث پاک ہے:
یہاں لفظ قرآن سے مراد زبور ہے جسے اللہ عزوجل نے بذریعہ وحی حضرت داؤد علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی۔
”اور عطا کی داؤد (علیہ السلام)کو زبور ۔“
زبور مشہور الہامی کتاب ہے اور یہ کتاب رمضان المبارک میں نازل ہوئی اور اس کے متعلق ہم اپنی تفسیر (تفسیر ابن کثیر)میں بیان کرچکے ہیں۔اس کتاب میں حکمت ودانائی کی باتیں ہیں اور جو معروف ہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu