Open Menu

Hazrat Abu Khasima - Article No. 2809

Hazrat Abu Khasima

حضرت ابوخثیمہ - تحریر نمبر 2809

(معجزات نبوی) ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ تبوک کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر روانہ ہو گئے تو حضرت خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باغ سے واپس گھر لوٹے ۔

منگل 18 دسمبر 2018

علامہ محمد ولید الاعظمی العراقی
ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ تبوک کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر روانہ ہو گئے تو حضرت خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باغ سے واپس گھر لوٹے ۔
دوپہر کا وقت تھا اور شدید گرم ہوا چل رہی تھی ۔حضرت ابوخثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو بیویاں تھیں ۔


دونوں نے اپنے کمرے سجائے ہوئے تھے اور کمرے اندر سے خوب صاف ستھرے کیے تھے ۔لذیذ کھانا پکا ہوا تھا اور ٹھنڈے پانی کے گھڑے بھرے پڑے تھے ۔
حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ چلا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی صبح تبوک کی طرف جائیں گے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کمروں کے دروازوں پر پہنچ کردیکھا کہ ان کی بیویاں ان کی منتظر ہیں ۔

(جاری ہے)

کمروں کے آرام اور باہر کی شدید گرم ہوا کے بارے میں حضرت ابوخثیمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ سے کہا:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلچلاتی دھوپ اور تپتے ریگستانوں میں گرم ہواؤں کے تھپڑوں کا مقابلہ کریں اور ابوخثیمہ ٹھنڈے سائے میں لذیذ کھانوں کے مزے لوٹے اور حسین عورتوں کی رفاقت کا لطف اُٹھا نے کے لیے دو پہر یہاں گزاردے ؟مجاہدین جا چکے اور ابوخثیمہ اپنے مال کی محبت میں گرفتار ہے ؟یہ اسلام کے خلاف اور ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے ۔

پھر فرمایا:
”خدا کی قسم! میں تم دونوں (بیویوں )کے گھروں میں سے کسی کے گھر میں ہر گز ہرگز داخل نہیں ہوں گا۔
میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا ۔میرا سامان فوراً تیار کردو۔“
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیویوں نے سفر کا سامان تیار کر دیا تو حضرت ابوخثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باغ میں پہنچے ۔اونٹنی پر کجاوہ کسا اور عین دوپہر کے وقت نکل کھڑے ہوئے ۔

ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس روز تبوک کے میدان میں اُترے ،اسی روز حضرت ابوخثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں جا پہنچے ۔راستے میں حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عمیر بن وہب الجمعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ہوئی ۔وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے نکلے تھے ۔یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔
تبوک سے قریب پہنچے توحضرت ابو خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمیر بن وہب الجمعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:
”اے عمیر میرے بھائی ! میں تو گناہ گار ہوں کہ بلاعذر پیچھے رہ گیا ،تیرا کوئی قصور نہیں ہے تو ذرا رک جا مجھے تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانے کا موقع دے دے ۔“
چنانچہ حضرت عمیر بن وہب الجمعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے رُک گئے۔
حضرت ابوخثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تبوک میں پہنچنے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں مقیم تھے ۔
جب حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریب پہنچے تو لوگوں نے کہا:
”یا رسول اللہ!(صلی اللہ علیہ وسلم )کوئی سوار اس جانب آرہا تھا۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ ابو خثیمہ ہو گا۔

جب حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپہنچے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
”یا رسول اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم )یہ واقعی ابو خثیمہ ہی ہیں ۔“
ابو خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی اونٹنی باندھی اور اتر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
”اے ابو خثیمہ ! تو ہلاکت کے کنارے پہنچ چکا تھا۔

حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی پوری کہانی سنائی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں برکت اور خیر کی دُعا مانگی ۔حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سن کر خوشی سے یہ شعر کہے:
”جب میں نے دیکھا کہ لوگوں نے دین میں منافقت کی روش اپنالی ہے ،تو میں نے وہ طرزِ عمل اختیار کیا جو خلوص پر مبنی ہے ۔
وہ طرز عمل یہ کہ میں اس شخصیت کے پاس آگیا جو بہت معاف کرنے والی اور ازحد فیض دینے والی ہے ۔“
”میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس بیعت کے بعد نہ کبھی کوئی گناہ کیا اور نہ چھپ چھپا کر حرام راستے پر چلا۔“
”میں نے اپنے گھر میں خوب صورت اوربنی سنوری (دو ،دو )عورتوں کو چھوڑ ااور بہت سی دودھ دینے والی اُونٹنیوں کے ریوڑ چھوڑ کر چل دیا۔
انگوروں کی بیلوں سے ہاتھ اٹھا لیا جبکہ ان کے گچھے پک کر سرخ ہو گئے تھے اور میں کھجوروں کے پکے ہوئے با غات کو بھی خیر باد کہہ کر چلا آیا۔“
”جب منافقین دینِ حق کے بار ے میں شکوک وشبہات کا شکار ہو جائیں گے تو میں نے دین کو مضبوطی سے پکر لیا ۔میرا مطبخِ نظر ہی دین تھا ،وہ جہاں بھی مجھے ملا میں نے اسے سینے سے لگالیا۔“

Browse More Islamic Articles In Urdu