Open Menu

Hazrat Imam Zain Alaabdin - Article No. 2496

Hazrat Imam Zain Alaabdin

حضرت امام زین العابدین (حصہ دوم) - تحریر نمبر 2496

فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وارثِ مقصد کر بلا امام زین العابدین رحمتہ اللہ نے 15جمادی الاول (بعض روایات 5شعبان )38ھجری کو مدینہ منورہ میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاکیزہ گھرانے میں آنکھ کھولی ۔آپ کی والدہ گرامی حضرت شہر بانو تاریخ کی عظیم ترین خواتین میں سے ایک ہیں

بدھ 17 اکتوبر 2018

آغا سید حامد علی شا ہ موسوی
پھر فرمایا عرب وعجم اس پر فخر کرتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے تھے اور قریش عرب پر اس لیے فخر کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریش میں سے تھے اور ہم ان کے اہلبیت ہیں لیکن ہم کو قتل کیا گیا،ہم پر ظلم کیا گیا ،ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اور ہم کو قید کرکے دربدر پھرایا گیا،گویا ہم عزت کی بلندیوں پر نہیں چڑھے اور بزرگوں کے فرش پر جلوہ افروز نہیں ہوئے آج گو یا تمام ملک یزید اور اس کے لشکر کا ہو گیا۔


یزید بہت خائف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے اس نے اس شخص سے ،جس نے امام کو منبر پر تشریف لے جانے کیلئے کہا تھا،کہا تیرا برا ہو تو ان کو منبر بر بٹھا کر میری سلطنت ختم کرنا چاہتا ہے ۔

(جاری ہے)

اس نے جواب دیا، بخدا میں یہ نہ جانتا تھا کہ یہ لڑکا اتنی بلند گفتگو کرے گا۔یزید نے کہا کیا تو نہیں جانتا کہ یہ اہلبیتِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم اور معدنِ رسالت صلی اللہ علیہ سلم کا ایک فرد ہے ۔

یہ سن کر موذن سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا اے یزید ”اذاکان کا کذالک فلما قتلت اباہ“جب تو یہ جانتا تھا تو تُو نے ان کے پدرِ بزر گوار کو کیوں شہد کیا؟موذن کی گفتگو سن کریزید برہم ہو گیا ،اور موذن کی گردن ماردینے کا حکم دیدیا۔
فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وارثِ مقصد کر بلا امام زین العابدین رحمتہ اللہ نے 15جمادی الاول (بعض روایات 5شعبان )38ھجری کو مدینہ منورہ میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاکیزہ گھرانے میں آنکھ کھولی ۔
آپ کی والدہ گرامی حضرت شہر بانو تاریخ کی عظیم ترین خواتین میں سے ایک ہیں جو آخری ساسانی بادشاہ یزد گرددوم کی بیٹی تھیں ۔اس نسبت سے امام علی ابن الحسین کا دد ھیال سرور کا ئنات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ننھیال نوشیرواں عادل سے تھا۔
آپ کی عبادت گزار ی اور زہدو تقوی انتہا تک پہنچا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ آپ زین العابدین ،سید الساجدین ،عابد اور سجاد کے لقب سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔
علامہ ابن حجر رقم طراز ہیں کہ آپ علم زہد اور عبادت میں نواسہ رسول امام حسین رضی اللہ عنہ کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔(صواعق محرقہ )امام زہری ،ابن مسیتب اور ابن عینیہ کہتے ہیں کہ ہم نے امام علی ابن الحسین رضی اللہ عنہ سے زیادہ افضل عبادت گزار اور فقیہہ کسی کو نہیں دیکھا۔امام مالک رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ کو کثرت عبادت کی وجہ سے زین العابدین کہا جاتا ہے ۔

حضرت عمر بن العزیز رحمتہ اللہ کو جب حجاز کا گورنر مقرر کیا گیا تو ان کے عہد گورنری میں 87ھ ء میں سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی ایک دیوار گرگئی تھی جب اس کی مرمت کا سوال پیدا ہوا،اور اس کی ضرورت محسوس ہو ئی کہ کسی مقدس ہستی کے ہاتھ سے اس کی ابتداء کی جائے تو عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ نے حضرت امام زین العابدین رحمتہ اللہ ہی کو سب پر ترجیح دی۔

کر بلا کے دشت میں بھوک پیاس کی عظیم آزمائش برداشت کرنے والے حضرت امام زین العابدین رحمتہ اللہ مدینہ کے سینکڑوں غریب گھروں کی کفالت فرماتے تھے اور سارا سامان ان کے گھر پہنچایا کرتے تھے جنہیں آپ معلوم نہ ہونے دیتے تھے کہ یہ سامان خوردونوش رات کو کون د ے جاتا ہے ۔آپ کا اصو ل یہ تھاکہ بوریاں پشت پر لاد کر گھروں میں روٹی اور آٹا وغیرہ پہنچا تے تھے اور یہ سلسلہ آپ نے تاحیات جاری رکھا۔
اہلِ مدینہ کا یہ کہنا تھا کہ امام زین العابدین رحمتہ اللہ کی زندگی تک ہم خفیہ غذائی رسد سے محروم نہیں ہوئے ۔جب امام شہید ہوئے تب انہیں پتہ چلا کہ کون انہیں غذا پہنچا یا کرتا تھا ۔
ظلم جبر اور پابندیوں کے تاریک دور میں امام زین العابدین رحمتہ اللہ نے انبیاء کے اسلحہ ،دعاؤں اور مناجات کے ذریعے تبلیغ کا راستہ اختیار کیا۔آج جب وطن عزیز کو ازلی دشمن بھارت کی مکاریوں کا سامنا ہے بھارت کی جنگی تیاریاں عروج پر ہیں دوسری جانب عالم طاقتیں ایک اسلامی طاقت ہونے کے ناطے پاکستان کے خلاف ہر حربہ استعمال کررہی ہیں ایسے حالات میں دشمنانِ دین و وطن کی سازشوں سے بچنے کے لئے خداوند عالم پر یقین کامل کے ساتھ امام زین العابدین رحمتہ اللہ کی یہ دعا بہتر ین مناجات اور درس عمل ہے ۔

”․․․․․․․کتنے ہی دشمن ہیں جنہوں نے میرے خلاف دشمنی کی تلوار کھینچی اور اپنے چھرے کی دھار کو صیقل کیا اور اپنی سختیوں کی باڑ کو تیز بنالیا اور میرے لیے قاتل زہر پانی میں ملا دیا ہے اور ایک لمحہ کیلئے بھی ان کے تعاقب کی نظریں غافل نہ ہو ئیں اور وہ دل میں یہ عزم لیے رہے کہ مجھے نامساعد حالات میں مبتلا کردیں اور سختیوں اور تلخیوں کے گھونٹ پلادیے لیکن اے پروردگار جب تونے دیکھا میں ان سنگینیوں کو برداشت کرنے سے کمزور ،آمادہ جنگ لوگوں کے مقابلے سے قاصر اور مجھے نشانہ ستم بنانے والے دشمنوں کی بہت بڑی تعداد کے سامنے تنہا ہوں تو میں نے اس سلسلے میں کچھ سوچا بھی نہ تھا لیکن تو نے بلا کہے بلا دعا کیے میری مدد کر دی اور میری کمر کو مضبوط ومستحکم کر دیا۔

میری خاطر دشمن کی باڑ کو کند کر دیا اور اسے اتنا بڑا لاؤ لشکر جمع کرنے کے باوجود بھی اکیلا کر دیا اور میرے پایہ کو اس سے بلند ترین کر دیا ۔جس تیر کا رخ اس نے میری طرف کیا تھا اسے اس کی طرف پلٹا دیا نہ اس کا غصہ فرو ہو سکا نہ اسکے دل کی آگ ٹھنڈی ہو سکی اور اس نے اپنی ہی بوٹیاں کا ٹ لیں اور اس طرح ناکام ہو کر منہ پھر ا یا کہ اس کے لاؤ لشکر نے اس سے بغاوت کرلی ۔
کتنے اس طرح کے بغاوت کرنے والوں میں فریب سے مجھ پر ظلم کیا اور شکاری جال میری راہ میں بچھائے ۔
اپنی نگاہ غضب کا پہرہ لگایا اس طرح گھات لگا کر بیٹھ گئے جیسے درندہ شکار میں بیٹھتا ہے کہ کس وقت شکار ملے اور وہ شکار کو پھاڑ ڈالے۔اس وقت بھی میرے سامنے خوشیوں کا اظہار اور انتہائی کینہ پرور نظروں سے دیکھتے رہے ۔مگر میرے خدایا جب تو نے اپنی بابرکت اور بلندو برتر ہستی کی بناء پر ان کی اندرونی خباثت کو دیکھ لیا اوریہ بھی دیکھ لیا کہ وہ برے جذبات اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں تو تونے انہیں سر کے بلندا نہی کے گڑھے میں دھکیل دیا اور ان کے کھودے ہوئے غار ہلاکت میں جھونک دیا۔
اب وہ اپنے غرورو تکبر کے مظاہرہ کے بعد ذلیل ورسوا ہو کر اپنے اس پھندے میں گرفتار ہو گئے ہیں جس میں کل مجھے دیکھنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔۔۔جو تیرے سایہ رحمت میں آجائے اسے کوئی پا مال نہیں کر سکتا اور جو تیری مدد کی پناہ لے لے وہ پریشان نہیں ہوتا ۔“
آپ اگر چہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر فرما رہے تھے لیکن روحانی ا قتدار آپ ہی کے پاس تھا۔
تخت و تاج والے ایسے سچائی کے مراکز کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ۔25محرم الحرام 95ھ مطابق 714ء کو آپ کو زہر دے دیا گیا جس کے سبب آپ درجہ شہادت پر فائز ہو گئے ۔شہادت کے وقت امام زین العابدین رحمتہ اللہ 57سال کے تھے ۔
آپ کے فرزند امام محمد باقر رحمتہ اللہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ مدینہ منورہ میں اپنے عمِ بزرگوار حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور دادی خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کر دیے گئے ۔
ملا جامی تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کا ناقہ قبر پر نالہ وفریاد کرتا ہوا تین روز میں مر گیا (شوہدا لنبوة)
امام زین العابدین رحمتہ اللہ کی زندگی کا ہر گوشہ پوری انسانیت کیلئے مینارہِ نور ہے ۔خالق کی بندگی ہویا مخلوق کی خدمت ،مصائب کا عزم وہمت سے مقابلہ ہویا ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ،مسلمانوں کی رہنمائی ہویا دشمنوں پر بھی احسان امام زین العابدین رحمتہ اللہ کا ہر عمل سیرت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پر تو تھا ۔
جب تک دنیا باقی ہے امام سجاد علی ابن الحسین زین العابدین رحمتہ اللہ کا کردار وعمل متلا شیان حق وصداقت کی رہنما کرتا رہے گا۔
جب جبر کی بارش ہو سر سورہ رحمن
جب ظلم سے ٹکرائے کسی دور کا انسا
ہونٹوں یہ پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا لے کے چلے گا
سجاد رحمتہ اللہ کی جرات کا عصا لے کے چلے گا

Browse More Islamic Articles In Urdu