Open Menu

Imam Jaffar Sadiq K Halat Munaqib - Article No. 2290

Imam Jaffar Sadiq K Halat Munaqib

امام جعفر صادق کے حالات ومنا قب - تحریر نمبر 2290

آپ امت محمدی کے لئے صرف بادشاہ اور حجت بنوی کے لئے روشن دلیل ہی نہیں بلکہ صدق وتحقیق پرعمل پیرا ہیں ۔اولیاء کتا ب کے باغ کا پھول ،آل علی ،نبیوں کے سردار کے جگر گوشہ او ر صحیح معنوں میں وارث نبی بھی ہیں

منگل 28 اگست 2018

تعارف : آپ کا نام نامی جعفر صادق او کنیت ابو محمد ہے ۔آپ کے مناقب اور کرامتوں کے متعلق جو کچھ بھی تحریر کیاجائے بہت کم ہے ۔ اور آپ کی عظمت وشان کے اعتبار سے ان خطبات کو کسی طرح بھی نامناسب نہیں کہا جا سکتا اور یہ بات ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ انبیاء اور صحابہ اور اہل بیت کے حالات اگر تفصیل کے ساتھ لکھے جائیں تو اس کے لئے الگ ضخیم کتاب کی ضرورت ہے ۔


حالات :حضرت امام جعفرصادق کا درجہ صحابہ کرام کے بعد ہی آتاہے لیکن اہل بیت میں شامل ہونے کی وجہ سے نہ صرف باب طریقت ہی میں آپ سے ارشادات منقول ہیں ،بلکہ بہت سی روایتیں بھی مروی ہیں اور انہیں کثیر ارشادات میں سے بعض چیزیں بطور سعادت ہم یہاں بیا ن کررہے ہیں اور لوگ آپ کے طریقے پر عمل پیرا وہ بارہ اماموں کے طریقت کا قائم مقام اور اگر صرف تنہا آپ ہی حالات ومناقب بیان کردئیے جائیں تو بارہ اماموں کے مناقب کا ذکر تصورکیاجائے گا ۔

(جاری ہے)

آپ نہ صرف مجموعہ کمالات وپیشوائے طریقت کے مشائخ ہیں بلکہ اربابِ ذوق اور عاشقانِ طریقت اور زاہد انِ عالی مقام کے مقتدا بھی ہیں نیز آپ نے اپنی بہت سی تصانیف میں راز ہائے طریقت کو بڑے اچھے پیرائے میں واضح فرمایا ہے اور حضرت امام باقر کے بھی کثیر منا قب روایت کئے ہیں ۔
عظمت اولیاء کا اظہار :خلیفہ منصور نے ایک شب اپنے بیٹوں کو حکم دیاکہ امام جعفرصادق کو میرے روبرو پیش کروتا کہ میں ان کو قتل کردوں ۔
وزیر نے عرض کیا کہ دنیا کو خیر باد کہہ کر جو شخص عزت نشیں ہوگیا اس کا قتل کرنا قرین مصلحت نہیں لیکن خلیفہ نے غضب ناک ہو کر کہا کہ میرے حکم کی تعمیل تم پر ضروری ہے ۔چنانچہ مجبوراََ جب وزیر اما م جعفر صادق کو لینے چلا گیا تو منصور نے غلاموں کو ہدایت دی کہ جس وقت میں اپنے سر سے تاج اتاروں تم فی الفور امام جعفرصادق کو قتل کر دینا لیکن جب آپ تشریف لائے تو آپ کی عظمت وجلال نے خلیفہ کو اس درجہ متاثر کیا کہ وہ بے قرار ہو کر آپ کے استقبال کے لئے کھڑا ہو گیا اور نہ صرف آپ کو صدر مقام پر بٹھایا بلکہ خود بھی مود بانہ آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کی حاجات اور ضروریات کے متعلق دریافت کرنے لگا ۔
آپ نے فرمایا میری سب سے بڑی حاجت و ضرورت یہ ہے کہ آئندہ پھر کبھی مجھے اس دربار میں طلب نہ کیا جائے تا کہ میری عبادت اور ریا ضت میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ چنانچہ منصور نے وعدہ کرکے عزت و احترام کے ساتھ آپ کو رخصت کیا لیکن آپ کے دبدبے کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ لرزہ بر ندام ہو کر مکمل تین شب وروزبے ہو ش رہا ۔لیکن بعض روایات میں ہے کہ تین نمازوں کے قضا ہونے تک غشی طاری رہی ۔
بہر حال خلیفہ کی یہ حالت دیکھ کر وزیر اور غلام حیران ہو گئے ۔اور جب خلیفہ سے اس کا حال دریافت کیا تو اس نے بتا یا کہ جس وقت امام جعفر صادق میرے پاس تشریف لائے تو ان کے ساتھ اتنا بڑا اژ دھا تھا جو اپنے جبڑوں کے درمیان پورے چبو ترے کو گھیرے میں لے سکتا تھا اور وہ اپنی زبان میں مجھ سے کہہ رہا تھا اگر تو نے ذراسی بھی گستا خی کی تو تجھ کو چبوترے سمیت نگل جاؤں گا ۔
چنانچہ اس کی دہشت مجھ پر طاری ہوگئی اور میں نے اُ سے معافی طلب کرلی۔ نجات عمل پر موقوف ہے نسب پر نہیں : ایک مرتبہ حضرت داؤ د طائی نے حاضر خدمت ہو کے امام جعفر صادق سے عرض کیا کہ آپ چونکہ اہل بیت میں سے ہیں ا س لئے مجھے نصیحت فرمائی ۔لیکن آپ خامو ش رہے اور جب دوبارہ داؤد طائی نے کہا کہ اہل بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو فضیلت بخشی ہے اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔
یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ مجھے تو یہی خوف لگا ہوا ہے کہ قیامت کے دن میرے جداعلیٰ ہاتھ پکڑ کر یہ سوال نہ کربیٹھیں کہ تو نے خود میرا اتباع کیوں نہیں کیا ؟کیونکہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں اعمال صالح پر موقو ف ہے ۔یہ سن کر داؤ د طائی کو بہت عبرت ہوئی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ جب اہل بیت پر خوف کے غلبہ کا یہ عالم ہے تو میں کس گنتی میں آتا ہوں اور کس چیز پر فخر کر سکتا ہوں ۔

نفاق سے نفرت : جب آپ تا رکِ دنیا ہو گئے تو حضرت سفیا ن ثوری نے حاضر خدمت ہو کر فرمایا کہ مخلوق آپ کے تا رک الدنیا ہو نے سے آپ کے فیوض عالیہ سے محروم ہو گئی ہے ۔آ پ نے اس جواب میں مندرجہ ذیل شعر پڑھے ۔
ذھب الو فا ذھاب انس الذاھب
والناس بن تخائل ومارب
”کسی جانے والے انسان کی طرح وفا بھی چلی گئی اور لوگ اپنے خیالات میں غرق ہو گئے ۔

یھشوں بینھم المودة والوفا
وقلو بھم محشور ة یعقا رب
”گو بظاہر ایک دوسرے کے ساتھ اظہار محبت کرتے ہیں لیکن ان کے قلوب بچھوؤں سے لبر یز ہیں ۔“
ظاہر مخلوق کے لئے باطن خالق کے لئے : ایک دفعہ آپ کو پیش بہا لباس میں دیکھ کر کسی سے اعتراض کیاکہ اتنا قیمتی لباس اہل بیت کے لئے مناسب نہیں ۔تو آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جب اپنی آستین پر پھیرا تو اس کو آپ کا لباس ٹا ٹ سے بھی زیادہ کھر درا محسوس ہوا۔
اس وقت آپ نے فرمایا :ھذا للخلق وھذاللحق ۔یعنی مخلوق کی نگاہوں میں تو عمدہ لباس ہے لیکن حق کے لئے یہی کھردرا ہے ۔
دانش مند کون ؟: ایک مرتبہ آپ نے امام ابو حنیفہ سے سوال کیا کہ دانشمند کی کیا تعریف ہے ؟ امام صاحب نے جواب دیاکہ جو بھلائی اور برائی میں امتیاز کرسکے ۔آپ نے کہا کہ امتیاز تو جانور بھی کرلیتے ہیں کیونکہ جو انکی خدمت کرتا ہے وہ ان کو ایذا نہیں پہنچاتے اور جو تکلیف دیتا ہے اس کو کا ٹ کھاتے ہیں ۔
امام حنیفہ نے پوچھا کہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی کیا علامت ہے ؟جواب دیا کہ جودوبھلائیوں میں سے بہتر بھلائی کو اختیار کرے ۔اور وہ برائیوں میں سے مصلحتا کم برائی پر عمل کرے۔ کبریائی رب پر فخر کرنا تکبر نہیں : کسی نے آپ سے عرض کیا کہ ظاہری وباطنی فضل وکمال کے باوجود آپ میں تکبر پایا جاتا ہے ۔آپ نے فرمایا میں متکبر تو نہیں ہو ں ۔البتہ جب میں نے کبر کو ترک کر دیا تو میرے رب کی کبریائی نے مجھے گھیر لیا ۔
اس لئے میں اپنے کبر پر نازاں نہیں ہوں بلکہ میں تو اپنے رب کی کبریائی پر فخر کرتا ہوں ۔
سبق آموز واقعہ : کسی شخص کی دینار کی تھیلی گم ہو گئی تو اس نے آپ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ میری تھیلی آپ ہی نے چرائی ہے ۔حضرت جعفر صادق نے اس سے سوال کیا کہ اس میں کتنی رقم تھی ؟اس نے کہا دوہزار دینار ۔چنانچہ گھر لے جاکر آپ نے اس کو دو ہزار دینا ر دے دئیے اور بعد میں اس کے کھوئی ہوئی تھیلی کسی دوسری جگہ سے مل گئی تو اس نے پورا واقعہ بیان کرتے ہوئے معافی چاہی اور آپ سے رقم واپس لے لینے کی درخواست کی لیکن آ پ نے فرمایا ہم کسی کو دے کرواپس نہیں لیتے ۔
پھر جب لوگوں سے اس کو آپ کا اسم گرامی معلوم ہوا اس نے بے حد ندامت کا اظہا ر کیا ۔
حق رفاقت :ایک مرتبہ آپ تنہا اللہ جل شانہ کاورد کرتے ہوئے کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ایک اور شخص بھی جل شانہ کا ورد کرتا ہوا آپ کے سات گیا ۔اس وقت آپ کی زبان سے نکلا کہ اے اللہ! اس وقت میرے پاس کوئی بہتر لباس نہیں ۔چنانچہ یہ کہتے ہی غیب سے ایک بہت قیمتی لبا س نمودار ہوا اور آپ نے زیب تن کر لیا لیکن اس شخص نے جو آپ کے ساتھ لگا ہوا تھا عرض کیا کہ میں تو جل شانہ کا ورد کرنے میں آپ کا شریک ہوں لہٰذا پرانا لباس مجھے عنایت فرما دیں ۔
آپ نے اپنا لباس اتار کر اس کے حوالے کردیا ۔
طریقہ ہدایت : کسی نے عرض کیا کہ مجھ کو اللہ کا دیدار کروادیجئے ۔آپ نے فرمایا کہ کیا تجھ کو معلو م نہیں کہ حضرت موسی سے فرمایا گیا تھا کہ لن ترانی تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتا ۔اس نے عرض کیا یہ تو مجھے بھی علم ہے لیکن یہ تو امت محمدی جس میں ایک تو یہ کہتا کہ رانی قلبی میرے قلب نے اپنے پروردگار کو دیکھا اور دوسرا یہ کہتا ہے کہ لم ارہ یعنی میں ایسے رب کی عبادت نہیں کرتا جو مجھ کو نظر نہیں آتا ۔
یہ سن کر آپ نے حکم دیا کہ اس شخص کے ہاتھ پاؤں باند ھ کر دریائے دجلہ میں ڈال دو ۔چنانچہ جب اس کو پانی میں ڈال دیا گیا اور پانی نے ا س کو اُوپر پھینکا تو اس نے حضرت سے بہت فریاد کی لیکن آپ نے پانی کو حکم دیا کہ اس کوخوب اچھی طرح اوپر نیچے غوطے دے اور جب کئی مرتبہ پانی غوطے دئیے اور وہ لب مرگ ہو گیا تو اللہ تعا لیٰ سے اعانت کا طالب ہوا ۔اس وقت حضرت نے اس کو پانی سے باہر نکلوا دیا اور حو اس درست ہونے کے بعد دریافت فرمایا کہ اب تو نے اللہ کو دیکھ لیا؟اس نے کہا کہ جب تک میں دوسروں سے اعانت کا طلبگار ہا ا س وقت تک تو میرے سامنے ایک حجاب تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اعانت کا طالب ہوا تو میرے قلب میں ایک سوراخ نمودار ہوا اور پہلی سی بے قرار ی ختم ہو گئی ۔
جیسا کہ باری تعالیٰ کا قول ہے کہ ”کون ہے جو حاجت مند پکارنے پر اس کا جواب دے “۔ آپ نے فرمایا جب تک تونے صادق کو آوازدی اس وقت تک تو جھوٹا تھا اور اب قلبی سوراخ کی حفاظت کرنا ۔
ارشادات : فرمایا جو شخص یہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ کسی خاص شے پر موجود ہے یا کسی شے سے قائم ہے وہ کافر ہے ۔فرمایا کہ معصیت سے قبل انسان میں خوف پیدا ہو وہ اگر تو بہ کر لے تو اس کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور جس عبادت کی ابتداء میں مامون رہنا ہو اور آخر میں خود بینی پیدا ہونا شروع ہوتو ا س کا نتیجہ بعد الٰہی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اور جو شخص عبادت پر فخر کرے وہ گنہگار ہے اور جو معصیت پر اظہار ندامت کرے وہ فرما بنردار ہے ۔
کسی نے آپ سے سوال کیا کہ صبر کرنے والے درویش اور شکر کرنے والے مالدار میں سے آپ کے نزدیک کو ن افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ صبر کرنے والے درویش کو اس لئے فضیلت حاصل ہے کہ مالدار کو ہمہ وقت اپنے مال کا تصور رہتا ہے اور درویش کو صرف اللہ تعالیٰ کا خیال ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ تو بہ کرنے والے ہی عبادت گزار ہیں ۔آپ فرماتے ہیں کہ ذکر الٰہی کی تعریف یہ ہے کہ جس میں مشغول ہونے کے بعد دنیا کی ہر شے کو بھول جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر شے کی نعم البدل ہے ۔
اور فرمایا کہ مومن کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنے مولیٰ کی اطاعت میں ہمہ تن مشغول رہے ۔فرمایا کہ صاحب کرامت وہ ہے جو اپنی ذات کیلئے نفس کی سر کشی سے آمادہ بہ جنگ رہے کیونکہ نفس سے جنگ کرنا اللہ تعالیٰ تک رسائی کا سبب ہوتا ہے ۔فرمایا اوصاف مقبولیت میں ایک وصف الہام بھی ہے جو لوگ دلائل سے الہام کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں وہ بد دین ہیں ۔فرمایا کہ اگر دشمنوں کی صحبت سے اولیاء کرام کو ضرر پہنچ سکتا ہے تو فرعو ن سے آسیہ کو پہنچتا اور اگر اولیاء کی صحبت دشمن کے لئے فائدہ مند ہوتی تو سب سے پہلے حضرت نوح اور حضرت کی ازواج کو فائدہ پہنچتا لیکن قبض اور بسط کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu