Open Menu

Islam Or Talwar - Article No. 3186

Islam Or Talwar

اسلام اور تلوار - تحریر نمبر 3186

یہ حقیقت ہے کہ اسلامی دور کبھی تلواروں سےجدانہیں رہالیکن اس تلوار کو اسلام کی حفاظت کے لیے استعمال کیا گیا البتہ اسلام کی تبلیغ حسن اخلاق سے ہی ممکن ہوئی

بنت مہر منگل 25 جون 2019

ایک انگریزی بلاگ نے مارچ 2019 میں ہونے والے نیوزی لینڈ دہشت گرد حملے کے حوالے سے ایک انگریزی مقالہ لکھنے کے لیےکہا جس پرمیں نے ایک تفصیلی اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے غیر مسلموں کی جانب سے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے پروپیگنڈے سے پردہ اٹھاتے ہوئے حقائق کے ساتھ ان کا رد کیا لیکن میری انتھک محنت سے تیار کر دہ مقالے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ اسلام تو بذات خود تلوار کے زور پہ پھیلا تھا اور آپ اسلام کو ایسے پر امن مذہب کے طور پہ پیش کر رہی ہیں جس کا تلوار اور جنگ سے دور دور تک کا واسطہ نہ رہا ہو حالانکہ اسلام اور تلوار کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے چلیں مان لیا ایسا ہی ہے لیکن جس پیرائے(جہاد) میں آپ یہ نعرہ لگاتے ہیں اس سے مقصود اسلام کی تبلیغ نہیں بلکہ حفاظت تھی جیسا کہ سورۃ بقرہ آیت نمبر 190 میں ارشاد باری تعالی ہے
"اور تم اللہ کی راہ میں ان سے لڑوجو تم سےلڑتے ہیں اور کسی پر زیادتی نہ کرو بے شک اللہ تعالی زیادتی کرنےوالوں کو پسند نہیں کرتا"
یہ حقیقت ہے کہ اسلامی دور کبھی تلواروں سےجدانہیں رہالیکن اس تلوار کو اسلام کی حفاظت کے لیے استعمال کیا گیا البتہ اسلام کی تبلیغ حسن اخلاق سے ہی ممکن ہوئی جس کی ایک عمدہ مثال فتح مکہ کے موقع پہ پیش کی گئی جب تاجدار دو عالمﷺ نے شہنشاہ اسلام کی حیثیت سے حرم الہی میں پہلا دربار عام منعقد فرمایا جس میں افواج اسلام کے علاوہ ہزاروں کفار و مشرکین کے خواص و عام کا ایک زبردست ازدھام تھااقوام عالم سے ایک خطاب کے بعد شہنشاہ کونین نے اس مجمعے پر نگاہ ڈالی تو اشراف قریش میں ان ظالموں کو بھی پایا جنہوں نے آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے، آپ پر پتھروں کی بارش کی،قاتلانہ حملے کئے ان میں وہ بے رحم بھی تھے جنہوں نے آپﷺ کے دندان مبارک شہید کیے اور آپﷺ کا چہروہ انور لہولہان کیا۔

(جاری ہے)

وہ اوباش بھی تھے جنہوں نے اپنی شرمناک گالیوں اور بہتان تراشیوں سے قلب اطہر کو زخمی کیا ۔وہ سفاک بھی تھے جنہوں نے آپﷺ کے مبارک گلے میں پھندہ ڈال کر آپﷺ کا گلا گھونٹا اور آپﷺ کی شہزادی حضرت زینب کونیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا۔آپﷺکے پیارے چچا حضرت حمزہ کا قاتل اور ان کےناک،کان کاٹنے والے،ان کی آنکھیں پھوڑنے والے اور ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھےآپﷺ کے جانثار صحابہ اکرام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے ستم گار بھی مجرم بنے کانپ رہے تھےاور یہ سب اپنے دلوں میں سوچ رہے تھے کہ آج انصار و مہاجرین کی یہ غضب ناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملا کر ہماری نسلوں کو نیست و نابود کر ڈالیں گی ہماری بستیوں کو تہس نہس کر ڈالیں گی اور ان دہشت ناک سوچوں کی وجہ سے انہیں زمین سے آسمان تک ناامید و مایوسی کے بادل نظر آرہے تھےکہ اس مایوسی اور ناامیدی کی خطرناک فضا میں شہنشاہ رحمت کی نگاہ رحمت ان کی طرف متوجہ ہوئی اور آپ نے ان مجرموں سے پوچھا
"بولو!تم کو کچھ معلوم ہے؟کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں"
اس سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر لرزتے ہوئے یک زبان ہو کر بولے آپ کرم والے بھائی اور کرم والےباپ کے بیٹے ہیں
شہنشاہ نبوت کا جواب سننے کے لیےتمام مجرموں کےجسموں کو روئیں روئیں کان بن گیا اور دفعتا فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا
"آج تم پر کوئی الزام نہیں ،جاؤ تم سب آزاد ہو۔
"
یہ غیر متوقع اعلان رسالت سن کر مجرمین کی آنکھیں ندامت سے اشکبار ہو گئیں شکرانے کے آنسو آنکھوں سے بہنے لگے اور کفار کی زبانوں سے "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کے نعروں سے حرم کعبہ کے درودیوار گونجنے لگے
رحمت کایہ اعلان یہیں پہ ختم نہیں ہوا بلکہ کفار نے مہاجرین کے جائدادوں ،مکانوں اور دوکانوں پر جو غاصبانہ قبضہ جمایا ہوا تھااب وقت تھا کہ مہاجرین کی سب جائیدودوں ،مکانوں اور دوکانوں کے قبضے سے چھڑوا کر مہاجرین کے سپرد کیا جاتا لیکن شہنشاہ رسالتﷺ نے مہاجرین کو حکم دیا کہ وہ اپنی کل جائیدادیں خوشی خوشی مکہ والوں کو ہبہ کر دیں
اسلام تلوار کے زور پہ پھیلنے کانعرے لگانے والو!بتاؤکیا یہ تلوار کے زور پہ اسلام پھیلانے کا بہترین موقع نہیں تھا؟ اقوام عالم میں آج تک کوئی ایسا فاتح گزرا ہے جس نے اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کیا ہو؟ کیا زمینوں آسمان کے درمیان کوئی ایسا تاجدار دیکھا ہے جو بدلے کی پوری طاقت رکھتے ہوئے اپنی عزیز ہستیوں کے قاتلوں کو معاف کر دے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ فتح مکہ رحمت کا وہ بے مثال شاہکار ہے اس عالم میں جس کا تصور بھی محال ہے
رحم کی آس پہ تھر تھر کانپتے مجرموں کو اسلام قبول کرنے کی شرط پہ معافی دینے کی صورت پیش کی جاتی تو کون تھا جو اسلام قبول کرنے سے انکار کرتا ؟ لیکن ایسا ممکن ہی نہیں تھا کیونکہ قرآن کریم میں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 256 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے''
قرآن پاک کے ان الفاظ نے'اسلام تلوار کے زور پہ پھیلا 'کے نعرے کا ردکر دیااور مسلمانوں نے اپنےرب کے حکم کو مانتے اور رسول ﷺ کی سنت پہ چلتے ہوئے انہی کا رستہ اپنایاجس کی تائید تاریخ کی کتابوں میں درج حقائق کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ 1099 میں صلیبیوں نے یروشلم فتح کرنے کے بعد مسلمانوں کا قتل عام کیا اس کے بعد جب مسلمانوں نے 450 سال تک فلسطین پر حکومت کی اس وقت بھی ملک میں عیسائیوں کی اکثریت تھی اور اتنے لمبے عرصے کے دوران اسلامی حکومت کی طرف سے کسی بھی عیسائی کو جبراً مسلمان کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اسی طرح سپین میں مسلمانوں کی 8 صدیوں تک حکومت رہی اوراس طویل دور حکومت یہودی اہم عہدوں پر فائز رہے اسلامی سپین میں یہودی شاعر سائنسدان اور وزیر تھےجس کی ایک مثال یہودا لاوی ہے جو ایک معروف ہسپانوی شاعر اور عظیم فلاسفر تھا اس کے علاہ اسپین کے شہر ٹولیڈو میں عیسائی یہودی اور مسلمان علماء اکٹھے کام کرتے ہوئے قدیم یونانی فلاسفی کا ترجمہ کرتے تھے۔
اس کے برعکس جب عیسائیوں نے سپین کو دوبارہ فتح کیا تو انہوں نے مذہبی دہشت گردی شروع کرتے ہوئے مسلمانوں اور یہودیوں کے سامنےظالمانہ پیشکش رکھی جس کے مطابق انہیں آگ میں جل کر مرنے،عیسائی مذہب کی قبولیت یا ترک وطن میں سے کوئی ایک صورت اختیارکر نا تھی اور یوں عیسائیت قبول نہ کرنے کے جرم میں وہ فرار ہونے اور دوسرے ممالک میں پناہ لینے پہ مجبور ہو گئے ۔
خلافت عثمانیہ میں بلگارنیہ، سربیہ ، رومانیہ اور بہت سی دوسری یورپی قوموں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی اور انہیں کبھی بھی مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا مسلمانوں کی عرب پر قریب 1400 سال حکومت رہی مگر آج بھی عرب میں 14 ملین عیسائی بستے ہیں جو نسل در نسل کئی پشتوں سے عیسائی چلتے آ رہے ہیں ۔ہندوستان میں اسلامی دور حکومت کے ایک ہزار سال کے دوران ایک بھی غیر مسلم کو طاقت کے استعمال سے مسلمان ہونے پہ مجبور نہیں کیا گیا مسلمانوں نے کئی صدیاں یونان پر حکومت کی کیا یونانی مسلمان ہوئے؟انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے ملائیشیا کی آبادی میں مسلمان اکثریت میں ہیں کس مسلم فوج نے اتنی بڑی تعداد کو جبراً مسلمان ہونے پہ مجبور کیا؟
Reader’s digest Almanac, year book 1986 کے ایک تحقیقاتی مقالے میں1934 سے 1984 تک نصف صدی میں دنیا کے بڑے مذاہب کی بڑھتی ہوئی شرح فیصد کا اعدادو شمار دیا گیا تھاجس کے مطابق دین اسلام 235فیصد شرح پھیلاؤکے ساتھ سرفہرست رہا اور عیسائیت کے پھیلنےکی شرح صرف 47 فیصد رہی۔
مشہورامریکی تحقیقی ادارے" پیو ریسرچ سنٹر"کی ریسرچ کے مطابق اسلام دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے 2010 تک دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ تھی جو دنیا کی کل آبادی کا 23 فیصد ہے جوجبکہ اس وقت اسلام عیسائیت کے بعد دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن چکا ہے اور موجودہ صدی کے اختتام تک مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے زیادہ ہو جائے گی ۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق اگرچہ اس وقت انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے جس کی تقریبا 21 کروڑ مسلمان آ باد ہیں مگر 2050 تک یہ اعزاز غیر اسلامی ملک بھارت کو مل جائے گا اور تب وہاں 31 کروڑ مسلمان آباد ہوں گے۔پیو ریسرچ سنٹر کی تحقیقی رپورٹ کی رو سے 2010 میں یورپ میں 40 لاکھ مسلمان آباد تھے یہ یورپ کی کل آبادی کا 6 فیصد تھے مگر 2050 تک وہ یورپی آبادی کا 10 فیصد بن جائیں گے حالیہ سروے کے مطابق روس 1 کروڑ 40 لاکھ جرمنی 48 لاکھ فرانس 47 لاکھ برطانیہ 30 لاکھ اور اٹلی 22 لاکھ اور 30 ہزار مسلمان تعداد کے ساتھ وہ یورپی ملک ہیں جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2015 میں امریکہ میں 3 کروڑ 30 لاکھ مسلمان آباد تھے جو کل آبادی کا تقریباایک فیصد حصہ ہے ان میں 63 فیصد مہاجر مسلمان ہیں تاہم 2050 تک امریکہ کی کل آبادی میں 2۔
1 فیصد مسلمان ہوں گے گویا ان کی تعداد یہودیوں سے بڑھ جائے گی اور اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا کس تلوار کے زور سے اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے؟حیرت انگیز بات یہ ہے کہ زبردست مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود اسلام دنیا میں بغیر تلوار اور طاقت کے استعمال کےسب سے تیزی سے وسعت پانے والےمذہب کا اعزاز حاصل کر چکا ہے اور اس کی وجہ اسلامی تعلیمات کی خوبصورتی ،سچائی اور مسلمانوں کا حسن سلوک ہے برطانیہ میں نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سےلوگ اسلام جیسے امن پسند مذہب کی جانب راغب ہو رہے ہیں ۔
نائن الیون کے بعد صرف برطانیہ میں ایک لاکھ لوگ اپنا پرانا مذہب چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں ویلز یونیورسٹی کے محقق کیون بروس کے مطابق ہر سال 5200 افراد دائرہ اسلام میں داخل ہور ہے ہیں ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ قابل ذکر وقت گزارا اور ان سے متاثر ہوئے ۔پس ثابت ہوا کہ اسلام آج بھی حسن اخلاق سے دوسروں کو اپنی جب مائل کرتا ہے اور یہی سچ ہے کہ دل حسن اخلاق سے ہی جیتے جاتے ہیں تلوار اور زور زبردستی سے صرف علاقے فتح کیے جاسکتے ہیں دل تلواروں سے تابع نہیں ہوتے اور یہ بات پیغمبر اسلام اور ان کے پیروکاروں نے اپنے حسن عمل سے دوسروں کو اپنا اور دین اسلام کا گرویدہ بنا کر ثابت کر دی
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے

Browse More Islamic Articles In Urdu