جی بی ٹو کے نتائج کے ممکنہ اعلان کیخلاف پیپلزپارٹی کا احتجاج ، مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں متعد دزخمی

جھڑپو ںکے بعد حالات مزید کشید ہوگئے ،مشتعل مظاہرین نے سرکاری گاڑیاں واملاک نذر آتش کردیں، پولیس کی اضافی نفری طلب پی ٹی آئی امیدوار کو جتوانے کیلئے الیکشن کمیشن کا ریکارڈ تک غائب کر دیا گیا، چیف الیکشن کمشنر نے فرانزک کروانے سے قبل حلقہ دو کا رزلٹ دے کر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ووٹ پیپلز پارٹی کے زیادہ ہوں اور زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کو مل جائیں، پیپلز پارٹی سی25 افراد نے شرپسندی کی، سی سی ٹی وی کی مدد سے تفتیش کاآغاز ، حالات دوبارہ بگڑے تو کرفیو بھی لگایا جاسکتا ہے، ڈی آئی جی وقاص احمد

پیر 23 نومبر 2020 23:18

گلگت/اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 نومبر2020ء) گلگت بلتستان ٹو کے نتائج کے ممکنہ اعلان کے خلاف پیپلزپارٹی کی جانب سے احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپو ںکے بعد حالات مزید کشید ہوگئے ،مشتعل مظاہرین نے سرکاری گاڑیاں واملاک نذر آتش کردیں، پولیس کی اضافی نفری طلب کرلی گئی ،حالات کو کنٹرول کر نے کیلئے کرفیو کے نفاذ کا امکان ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ پی ٹی آئی امیدوار کو جتوانے کیلئے الیکشن کمیشن کا ریکارڈ تک غائب کر دیا گیا، چیف الیکشن کمشنر نے فرانزک کروانے سے قبل حلقہ دو کا رزلٹ دے کر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ووٹ پیپلز پارٹی کے زیادہ ہوں اور زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کو مل جائیں۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں سب سے دلچسپ مقابلہ جی بی ٹو میں ہوا جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار فتح اللہ نے پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل احمد سے صرف 2 ووٹوں کے فرق سے انتخاب جیتا تاہم پی پی پی نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔پیپلزپارٹی کی جانب سے احتجاج کے بعد جی بی ٹو میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی گئی تاہم اس میں بھی تحریک انصاف کے امیدوار کی ہی جیت ہوئی۔

ریٹرننگ افسر کی جانب سے جاری کردہ نتیجے کے مطابق پی ٹی آئی امیدوار فتح اللہ خان اس بار 96 ووٹوں سے کامیاب قرار پائے۔جی بی ٹو کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے امیدوار فتح اللہ خان کو 6 ہزار880 ووٹ ملے اور پیپلز پارٹی کے جمیل احمد 6 ہزار 764 ووٹ لے کر کر دوسرے نمبر پر رہے۔دوسری جانب پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کیا، اس دوران مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئی جس میں شدت کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے، مظاہرین نے سرکاری گاڑیاں و املاک نذر آتش کردیں ۔

ریور ویو روڈ اور مختلف مقامات پر مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں، کشیدہ صورت حال کے بعد پولیس کی اضافی نفری طلب کرلی گئی۔ریور ویو، ائیرپورٹ روڈ سمیت گلگت شہر کے مختلف مقامات پر پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔پولیس نے ہوائی فائرنگ کے علاوہ آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔ اس دوران مختلف مقامات پر سڑکوں پر ، محکمہ جنگلات کے دفتر اور 4 سرکاری گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔

ڈی آئی جی گلگت رینج وقاص احمد کے مطابق احتجاج کے دوران 20 سی25 افراد نے شرپسندی کی، سی سی ٹی وی کی مدد سے تفتیش کاآغاز کردیاگیاہے۔ڈی آئی جی نے کہاکہ حالات ابھی کنٹرول میں ہیں، اگر حالات دوبارہ بگڑے تو کرفیو بھی لگایا جاسکتا ہے۔دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی امیدوار کو جتوانے کیلئے الیکشن کمیشن کا ریکارڈ تک غائب کر دیا گیا، چیف الیکشن کمشنر نے فرانزک کروانے سے قبل حلقہ دو کا رزلٹ دے کر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ووٹ پیپلز پارٹی کے زیادہ ہوں اور زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کو مل جائیں۔

مصطفی نواز کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت گلگت بلتستان کا الیکشن چوری کرنے کے بعد اب تشدد پر اتر آئی ہے، لوگ اپنا ووٹ چوری ہونے کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے ہیں تو ان پر شیلنگ کی جا رہی ہے، پرامن مظاہرین پر تشدد کروا کر وفاقی حکومت حالات خراب کرنا چاہتی ہے، لوگ اس فاشسٹ حکومت کو اب مزید برداشت نہیں کریں گے، گلگت بلتستان میں حالات خراب ہوئے تو اس کے ذمہ دار چیف الیکشن کمشنر راجہ شہباز اور وفاقی حکومت ہوں گے۔

گلگت میں شائع ہونے والی مزید خبریں