وزیراعظم کی جانب سے لائیو سٹاک شعبہ میں انقلابی اقدامات میں حل طلب مسائل کا بھی انکشاف ہوا ہے ، ڈاکٹر علمدار حسین ملک

جمعہ 14 دسمبر 2018 19:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 دسمبر2018ء) وزیراعظم پاکستان کی جانب سے لائیو سٹاک شعبہ میں انقلابی اقدامات قابل ستائش ہونے کے ساتھ حل طلب مسائل کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ کروڑوں بھینسیں ‘ گائے ‘ بکریاں ‘ بھیڑیں منہ کھر بیماری کا شکار ہوجاتی ہیں ‘ ویکسین بنانے والے ادارے زوال پذیر اور جانوروں کی افزائش نسل کی بے ڈھنگی اور بے نسلی ویکسین نے غربت کی لکیر میں دھنسے افراد کو مزید سطح غربت سے نیچے لے جانے کا سبب ہیں‘ ملک میں ڈریپ سطح کا جانوروں کیلئے علیحدہ بورڈ اور ادویات کی چنائو سے متعلق فیصلہ سازی قانونی پیچیدگیاں ‘ امپورٹ ایکسپورٹ کے راستوں میں حائل دیواروں کا خاتمہ سمیت دیگر درجنوں اقدامات لائیو سٹاک کی سطح کو بلند کرنے کیلئے اعلان سے قبل اٹھانا ناگزیر ہے‘ ملک میں زرعی پیداوار کی چار بڑی فصلوں سے زیادہ دودھ کی پیداوار سے حاصل ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر لائیو سٹاک سابق مالیاتی مشیر وزارت خزانہ و سیکرٹری رجسٹرار و ویٹنری ‘ میڈیکل کونسل ڈاکٹر علمدار حسین ملک نے گزشتہ روز خصوصی گفتگو میں کیا۔ ڈاکٹر علمدار حسین ملک کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں سات کروڑ سے زائد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ اور یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ کسی بھی ملک میں اس وقت تک ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہوسکا جب تک انہوں نے لائیو سٹاک کی بہتری کیلئے مدبرانہ اقدامات نہ کئے ہوں۔

لیکن یہاں مسائل در مسائل ہونے کے باعث وزیراعظم عمران خان کی سوچ تو بہترین مگر حائل رکاوٹوں کے باعث عملی جامہ پہنانا مشکل ترین لگ رہا ہے۔ عملدار حسین ملک نے کہا کہ ملک میں سوا چار کروڑ گائے ‘ سوا تین کروڑ بھینسیں ‘ چار کروڑ سے زائد بھیڑیں ‘ سات کروڑ کے قریب بکریاں منہ کھر سے متاثر ہوسکتی ہیں ان کو بچانے کیلئے تین ملین سے زائد حفاظتی ٹیکہ جات درکار ہیں اور یہ ٹیکہ جات سال میں دو بار لگائے جانا مقصود ہیں جبکہ واحد ویٹنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی سالانہ پیداوار بارہ ملین کے قریب ہے چین‘ انڈیا ایران اور ترکی نی1970 اور 80 کی دہائی میں لائیو سٹاک شعبہ کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے سب سے پہلے منہ کھر ویکسینیشن پلانٹ نصب کئے تھے۔

مگر یہاں ملک میں جانوروں کی بہتر نگہداشت اور اس سے متعلق دیگر سرکاری و نیم سرکاری اداروں نے غفلت کا مظاہرہ کرکے پالیسی ساز اداروں کو منہ کھر کے نقصانات سے متعلق کوئی آگاہی مہم نہ دے سکے۔ جس کے باعث ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے دن دگنی رات چگنی جبکہ غربت کی لکیر سے مزید نیچے آنے کیلئے ہم نے چار ضرب چار کی رفتار سے اوپر جانے کی بجائے نیچے آتے چلے گئے۔

منہ کھر موذی بیماری ہونے کے ساتھ جانوروں میں دھیرے دھیرے سریت کرنے والا مرض ضرور ہے مگر اس کا ڈائریکٹر اثر مویشی پال کسان پر ہوتا ہے۔ یوں محتاط اندازے کے مطابق دس ارب روپے سے زیادہ کا نقصان اس مہلک بیماری کے باعث مویشی پال کسان کا ہو جاتا ہے۔ موذی بیماری کے باعث دودھ دینے والے جانوروں کی پیداوار کم ‘ گوشت کی کمی اور حاملہ جانوروں کیلئے جان کا خطرہ سمیت دیگر نقصانات تیزی کے ساتھ سریت کرتے ہیں اور اس کا اثر مویشی پال کسان پر ہوتا ہے۔

دوسری جانب سوال کے جواب میں علمدار حسین ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس حوالہ سے قطعاً قانون سازی نہیں اور نہ ون ہیلتھ یونٹ کے تصور کے اوپر ہم سر جوڑ کر کسی فورم پر بیٹھے ہیں۔ ایسی ادویات کی روک تھام سرفہرست ہونی چاہیے اور اس کی بڑی وجہ ادویات کی رجسٹریشن کا عمل ہے۔ دودھ کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جانوروں کی ہڈیوں کو نچوڑنے والے انجیکشن تو مارکیٹ میں سرعام بیچے جارہے ہیں جبکہ جانوروں کی بیماری سے متعلق کسی بھی سٹور میں ادویات دستیاب نہیں ہیں۔

دوسری جانب پالیسی ساز اداروں نے لائیو سٹاک کی ترقی کیلئے کوئی خاطر خواہ ایکسپرٹ ہونا تو دور کی بات وہاں ان کی نمائندگی بھی نہیں دیکھی گئی حتیٰ کہ ویٹنری ادویات کی رجسٹریشن کا علیحدہ بورڈ ہونا ایک خواب بن چکا اور جس بورڈ میں انہیں نمائندگی دی گئی صرف دو ممبران ہونے کے باعث ان کی کسی بھی بات کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ادھر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے لائیو سٹاک کی ترقی کے حوالے سے جو ٹاسک فورس بنائی ہے ان میں سے متعدد افراد کو بھیڑ اور بکری کے درمیان فرق کا بھی پتہ نہیں۔

ایسے افراد وزیراعظم کے ویژن کو کیسے پروان چڑھا سکتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں عملدار حسین ملک کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں ہنگامی طور پر ملک میں منہ کھر ویکسین پلانٹ لگانے کیلئے حکومت کو فی الفور اقدامات کرنے چاہیں نسل بڑھوتری پر بہترین اور اعلیٰ نسل کی ویکسین درآمد کرنے کے ساتھ کسانوں کو کنٹرول ریٹ پر بھی دی جانی چاہیے۔ اور کراچی میں موجودہ دنیا کی سب سے بڑی بھینس کالونی جس میں پندرہ لاکھ سے زائد گائے اور بھینسیں موجود ہیں اس کالونی کیلئے ایک پیکج تیار کیا جائے تاکہ اس کی افزائش کو مزید بہتر اور ڈیری پر مزید اقدامات کئے جاسکیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں